امریکہ میں درد کش ادویات کا استعمال اور موت کی وبا۔ کیوں اور کیسے؟


کچھ سالوں قبل میڈیا میں ایک سنسنی خیز تصویر بڑی وائرل ہوئی جس میں کار کی اگلی سیٹ پہ نیم مردہ والدین بیہوش حالت میں پڑے تھے اور ان کا چار سالہ بچہ خوفزدہ حالت میں پچھلی سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ اس کے والدین ہیروئن اوور ڈوز (overdose) کا شکار ہوئے تھے۔ یہی نہیں اس وقت امریکہ جیسے خوشحال ملک میں قانونی اور غیر قانونی درد کش ادویات سے مرنے والوں کی کہانیوں کا دفتر سا کھل گیا۔ ایک سرکاری اندازے کے مطابق 2018 میں 128 روزانہ اموات محض ڈرگ اوور ڈوز کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔

اس صورتحال کے سبب ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور قانون، پولیس اور میڈیکل وغیرہ جیسے ادارے اس وبا سے نپٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سی ڈی سی کے مطابق یہ پہلی بار ہے کہ جب امریکہ میں ان اموات کی شرح گن کے ہاتھوں اموات، ٹریفک کے حادثوں، اسی کی دہائی میں کوکین کے سیلاب اور نوے کی دہائی میں ایڈز اور ایچ آئی وی کی وبا کے ہاتھوں ہونے والی اموات سے تجاوز کر گئی ہے۔

اوپیائڈ یا درد کش ادویات جن میں قانونی طور پہ بکنے والی مثلاً وائیکیڈن، اوکسی کوڈون، مارفین، کوڈون، میتھڈون اور فینٹانل وغیرہ کے علاوہ غیر قانونی ہیروئن (جس میں مزید کیمیکلز مثلاً فینٹانل اور مارفین جیسے طاقتور اجزاء ملائے جاتے ہیں ) شامل ہیں، میں بھر پور نشہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ مشہور راک اسٹار پرنس، ایلوس پرسلے اور ہیتھ لیجر جیسے بہت سے آرٹسٹوں کو انہی منشیات کے اوور ڈوزنے وقت سے پہلے ہیں موت کی گود میں دے دیا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اوپیئائڈ یا دردکش ادویات کیا ہوتی ہیں۔

دراصل ان کی کیمیائی ساخت الکولایئڈز ہے۔ جن کا ماخذ افیون ہے جو ایک پودے او پیم پوپی کی خاص قسم سے کشید کی جاتی ہے۔ افیون درد کشائی کی صلاحیت کے سبب زمانہ قدیم ( 4000 قبل مسیح) سے طبیبوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔ اسی وجہ سے اسے ہلگل (جوائے پلانٹ) کا نام دیا گیا تھا۔ اس پودے کے اجزا ء دماغ، ریڑھ کی ہڈی، ہاضمہ کے نظام اور دوسرے حصوں کے خلیوں پہ موجود مخصوص پروٹین کے ساتھ تعامل کر کے درد کے اثر کو زائل کرنے کے ساتھ طبیعت میں غنودگی، ذہنی کنفیوژن، متلی اور قبض کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔

اور ساتھ ہی دماغ میں کثیر مقدار میں ایک کیمیائی مادے ڈوپامین کا اخراج ہوتا ہے جس سے انسان میں خوشی اور سکون کی عارضی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ جبھی اگر قدیم یونانی طبیبوں نے اسے سر درد، مرگی، زہریلے کاٹے، کھانسی، زخموں کا علاج، بہرے پن اور ڈپریشن کے علاج کے لیے استعمال کیا تو آج بھی اس کو سرجری کے وقت بیہوشی، کھانسی اور اس کے بعد درد میں کمی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم ان ادویات کا لمبی مدت کا استعمال نشہ کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ اور اگر ان کی مقدار زیادہ ہو جائے (اوور ڈوز) تو اس صورت میں تنفس کا عمل رک جانے کی وجہ سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

امریکہ میں جس کی آبادی دنیا کی آبادی کا محض 4.6 فی صد ہے ان کل بننے والی ان درد کش ادویات (قدرتی یا لیب میں تیار شدہ) کا اسی فی صد استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ باقی دنیا میں اس کا استعمال محض انتہائی درد کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔

درد اور نشہ کی یکجائی نے انسانوں میں امریکہ ہی نہیں دنیا میں موت کا بازار گرم کر رکھا ہے جس کی چند بڑی وجوہات ہیں۔

1۔ دائمی امراض سے نبرد آزما، بڑھتی ہوئی آبادی کا مسلسل درد میں مبتلا ہونا۔
2۔ درد کے سبب مریضوں اور ان کے خاندان کا دواؤں کے لیے دباؤ تاکہ اس کا جلد اور فوری خاتمہ ہو۔
3۔ دوست، احباب اور سماجی ماحول میں منشیات کا استعمال۔
4۔ خاندان میں نشہ کی تاریخ، شراب اور سگریٹ نوشی
5۔ نفسیاتی اور ذہنی امراض جیسے ڈپریشن، انگزائٹی، پرسنیلٹی ڈس آرڈرز وغیرہ
6۔ بچپن کا ٹراما
7۔ سماجی اور معاشی مسائل اور سماجی تحفظ کا فقدان
8۔ بیروزگاری اور بے مکانی
9۔ پیسوں کی ہوس میں ڈاکٹری نسخوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ اور پل مل کلینکس کی افراط۔

10۔ درد کش دواؤں تک بآسانی رسائی مثلاً سڑکوں پہ ڈرگ ڈیلرز اور گھروں میں دواؤں کے کیبنٹ میں رکھی دوائیاں۔
11۔ صحت عامہ اور انشورنس کا ناقص اور غیر مساواتی نظام۔

امریکہ میں اس کے استعمال کی ایک بڑی اہم وجہ ڈاکٹری دوا کے نسخوں کا آسانی سے حصول ہے۔

میں جس ادارے میں بطور منشیات کے تھریپسٹ کام کر رہی ہوں وہاں آنے والے اوپیائڈ کے عادی مریضوں کی کہانیاں بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ عموماً کسی سرجری یا درد کے باعث ڈاکٹر کے نسخوں کے لمبے استعمال کے بعد اس کے عادی ہونے کے سبب پہلے قانونی دوا اور پھر نوبت غیر قانونی ہیروئن کے استعمال، اوور ڈوز اور پھر انجام عموماً موت پہ ہوتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی نشہ رنگ ونسل، مذہب اور جنس کی تفریق سے بالاتر ہے۔ لہٰذا منشیات کے عادی ان افراد کو کہیں بھی پایا جا سکتا ہے۔

آخر یہ نسخے اتنی آسانی سے کیسے ملتے ہیں؟

اکثر ان نسخوں کا ذریعہ براہ راست وہ مراکز یا کلینکس ہیں جو ”پل مل“ کہلاتے ہیں جہاں دوا کے منشیات کے عادی افراد میں نسخے بک رہے ہوتے ہیں۔ یہاں بیٹھنے والے ڈاکٹرز مسیحا کم اور موت کا ظالم فرشتہ ضرورہوتے ہیں۔ جن کی تجوریاں دولت سے بھری اور اور دل رحم سے خالی ہوتے ہیں۔ اور ان میں ایک ڈاکٹر نریندر ناگر بھی ہیں جن کو ”ڈاکٹر ڈیتھ“ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے تین درجن مریض ان کے لکھے نسخوں سے حاصل ادویات کے اور ڈوز کے سبب موت کا شکار ہو گئے۔ آج وہ جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔

امریکی ادارے سینٹرل آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) کے مطابق محض ڈرگ اوور ڈوز کے ہاتھوں امریکہ میں 2018 میں 67000 اموات ہوئی ہیں۔ ان اموات کا معاشی بوجھ بہ حیثیت مجموعی 78.5 کھرب ڈالرز سالانہ ہے۔

دوا کی فروخت سے فیض یاب ہونے والے محض کمپنی کے مالکان ہی نہیں بلکہ عدالتوں میں قانون نافذ کرنے والے اور قانون ساز بھی تھے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپنی تجوریاں بھرنے کا دھندا اندرون خانہ، محض امریکہ میں ہی جاری تھا یا اس کی ڈوریاں کہیں اور سے بھی کھنچی جا رہی تھیں؟ کیونکہ اب اگر

بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی

خواہ حقائق کی تلاش میں ہمیں افغانستان میں تورا بورا کی سنگ لاخ پہاڑیوں میں نہاں اور عیاں جنگ لڑتے اور بے گناہ عوام پہ ڈرون حملہ کرنے والے سپاہیوں اور سیاسی حکمرانوں کی جیبوں کی تلاشی اور طالبان کے لیڈران کی پگڑیوں کو ہی نہ اچھالنا پڑے کہ جنھوں نے اپنی زمین پہ افیون کی فصل اگا کر دھرتی پہ انسانی جانوں کا ضیاع کیا اور اس کی آمدنی سے وہ ہتھیار خریدے جو اللہ کے نام پہ انسانیت کو مسمار کرنے کے لیے استعمال ہوئے۔

مشرق کی دھرتی کا سینہ چاک کرتی افیون کی فصل کی کاشت اور اس سے بننے والی منشیات بالخصوص ہیروئن کا نشہ مشرق سے ہوتا ہوا مغرب کی سڑکوں پہ سیلاب کی صورت آخر کس طرح پہنچا۔ اس کے لیے ہمیں ایک دہائی سے زیادہ افغانستان میں لڑنے ولی ”دہشت گردی کے خلاف“ امریکی جنگ کا جائزہ لینا ہوگا کہ افغانستان کی زمین پہ لڑنے والی جنگ کے اثرات نسلوں پہ پڑے ہیں اور اس کا حساب آسانی سے بے باق ہونے والا نہیں۔
(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments