اکیڈمی ادبیات پاکستان کے ایوارڈز اور تیرا کیا بنے گا کالیا والا ڈائیلاگ


کوئی شک نہیں کہ خوف و دہشت کے دن ہیں، کورونا وائرس سے انسانیت خزاں کے پتوں کی طرح بکھرتی چلی جا رہی ہے۔ ۔ ۔

کیہ دم دا بھروسا یار۔ ۔ ۔ دم آوے نہ آوے۔ ۔ ۔

برطانیہ کے ایک ذمہ دار ادارے نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر پاکستانی حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو اگست میں ہر دن پاکستان میں ساٹھ ستر ہزار اموات ہوں گی۔ ۔ ۔ یقیناً یہ وہ سماں ہے کہ جب پوری قوم کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں لیکن افسوس کہ ان حالات میں بھی کہیں ہیرا پھیری و اقرباء پروری کا بازار گرم ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو نجانے کون سی ”مرن مٹی“ ٹکنے نہیں دیتی تھی کہ وہ ہر زیرو کو ہیرو بنانا اپنا اولین فرض سمجھتے تھے، غریبوں کو زبان دینا، مزدوروں کسانوں کے لئے لڑ مرنا ان کا ہمیشہ شیوا رہا، اسی لئے تگڑے لوگ انہیں مار دینا چاہتے تھے، لہذٰا مار دیے گئے، بندہ پوچھے کہ ان سے پہلے کسی حکمران کو کیوں خیال نہ آیا کہ ملک بھر کے ادیبوں شاعروں اور سخنوروں کی دلجوئی اور فلاح و بہبود کے لئے بھی کوئی ادارہ ہونا چاہیے۔

؟ جی ہاں! نہیں آیا، کسی کو نہ آیا، ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے بھلا شاعروں ادیبوں اور دیگر قلم کاروں یا فنکاروں کو کون لفٹ کراتا تھا؟ ان بیچاروں کی کیا حیثیت تھی؟ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے کہ جو نہ صرف ادیبوں شاعروں کو دوست بناتے، ان سے رہنمائی لیتے، لاہور کے ادبی حلقوں میں اچانک آ پہنچتے بلکہ وہ یہ پنگا بھی ڈال گئے کہ ادیبوں شاعروں کے لیے ”اکیڈمی ادبیات پاکستان“ کے نام سے ایک آزاد و خود مختار ادارہ بنا گئے۔

۔ ۔ ضیائی آمریت آئی تو سپریم کورٹ کے ایک حکم پر اس ادارے کی آزادی و خودمختاری چھین لئی گئی اور اسے ”ماتحت“ ادارے کا نام دے دیا گیا۔ ۔ ۔ صدر آصف علی زرداری کی حکومت آئی تو مارچ 2013 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کو پھر دورہ پڑا اور اکیڈمی ادبیات پاکستان کو پھر سے ایک ایکٹ کے ذریعے خود مختار ادارہ بنا دیا۔ ۔ ۔ ( واضح رہے کہ 13 مارچ 2013 ء کو اکیڈمی ادبیات کو اپنی کھوئی خود مختاری واپس دلائی گئی اور اس کے ٹھیک تین دن بعد یعنی سولہ مارچ کو پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پاکستان میں پہلی دفعہ اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد اپنے عہدے سے اتر گئے۔ ۔ ۔ )

جب میں کہتا ہوں کہ سابق صدر آصف علی زرداری خود شاعر ہیں تو لوگ میری بات کا یقین نہیں کرتے لیکن میں نہ ماننے والوں کو محترمہ بینظیر بھٹو کے اس انٹرویو کا حوالہ دیتا ہوں جو انہوں نے جیو کے معروف اینکر پرسن اور سینئر صحافی محترم سہیل وڑائچ کے پروگرام ”ایک دن جیو کے ساتھ“ میں دیا، شہید بی بی نے اس انٹرویو میں انکشاف کیا کہ آصف علی زرداری جب جیل کاٹ رہے تھے تو میرے لئے روزانہ ایک نظم لکھتے تھے اور یہ سب نظمیں میں نے بہت سنبھال کے رکھی ہوئی ہیں۔ ۔ ۔

خیر! ہمیں اس وقت جناب آصف علی زرداری کی شاعری پر بات نہیں کرنی بلکہ اکیڈمی ادبیات کے حالیہ ایوارڈز پر کچھ کہنا ہے۔ ۔ ۔

میرے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں خود پنجابی کا شاعر ہوں، میرے بہت سے اشعار زبان زد عام ہیں۔ ۔ ۔ آصف علی زرداری صاحب بھی میرا شعر پڑھتے ہیں کہ

جھلیا! جی نوں جی ہوندی اے
ہور محبت کیہ ہوندی اے۔ ؟
میری پنجابی غزلوں کی کتاب ”چیتر“ کو پنجابی ادب کا بڑا ایوراڈ، مسعود کھدر پوش مل چکا ہے۔

میرے پبلشر نے یقیناً میری کتاب کی کچھ کاپیز ایوارڈ کے لئے اکیڈمی ادبیات پہنچائی ہوں گی لیکن ان کا کوئی اتا پتا نہیں۔

دوسری جانب بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے معروف پنجابی شاعر اور استاد جناب صغیر تبسم کی کتاب ”جیوندیاں مردیاں آساں“ کو مسعود کھدر پوش ایوارڈ کے ساتھ ساتھ دس کے قریب پنجابی ادب کے ایوارڈ مل چکے ہیں، محترم تجمل کلیم پنجابی ادب کا ایک بہت بڑا نام ہے، ان کی کتاب نے بھی اس سال کے بہت سے ایوارڈ سمیٹے ہیں، محترمہ طاہرہ سراء کی پنجابی شاعری بھی پوری دنیا میں شہرت حاصل کر چکی ہے، ان کی کتاب ”شیشا“ نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے ہیں، لیکن افسوس ہے تو اس بات کا کہ اکیڈمی ادبیات میں فیصلہ ساز نجانے کس کے اشارے پر ایوارڈز کے فیصلے کرتے ہیں۔ ؟

محترم صغیر تبسم کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود اکیڈمی ادبیات کو انعام کے لیے اپنی کتابیں بھیجیں لیکن اکیڈمی کی طرف سے ان کتابوں کو ایوارڈ کے لئے سرے سے شامل ہی نہیں کیا گیا، جس کا ثبوت یہ ہے کہ صغیر تبسم کو اکیڈمی کی طرف سے کتابوں کی وصولی کا کوئی لیٹر یا اطلاع تک نہیں آئی۔ ۔ ۔

رائے ناصر صاحب بزرگ پنجابی شاعر ہیں، ہم سب کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں، انہوں نے خود بھی ایک ایوارڈ دینے والی تنظیم بنا رکھی ہے، ہم اس تنظیم پر کسی بھی طرح کی انگلی نہیں اٹھاتے کیونکہ رائے ناصر ہمارے لئے محترم ہیں لیکن ادیبوں شاعروں میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنی بنائی ہوئی تنظیم سے اپنی ہی کتاب پر بھی ایوارڈ لے لیتے ہیں۔ ۔ ۔ دوسری جانب اکیڈمی ادبیات کی بھی ان پر خاص نظر کرم ہے کہ پچھلے سال بھی دو لاکھ کا انعام ان کی کتاب کو عنایت فرما دیا گیا جبکہ اس سال بھی ایوارڈ ان کا ٹھہرا، کون نہیں جانتا کہ رائے صاحب کی صرف تین عدد کتابیں ہیں اور تینوں کو ہی اکیڈمی ادبیات پہلے انعام کا مستحق قرار دے چکی ہے۔ ۔ ۔

صغیر تبسم کہتے ہیں کہ جن جن ادبی تنظیموں نے ان کی کتاب کو پہلے ایوراڈ سے نوازا ان دس کی دس تنظیموں نے کہیں بھی رائے صاحب کی کتاب کو بڑا ایوارڈ نہیں دیا جبکہ ہم سوچ رہے ہیں کہ اکیڈمی کے اندر نجانے کون سے ایسے شکرے بیٹھے ہیں جو پنجابی ادب میں ہر سال رائے صاحب کا جھنڈا بلند فرما دیتے ہیں، اکیڈمی کی کون سی ایسی جیوری ہے جو دیگر ممتاز لکھنے والوں کی کتابوں کو مقابلے میں شامل کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتی؟

پنجابی ادب کا ایک اور بڑا نام محترم ارشاد سندھو ہیں، انہوں نے مسعود کھدر پوش ٹرسٹ جیسے غیر جانبدار ادارے سے ایک نہیں، دو بار اپنی کتابوں پر ایوارڈ وصول کیے ہیں لیکن اکیڈمی ادبیات نے انہیں بھی ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔ بیشک یہ سب کارستانیاں جینوئن شعراء کا حق مارنے کے مترادف ہیں۔

یقیناً ہمیں رائے صاحب سے کوئی گلہ نہیں کہ وہ ہر سال کیسے بڑا ایوارڈ لے اڑتے ہیں، یقیناً وہ خود اکیڈمی میں بیٹھ کر فیصلے نہیں کرتے اور کسی کو آرڈر نہیں فرماتے کہ پہلا انعام میرے حوالے کر دو بلکہ ہم تو صرف اس کھوج میں ہیں کہ اکیڈمی کے اندر فیصلے کہاں ہوتے ہیں اور کون کرتا ہے۔ ؟

لاہور میں اکیڈمی کے ڈائریکٹر عاصم بٹ صاحب ہیں جو ہمارے دوستوں میں شامل ہیں، معروف دانشور اور مصور ریاظ صاحب کے دفتر عاصم بٹ کے ساتھ کئی بار اٹھنا بیٹھنا بھی ہوتا ہے لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ بٹ صاحب نے بھی مجھے ایک بار نہیں کہا کہ اپنی کتابیں انعام کے لئے اکیڈمی ادبیات بھجوا دو یا لاہور آفس ہی جمع کروا دو۔ ۔ ۔ پنجابی کے اکثر شاعر ادیب اس بات کا گلہ رکھتے ہیں کہ اکیڈمی کی طرف سے انہیں کبھی کوئی اطلاع نہیں آئی کہ ان کی کتاب چھپ چکی ہے لہذٰا ایوارڈ مقابلہ کے لئے اکیڈمی کو ارسال کر دیں۔ ۔ ۔

ہم یہ تو نہیں کہتے کہ ”انھاں ونڈے ریوڑیاں اور دیوے مڑ مڑ اپنیاں نوں“ لیکن پنجابی حلقوں میں یہ بے چینی ضرور پائی جاتی ہے کہ اکیڈمی اپنے طور پر اندر کھاتے ”خاص“ دوستوں کے لئے کوئی گیم ضرور کرتی ہے۔

جی ہاں! یہ وہی اکیڈمی ہے کہ جس کے ایکٹ میں درج ہے کہ وہ پاکستانی زبانوں اور ادب کے فروغ اور پاکستانی اہل قلم کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے، یہ بالکل وہی اکیڈمی ہے کہ جس کے اغراض و مقاصد میں شامل ہے کہ وہ اپنے ایکٹ کے سائے تلے پاکستانی زبانوں اور ادب کے فروغ اور اہل قلم کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات کام کرے، اہل قلم برادری کی فلاح و بہبود سے متعلق حکومت کو مشاورت دے، ادب اور ادبی سرگرمیوں سے وابستہ مختلف اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لے اور مالی امداد فراہم کرے، قومی اور علاقائی زبانوں سے منتخب ادب پاروں کا ترجمہ کرے، قومی اور علاقائی زبانوں میں تخلیقی تحریروں کے فروغ کے لیے موزوں اقدامات کرے یا ان سے متعلق سفارشات دے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستانی ادب سے غیر ملکی قارئین کومتعارف کرائے لیکن اس اکیڈمی کی اپنی حالت یہ ہے کہ کبھی اس کے چئیرمین کی کرسی خالی رہتی ہے تو کبھی ڈی جی کے لئے کئی کئی ماہ کوئی بندہ یا بندی نہیں ملتی، حد یہ بھی ہے کہ اکیڈمی کے تحت جن شاعروں ادیبوں کے چھوٹے چھوٹے وظیفے لگے ہوئے ہیں، انہیں پانچ پانچ ماہ اس چھوٹی سی رقم کے لئے ترسا کر مار دیا جاتا ہے، کبھی اس کو فنانس کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو کبھی ان کا کوئی سیکرٹری نہیں ہوتا۔ ۔ ۔

آخر میں عرض ہے تو فقط اتنا کہ معروف شاعر اور استاد محترم صغیر تبسم اکیڈمی کے حالیہ پنجابی ایوارڈز کو چیلنج کرنے عدالت جا رہے ہیں اور پنجابی ادب سے تعلق رکھنے والے شاعروں ادیبوں کی اکثریت ان کے اس فیصلہ میں ان کی دست و بازو ہے۔ ۔ ۔

بتایئے اب اکیڈمی کے نام یہ والا ڈائیلاگ کر دیا جائے کہ ”تیرا کیا بنے گا کالیا“
یقیناً یہ ڈائیلاگ ان کے نام ہے جو اکیڈمی میں بیٹھ کر اندھی ایوارڈ سازی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments