اب کیا فردا کیا دیروز، کیسی آنے والی کل، کیسی گزری ہوئی کل


آصف فرخی سے میرے تعلقات پچھلے تقریباً چالیس سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس زمانے سے لے کر جب ان کی پہلی کتاب ”آتش فشاں پر کھلے گلاب“ جہان اردو ادب میں نمو دار ہوئی تھی، اس آخری ملاقات تک جو ان کے بے موقع انتقال سے تین چار دن پہلے فون پر ہوئی تھی۔

آصف ملن سار آدمی تھے لیکن فطرتاً سنجیدہ تھے، یار باش نہیں۔ اور یہ ان کے لیے ضروری بھی تھا کیوں کہ جس آدمی نے اردو ادب کے ہر رکن کا بوجھ ہنسی خوشی اپنے سر پر اٹھا رکھا ہو وہ ہاہا، ہو ہو کی محفلوں کے لیے کیسے وقت نکال سکتا ہے! ہاں میں جب جب اسپتال میں داخل ہوا وہ دیکھنے ضرور آئے اور یہی رویہ ان کا رشتے داروں، ملنے والوں، دوستوں سے تھا۔ ہر ایک کی خبر گیری۔

ان کی ادبی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے ایک خیال مجھے ہمیشہ آیا، انگریزی محاورے میں : یہ شخص زندگی کی موم بتی کو دونوں سروں سے جلا رہا ہے۔

میں نے آصف کو دوسروں کے ادبی کام کو، اگر وہ اس لائق تھا، ہمیشہ سراہتے دیکھا۔ ان میں حسد نام کو نہیں تھا جو ادیبوں، شاعروں میں عام ہے۔ وہ مجھ جیسے کم آمیز اور حد سے سے زیادہ مصروف آدمی کا ہاتھ، ادبی کام میں بٹانے کو ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ پچھلے چند سالوں میں جب میں عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکا تھا جب آدمی کا نام بھولنے لگتا ہے، محفلوں میں جب میں بات کر رہا ہوں اور کسی ادیب یا اس کی کتاب کا نام مجھے جل دے جائے اور ان کی طرف دیکھوں تو وہ فوراً لقمہ دیتے تھے، اس ادیب کے نام یا اس کی کتاب کا، گویا وہ اس پر مامور تھے۔

آصف کا مطالعہ انسائیکلو پیڈک نہیں، آج کل کی زبان میں گوگل تھا، جو چاہیے پوچھ لیجیے۔ اور یہ بھی ہے کہ جس کا علم نہ ہو اس پر رائے دینے سے معذوری کا اظہار کرتے تھے۔

آخری چار سالوں میں آصف میں بڑی تبدیلیاں آتی گئی تھیں۔ بڑھتی ہوئی عمر کی لائی ہوئی نہیں اپنے ذمے بڑھائے ہوئے کاموں کی۔ وعدے کو پورا کرنا ان کے بس میں نہیں رہ گیا تھا، نہ غم اور خوشی کے موقعوں پر شرکت۔ اور مجھے اس پر افسوس ہوتا تھا۔ یہ ایک آدمی ہے جسے جیے جانا چاہیے لیکن جو زندگی کے جام کو غفلت اور بے فکری کے ہاتھوں نہیں، مصروفیت کے ہاتھوں لنڈھا رہا ہے۔

آصف کی موت کی خبر سنانے والے فون کے بعد کتنے ہی فون اوروں کے میرے پاس آئے۔ ادیبوں کے اور ادب سے تعلق نہ رکھنے والے دونوں کے، جنھیں سن کر میرے دماغ میں ایک خیال بار بار ابھرتا تھا: کتنا بڑا خاندان تھا مرنے والا کا، کتنا بڑا حلقہ دوستوں کا اور کتنا وسیع دائرہ اس کی اردو ادب کی خدمات کو سراہنے والوں کا کہ ہر ایک ہر ایک سے تعزیت کر رہا ہے۔

آصف کی موت:
فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
کراچی، اٹھارہ جون دو ہزار بیس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments