گورنر پنجاب: از کار رفتہ پارسائی یا دیوانہ بکار خویش ہوشیار


موم کی ناک میں تو پھر کچھ مزاحمت ہوسکتی ہے لیکن وطن عزیز میں مذہب پر اتنے تجربے کئے جا چکے کہ یہ سیال مادے کی طرح ہر برتن میں، ہر من چاہی شکل میں سما جاتا ہے۔ شاید مذہب فروشی ہے ہی اتنی آسان کہ جب چاہا مذہب کو اپنے مقصد کے لئے ڈھال بنا لیا، جب چاہا تلوار۔ شب موم کر لیا، سحر پتھر بنا لیا۔ مذہب کے نام پہ ظالم بھی بن گئے، مظلوم بھی۔ کسی سے ذاتی دشمنی پیدا ہوئی، کسی سے سیاسی اختلاف اور کوئی بھی بس نہ چلا تو مذہب کو آگے کیجئے۔ کسی سنجیدہ مسئلے سے توجہ ہٹانی مقصود ہوئی تو مذہب حاضر۔

کینیڈا میں کافی سکھ سردار دوست ہیں۔ حج کی طرح ان میں “امرت چکھنے” کا فلسفہ موجود ہے۔ بتاشے، پانی میں حل کر کے پانی میٹھا کیا جاتا ہے اس پر گوربانی (سکھ مقدس کتاب ) کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور جو اسے چکھ لیتا ہے اس کے بعد اسے اپنی باقی زندگی بہتر طور پر واہے گرو کے بتائے طریقے پر چلنا ہوتا ہے۔ لگتا ہےگورنر پنجاب چوہدری سرور صاحب گوروں کے دیس میں جو مبینہ خلاف شرع کاروبار کرتے رہے ہیں، اب “امرت چھکنے” یا گناہوں کا کفارہ ادا کرنے پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں۔ نواز شریف دور میں جو گورنری انہیں بے کار کا کھیل لگی تھی، اسے کارآمد بنانے کے لئے انہوں نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے کہ یونیورسٹی کسی طالبعلم کو ڈگری جاری نہیں کرے گی جب تک کہ وہ قرآن کریم کا ترجمہ نہیں سیکھے گا۔

گورنر صاحب کو اس عمر میں خدا یاد آیا۔ بہت اچھی بات ہے لیکن خود امرت چکھنے کی بجائے پوری قوم کو چکھانے کے درپے ہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ اس امرت کو بتاشوں سے میٹھا بھی کیا یا نہیں۔

مذہب بطور مضمون مغربی ممالک میں بھی پڑھایا جاتا ہے لیکن جبراً نہیں۔ ہمارے ہاں پہلے اسلامیات کا مضمون یونیورسٹی میں داخلے کے لئے پہلے ہی جبراً موجود ہے، اب وہاں سے نکلنے کے لئے ترجمہ بھی لازمی ہو جائے گا۔

بات خدانخواستہ یہ نہیں کہ نئی نسل کو قرآن پاک کا ترجمہ نہ سکھایا جائے۔ یہ یقیناً ایک احسن قدم ہے کہ قرآن کو ترجمے کے ساتھ خود سمجھ کر پڑھا جائےتاکہ مولوی کی تاویل کی ضرورت نہ رہے۔ لیکن کاش گورنر صاحب اور ہمنوا اس احسن قدم کو جبراً مسلط کرنے سے پہلے کم ازکم “لااکراہ فی الدین” کا ترجمہ ہی سیکھ لیتے تو ڈگری کو کم از کم اس سے مشروط نہ کرتے۔ پھر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کس مترجم یا مفسر کا ترجمہ پڑھایا جائے گا، جو مسلمان ہوتے بھی نافذ کردہ مترجم کا ترجمہ نہ پڑھنا چاہے یا کسی کا بھی ترجمہ نہ پڑھنا چاہے تو اسے اختیار ملے گا یا جبر ہی سہنا ہو گا؟

میں پوچھ لوں کہ کیا ہے میرا جبر و اختیار

یارب یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اٹھا

مذہب کے نام پر یہ ملک ہمیشہ سے تجربہ گاہ بنا رہا، کون کون سا تجربہ ہم نے ہوتے نہیں دیکھا۔ قائد کو بعد از وفات مسٹر جناح سے مولانا جناح تک پہنچایا، اسلامی جمہوریہ ہوئے، سیاسی مقصد کے لئے عقیدوں کے فیصلے کیے، تحریکیں چل چکیں، حکومتیں مذہب کے نام پر الٹ چکے، بستیاں جلا چکے، قتل و غارت کر چکے، نظام مصطفی دیکھ چکے، ظلمت کا شرعی ریفرنڈم بھگت چکے۔ چاند نظر آنے اور نہ آنے کا کھیل ہو، ہزار ہزار روپے والے اجتماع میں گالیاں ہوں، لال مسجد کی دھمکیاں ہوں۔

پاسپورٹ پر مذہب کے خانے کے ہم موجد، حج عمرے ادا کرنے میں ہم چمپیئن۔۔۔ لیکن قسمت نہ بدلی، چلیں اب ترجمہ لازم کر کے دیکھ لیں۔ شاید اسی سے دن پھر جائیں، نااہلیاں، اہلیت میں بدل جائیں، معیشت بہتر ہو جائے، بی آر ٹی مکمل ہو جائے، تیل کے چشمے پھوٹ پڑیں، تعلیم اور صحت کا بجٹ سب سےاوپر آ جائے، پورن سائٹس کی بجائے ہم علم و حکمت کی سائٹس کھوجنے میں نمبر ون ہو جائیں۔ ریاست مدینہ نہیں ترکی کا نظام، نہیں ملائشیا کا یا پھر چائنا کا ہی چل جائے، راو انوار کے خلاف ثبوت مل جائیں، مشال خان کیس کا کوئی گواہ مل جائے، ساہیوال کیس میں بچیوں کے سامنے جن ماں باپ کو بھون دیا گیا تھا ان دیدہ نادیدہ چہروں کو پہچانا جا سکے، شوگر سکینڈل کے ذمہ داروں کا تعین ہو سکے۔۔۔ ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔

ویسےصاحب اختیار تو آپ ہو چکے، لگے ہاتھوں قرآن حفظ کی شرط بھی لگا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments