فائز عیسیٰ کیس: ’ججز قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی احتساب سے بالاتر نہیں‘: سپریم کورٹ


سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے 10 رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ججز قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی احتساب سے بالاتر نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان درخواستوں کی سماعت کے نتیجے میں اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ریفرنس ٹھیک نہیں بنا تو اس بنا پر ہو سکتا ہے حکومت کا احتساب ہو۔ عدالت نے وفاق کے وکیل فروغ نسیم سے کہا کہ وہ یہ ثابت کریں کہ اہلیہ کو جائیداد خریدنے کے لیے جج نے پیسے دیے۔

وفاق کے وکیل بریسٹر فروع نسیم کا کہنا تھا کہ جائیدادیں سپریم کورٹ کے جج کی اہلیہ کی ہیں لیکن لگتا ہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10رکنی بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت کی تو وفاق کے وکیل فروع نسیم نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزیر قانون، وزیر اعظم، صدر مملکت سب قابل احتساب ہیں اور کوئی بھی احتسباب سے بالاتر نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’عدلیہ پر عوام کا اعتماد بڑا مقدس ہوتا ہے اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد مجروح نہیں ہونا چاہیے۔‘

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مقدمہ عدلیہ کی آزادی کا ہے، جس پر فروع نسیم کا کہنا تھا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کا مقدمہ بھی ہے۔

وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکن اسمبلی اپنی رکنیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جج بھی سروس آف پاکستان میں آتا ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو دلائل دے رہے ہیں ’یہ آپ کا مقدمہ نہیں ہے‘۔

بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی دلیل یہ تھی کہ ان کا مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے شوکاز نوٹس جاری ہونے کا ہے اور سپریم کورٹ کے جج کے خلاف مواد سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے آنے کے بعد باقی چیزوں کی اہمیت نہیں رہی۔

فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ جج کے مِس کنڈکٹ کو کسی قانون کی خلاف ورزی تک محدود نہیں کر سکتے۔ انھوں نے کہا کہ اہلیہ معزز جج کی فیملی کا حصہ ہیں اور سپریم کورٹ کے جج اور ان کی اہلیہ نے لندن کی جائیدادیں ظاہر نہیں کیں۔ اُنھوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 میں اہلیہ کے زیر کفالت ہونے کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں رکھی گئی۔

بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل سے سوال کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے جج کے خلاف ذرائع سے زیادہ آمدن کا مواد کیا تھا۔ اُنھوں نے فروغ نسیم سے یہ بھی سوال کیا کہ کسی فورم پر یہ ثابت کریں کہ اہلیہ کو جائیداد خریدنے کے لیے جج نے پیسے دیے۔

فروع نسیم نے کہا کہ آج کے دن تک معزز جج کی طرف سے اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ اگر اہلیہ کو اپنے والدین سے کچھ ملے تو کیا وہ بتانا بھی خاوند کی ذمہ داری ہے، جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو اس کا تعین کس فورم پر ہوگا۔ فروع نسیم نے جواب دیا کہ سروس آف پاکستان کے تحت یہ جواب خاوند نے ہی دینا ہے۔

فروع نسیم نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ سرکاری ملازم کا بیٹا لگژری گاڑی چلاتا پھرے اور اس سے کوئی پوچھے بھی نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کا مقدمہ جائیدادوں کی ملیکت سے متعلق ہے کسی کے رہنے سہنے کے انداز کا مقدمہ آپ کا نہیں ہے‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ریفرنس میں منی لانڈرنگ اور فارن ایکسچینج کی منتقلی کی بات کی گئی ہے اس کے بارے میں دلائل دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کونسا ریکارڈ ہے جس سے اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ لگتے ہوں۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الزام یہ ہے کہ لندن کی جائیدادیں کیسے خریدی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں تشویش جائیداد خریدنے کے ذرائع پر ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس یحیٰ آفریدی نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے یہ دلائل تسلیم کر لیں تو پھر تمام ججز سے ٹیکس کا جوڈیشل کونسل ہی پوچھے گی، جس پر فروع نسیم کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کونسل جج کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لے سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ اگر ایف بی آر کہہ دے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے جائیدادیں اپنے وسائل سے حاصل کی ہیں تو پھر صورتحال کیا ہو گی۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ’آپ کا مقدمہ ٹیکس قانون کے آرٹیکل 116 کی خلاف ورزی کا ہے‘، جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مرکزی مقدمہ ہے کہ کن وسائل سے یہ جائیدادیں خریدی گئیں اور آرٹیکل 116 کی خلاف ورزی ایک چھوٹا سا نقطہ ہے۔‘

سپریم کورٹ

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا جج صاحب ایف بی آر سے اپنی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ لے سکتے ہیں اور اگر ایف بی آر راز داری کی وجہ سے جج صاحب کو اہلیہ کا ریکارڈ نہیں دے گا تو انضباطی کارروائی کا سامنا کسے کرنا پڑے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر جج کی اہلیہ ایف بی آر کو مطمئن نہ کر پائیں تو اثاثے چھپانے کا کیس اہلیہ پر بنے گا، جج پر نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل کے سامنے یہ سوال بھی رکھا کہ وہ کوئی ایسا قانون دکھا دیں کہ خود کفیل اہلیہ وسائل بتانے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر بوجھ جج پر آئے گا۔

وفاق کے وکیل نے جواب دیا کہ اس جائیداد کے بارے میں وضاحت نہ آنا بڑا اہم ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کس قانون کے تحت کونسل جج سے اہلیہ کی جائیداد کے بارے پوچھ سکتی ہے, جس پر وفاق کے وکیل نے کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کی اور کہا کہ وہ سب سوالوں کے جواب دیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل سے کہا کہ عدالت نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی طرف سے عوامی عہدہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات بھی مانگی تھیں جو ابھی تک فراہم نہیں کی گئیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے اور ’جج پر جو مرضی کیچڑ اچھال دیں، اس کے بعد پھر کہیں گے کہ جج کی ساکھ خراب ہو گئی‘۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر بھی شیئر ہوتی ہے جو زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ انھوں نے کہا کہ لیکن یہاں پر جج کی اہلیہ اور بچوں کی لندن میں مہنگی جائیدادیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہو گا کہ جج صاحب اہلیہ کی جائیداد پر وضاحت نہیں دے رہے۔

ان درخواستوں کی سماعت 16 جون تک ملتوی کردی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp