یقین اور بے یقینی میں کورونا کہانیاں


میں ٹیلی فون پر ہمیشہ سے مختصر گفتگو کا عادی رہا ہوں۔ خود کو تاریخ ساز ’’انقلابیوں‘‘ میں کبھی شمار ہی نہیں کیا۔ ہمیشہ یہ اطمینان رہا کہ ممکنہ ’’تخریب کاروں‘‘ پر نگاہ رکھنے والوں کو میرا ٹیلی فون سننے کی ضرورت محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ 90کی دہائی میں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں برطرف ہوئیں تو ان کے خلاف الزام یہ بھی لگا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین اور ناقد صحافیوں کے ٹیلی فون Under Observation رکھنے کے حکم صادر فرمایا کرتے تھے۔ صحافیوں کی جو فہرست اس ضمن میں سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوئی اس میں دونوں مرتبہ مجھ گنہگار کا نام بھی شامل تھا۔ بخدا مجھے بجائے فخر کے حیرانی ہوئی۔ میرے فون پر نگاہ رکھنے کا عمل دیانت داری سے مجھے ریاستی وسائل اور وقت کا زیاں لگا۔

لینڈ لائن کی جگہ اب موبائل فونز آگئے ہیں۔ آپ کو لوگوں سے رابطے کی سہولت پہنچاتا یہ آلہ ہر اعتبار سے ’’حتمی مخبر‘‘ ہے۔ یہ بند بھی ہوتو آپ کی  Location بتا دیتا ہے۔ آپ کی جیب میں ہو یا قریبی میز پر رکھا ہو تو ’’سننے والوں‘ ‘کے لئے ٹیپ ریکارڈر کا کام بھی دیتا ہے۔ آپ جہاں بیٹھے ہوں وہاں ہوئی تمام تر گفتگو ریکارڈ ہو سکتی ہے۔ موبائل فونز کی قباحتوں سے بخوبی آشنا ہوتے ہوئے بھی میں نے کبھی اس کے بارے میں پریشانی محسوس نہیں کی۔ اپنے پلے ہے کیا جسے چھپانے کی ضرورت محسوس ہو۔

ہمارے ہاں سیاسی امور میں محض شغل کے طورپر دلچسپی لینے والے خواتین وحضرات بھی لیکن اپنے موبائل فون کے بارے میں بہت فکرمند رہتے ہیں۔ ان میں سے کئی دوستوں کے اطمینان کی خاطر میں نے اپنے فون پر Whatsapp والی سہولت بھی Upload کر لی۔ ذاتی طورپر فقط مجھے اپنا کالم لکھنے کے بعد اسے ٹائپ کروانے اور پروف ریڈنگ سے گزار کر دفتر بھجوانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ اس کا اصل فائدہ مجھے ’’فری کال‘‘کی صورت ہی نظر آتا ہے۔

گزشہ کئی دنوں سے مگر میں اس سہولت سے تنگ آنا شروع ہوگیا ہوں۔ بے شمار ایسے افراد جو میرے  Contactsکی فہرست میں موجود ہی نہیں سارا دن مجھے اس کے ذریعے آڈیو اور وڈیوکلپس بھیجتے رہتے ہیں جو میرے لئے کسی دلچسپی کا باعث نہیں ہوتیں۔ ٹیلی فون کو ہر وقت  Silent Modeپر رکھا نہیں جا سکتا۔ دن کے کئی لمحات  Whatsappکے ذریعے آئے پیغامات کو ڈیلیٹ کرنے میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ کئی افراد کو Muteبھی کررکھا ہے۔ اجنبی افراد کی جانب سے مگر پیغامات آتے رہتے ہیں۔ انہیں  Block کرتے ہوئے اُکتا چکا ہوں۔

گزشتہ چار دنوں سے مگر قطعا اجنبی افراد کی جانب سے ایسے پیغامات کی بھرمار ہوئی جنہیں دیکھ کر میں واقعتا گھبرا گیا۔ علم ابلاغ کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں نے ان پیغامات کو ایک سوچی سمجھی  Campaign کی صورت لیا ہے۔ انہیں بہت مہارت سے Designکیا گیا ہے۔ اس ضمن میں جو پہلا پیغام ملا اس میں نظر بظاہر ایک گھریلو خاتون اپنی کسی ’’باجی‘‘ سے روایتی گپ شپ میں مصروف ہے۔ بہت حیرانی اور پریشانی سے وہ یہ دعویٰ کرتی سنائی دی کہ اس کے ’’ہمسایوں‘ ‘ میں دو واقعات ہوئے جہاں ہسپتال والوں نے ان کے ہاں ان کے کسی بیٹے یا بھائی کی’’تابوت میں بند‘‘ ہوئی لاش بھجوائی۔ وہ بدنصیب کرونا کا مریض تھا۔ ہدایت یہ تھی کہ تابوت کو کھولے بغیر فوراَ دفنادیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ ’’مدفون‘‘شخص کے پیاروں کو نجانے کیوں شک ہوا کہ تابوت میں ان کے عزیز کی لاش نہیں تھی۔ ’’رات کے اندھیرے‘‘ میں کسی جاسوسی مشن کی طرح لہذا ’’قبرکشائی‘‘ کا اہتمام کرنا پڑا۔ تابوت کھولا تو اس میں ’’لکڑیاں اور کمبل‘‘ تھے۔ کوئی لاش نہیں تھی۔

اس آڈیو کلپ کو میں نے دو بار غور سے سنا۔ بیان کردہ کہانی میں اتنے جھول تھے کہ عقل سے قطعی محروم شخص ہی اس پر اعتبار کرسکتا تھا۔ اس خاتون کی بیان کردہ ایک اور کہانی تو مبالغہ آرائی کی انتہا تھی۔ اس کے ذریعے دعویٰ ہوا کہ تابوت میں ایک ایسے شخص کی ’’لاش‘‘ بھی بھیج گئی تھی جسے ’’دفنا‘‘ دینے کے بعد ’’مدفون‘‘ ہوئے شخص نے ٹیلی فون کے ذریعے اپنے گھر والوں کو آگاہ کردیا کہ وہ زندہ ہے اور ہسپتال میں زیر علاج ہے۔

یہ کلپ سننے کے بعد میں نے اسے غصے سے بپھر کر ڈیلیٹ کردیا۔ جی چاہا کہ جس شخص نے یہ کلپ مجھے بھیجی ہے اسے فون کروں اور جوانی میں لاہور کی گلیوں میں برتی زبان کے بے دریغ استعمال سے اس کی خبرلوں۔ بڑھتی عمر نے مگر ’’باصبر‘‘ بنا دیا ہے۔ اس کا نمبر بلاک کر کے جی کا بوجھ ہلکا کر لیا۔ مزید تین نمبروں سے مگر یہی کلپ میرے فون پر آتی رہی۔

شاید میں اس کلپ کو نظرانداز کردیتا۔ ہمارے دوست طلعت حسین مگر اپنا ایک یوٹیوب چینل چلاتے ہیں۔ میں اکثر اسے سنتا ہوں۔ ہفتے کے آخری تین دن وہ لوگوں کے اٹھائے سوالات نشر کرتے ہیں۔ اس ہفتے جو سوالات ہوئے ان میں چند افراد انتہائی فکر مندی سے تصدیق چاہ رہے تھے کہ ہسپتالوں سے کرونا سے ہلاک ہوئے افراد کی ’’لاش‘‘ ان کے گھر میں بھیجے تابوت میں موجود بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ طلعت حسین کو ایک قطعی بے بنیاد افواہ کی دلائل سے تردید کے لئے اپنے جذبات کو ایک ذمہ دار صحافی کی طرح قابو میں رکھ کر گفتگو کرنا پڑی۔

مجھے ان سوالات نے ٹھوس پیغام یہ دیا کہ جو ا ٓڈیوکلپس مجھے موصول ہوئی تھیں انہوں نے کہیں نہ کہیں تو اپنا اثر دکھا دیا ہے۔ وبا کے موسم میں افواہیں بھی پھیلا کرتی ہیں۔ تاریخی تناظر میں انہیں ’’معمول‘‘ ہی تصور کرنا چاہیے۔ دورِ حاضر مگر حقائق کی تصدیق کے لئے جدید ترین ذرائع فراہم کرنے کا دعوے دار ہے۔ ان ذرائع کے ہوتے ہوئے بھی افواہوں کا قابلِ اعتبار کہانیوں میں بدل جانا کم از کم مجھے تو مسلسل پریشان کر رہا ہے۔

اپنی پریشانی سے نجات پانے کے لئے میں نے تھوڑی تحقیق کی ضرورت محسوس کی۔ اپنے تئیں دریافت یہ کیا ہے کہ اندھی نفرت وعقیدت کے زمانے میں کرونا ایک مرض نہیں رہا۔ ایک ’’موضوع‘‘ ہے جو معاشرے میں اندھے تعصبات پر مبنی تقسیم کو مزید گہرا کئے چلا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت فقط پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے۔

امریکہ ایک بہت پڑھا لکھا اور مہذب ملک گردانا جاتا ہے۔ فی الوقت دُنیا کی واحد سپرطاقت بھی ہے۔ اس کا صدر مگر انتہائی ڈھٹائی سے کئی دنوں تک کرونا کو ’’نزلہ زکام‘‘ ہی کی ایک قسم ٹھہراتا رہا۔ وبائی امراض کا ایک جید ماہر انتھونی فیوچی اس کے ہمراہ کھڑا ہوتا تھا۔ ٹرمپ کی گفتگوکے دوران کیمرہ اس کے چہرے پر فوکس کرتا تو اس پر طنز بھری مسکراہٹ نمودار ہوتی۔ اس ڈاکٹر کو کرونا سے پریشان ہوئے لوگوں نے اپنا ’’ہیرو‘‘ تصور کرنا شروع کردیا۔ امریکہ میں ٹرمپ کے جنونی حامی مگر اس کی جان کے درپے ہو گئے۔ اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت محسوس ہوئی۔

لاطینی امریکہ میں ایک بہت بڑا ملک برازیل بھی ہے۔ اس کا صدر بھی ٹرمپ جیسا ہے۔ کرونا سے اس کے ملک میں اب اموات کا تناسب دُنیا بھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکا ہے۔ وہ مگر ’’گھبرانا نہیں‘‘ والے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ برازیل کا رقبہ آسٹریلیا سے بھی زیادہ ہے۔ اسے ’’خودمختار‘‘ ملک ہوئے ڈیڑھ سو برس سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے۔ وسائل سے مالا مال یہ ملک مگر کئی دہائیوں تک وحشیانہ فوجی آمریتوں کی جکڑ میں رہا۔ اس صدی کے آغاز میں وہاں جمہوری تحاریک کی بدولت عوامی حقوق کا احترام شروع ہوا۔ آمریت سے رہائی پانے کے بعد برازیل بہت تیزی سے ترقی اور خوش حالی کی جانب بڑھنا شروع ہوگیا۔ وہاں بھی لیکن بالآخر ایک نوعیت کا ’’پانامہ‘‘ ہو گیا اور موجودہ صدر برسرِ اقتدار آیا۔ انتہائی ڈھٹائی سے جارحانہ آمریت کو یہ’’منتخب صدر‘‘ انسانی مشکلات کا واحد حل دکھاتے ہوئے پیش کرتا ہے۔ ذرا سی لچک دکھانے کو بھی آمادہ نہیں۔

ٹرمپ کے متعصب رویے نے بالآخر امریکہ میں نسلی فسادات کو ہوا دی ہے۔ اندھی نفرت وعقیدت نے اس کے ملک میں جو ماحول بنایا ہے وہ کئی سنجیدہ لکھاریوں کو یہ دعویٰ کرنے پر اُکسا رہا ہے کہ امریکہ شاید اپنا وجود برقررار نہیں رکھ پائے گا۔ اس کی کئی ریاستیں ’’خودمختاری‘‘ کا اعلان کرنے پر مجبور ہو سکتی ہیں۔ برازیل میں بھی کئی صاحبِ دل دانشور لوگوں کو اپنے ملک میں ایک اور ’’فوجی بغاوت‘‘ کے لئے تیار کرنا شروع ہو گئے ہیں۔

کرونا کو زیر بحث لاتے ہوئے ہمیں ان دو ممالک میں جاری صورت حال پر سنجیدگی سے غورکرنا ہوگا۔ اس وباء کا خدا کے لئے تن دہی سے مقابلہ کیجئے۔ اسے اندھی نفرت وعقیدت کی بنیاد پر ہوئی تقسیم کو شدید تر بنانے کے لئے استعمال ہونے کا موقع نہ دیں۔ وبا کے اس کڑے وقت میں جان ہتھیلی پر رکھ کر مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ڈاکٹر اور ان کی معاونت پر مامور عملہ ہمارے ہیرو ہیں۔ خدارا ان کا احترام کریں۔ ان کے خیالات کو غور سے سنیں۔ ان کی تحقیر سے گریز کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments