ایک کوچوان قومی محافظ


وہ فوجی نہیں تھا، نا ہی وہ کسی سرکاری عہدے پر فائز تھا وہ ایک معمولی کوچوان تھا سواریوں کو ان کی منزل پر چھوڑتا چند پیسے کماتا اور اپنے معاشی معاملات چلاتا تھا اس نے ایک دن ایک چور سے ایک عام شہری کو بچایا بزرگ نے بہت سی دعائیں دی وہ نظر رکھتا تھا کہ کہیں کچھ غلط تو نہیں ہو رہا اس کا نام تھا عمر آفندی ایک عام شہری لیکن کافی حد تک ذمہ داری کا ایک پیکر یہ کردار ترکش ڈرامے سلطان عبد الحمید کا ہے سلطان پر ایک بھرپور منصوبے کے ساتھ حملہ ہو جاتا ہے اپنی ہی فوج میں موجود دشمنوں کے فوجی اپنے ہی دوستوں اور سلطان پر بندوقیں تان لیتے ہیں سلطان کی سواری کا کوچوان سلطان کو دور تو لے جاتا ہے لیکن وہ بھی آستین میں چھپا سانپ دشمن کا وفادار ہوتا ہے سلطان کو گولی مارنے ہی لگتا ہے کہ عمر آفندی پہنچ جاتا ہے اور سلطان کی جان بچا لیتا ہے دیکھیے سلطان کی فوج، سرکاری افسران میں سے جب کوئی بھی یہ کام نہیں کر پاتا تو وطن عزیز کا ایک رضاکار اپنے سلطان کو بچا لیتا ہے اس طرح وہ سلطان کے قریبی بندوں میں شمار ہوتا ہے سلطان اسے اپنے رو برو بلاتا ہے اور اس سے اس کی رضا بتانے کا کہتا ہے کہ آپ نے ہماری جان بچائی آپ کو کیا چاہیے وہ سلطان سے کہتا ہے کہ یہ سب میں نے اپنے وطن کے لیے کیا ہے کوئی انعام نہیں چاہیے لہذا سلطان کے اصرار پر وہ اپنے ایک قیدی دوست کی رہائی کی درخواست کرتا ہے جس پر ریاست کے خزانے سے قیدی کا قرض دے کر اسے آزاد کر دیا جاتا ہے ساتھ ہی عمر آفندی کو ایک دستاویز دی جاتی ہے جس کو استعمال کر کے وہ جب چاہیں محل میں آسکتے ہیں وہ رضا کارانہ طور پر ریاست کے لیے کام کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ دشمن اس کی والدہ کو اغواہ کر لیتے ہیں اور بدلے میں سلطان سے ایک بہت خاص شخص جو سلطان کی حراست میں ہوتا ہے مانگتے ہیں تبادلے کے دوران اپنی والدہ کو کھو دیتا ہے اب بدلے کی آگ عمر آفندی کو جلائے جا رہی ہے وہ سلطان کے پاس حاضر ہوتا ہے اپنا حال بتاتا ہے کہ وہ بدلہ لے گا لیکن سلطان اسے سمجھاتے ہیں کہ خود پر قابو رکھو اگر یہ بدلہ اپنے لیے لو گے تو ایک طرح کی خود غرضی ہو گی ریاست کے ساتھ وفاداری بھی عبادت کی ہی مانند ہے سلطان اسے ایک درخت کا پتا بتاتے ہیں کہ وہاں جاؤ وہاں جب تم حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کا راز پا لو تو گے تو تمہارے راستے کھل جائیں گے درخت کے نیچے اسے ایک راز ملتا ہے وہ راز پڑھیے۔

حضرت علی ایک جنگ میں دشمن کے رو برو تھے اس کا سر قلم کرنے والے تھے کہ اس بد بخت نے آپ پر تھونک پھینک دی تو آپ نے تلوار نیام میں ڈال لی اور اس کا سر قلم نا کیا ساتھیوں نے بڑی حیرانی سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو جواب دیا پہلے میں اللہ کی خاطر لڑ رہا تھا اور اس کا سر قلم کرنے لگا تھا لیکن اب اس نے مجھ پر تھونک پھینکی ہے تو اگر اب میں اس کا سر قلم کر دیتا ہوں تو شاید یہ ذاتی بدلا لینا ہو گا یہ راز ریاست سے وفاداری کے لیے ایک روشن راستہ ہے ریاست کی وفاداری آپ کی ذاتیات سے مبرا ہوتی ہے اب عمر آفندی سلطان کے پاس جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس نے راز پا لیا ہے اب وہ اپنی والدہ کے قاتل کو تب تک قتل نہیں کرے گا جب تک وہ ریاست کو سارے راز نا بتا لے سلطان عمر آفندی کو اپنے اس کمرے میں لے جاتا ہے جہاں ریاست کے تمام راز ہوتے ہیں اس کمرے کے بارے میں سلطان کے تین ریاستی کارکنان ہی جانتے ہوتے ہیں اور چوتھا ہوتا ہے کوچوان عمر آفندی جو اپنی رضاکارانہ حب الوطنی کی وجہ سے ریاست کے تمام راز جان لیتا ہے اس روز اس کو ایک اہم ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے اس کے لیے ایک نئی مہم تشکیل دی جاتی ہے اور اسے ملک کے نوجوانوں کا سربراہ مقرر کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے بالاخر عمر آفندی ریاست کی خدمت کرتے کرتے شہید ہو جاتا ہے کس نے سوچا تھا کہ ایک کوچوان ریاست کا اہم ترین شخص بننے کے بعد اس دنیا سے اپنی شایان شان جائے گا بالکل اسی طرح سے پاکستان کی خدمت کرنے والے رضاکاران کی بھی ایسی ہی مثالیں ملتی ہیں عبدالستار ایدھی جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو تمام افواج کے سربراہاں سیلیوٹ پیش کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ایک عام رضاکار صدر کے اعزاز کے ساتھ اس دنیا سے جا رہا ہے اسی طرح سے ڈاکٹر رتھ فاؤ مسیحی خاتون تھی ملک کے لیے کام کیا رضاکار محب وطن ان کو بھی اسی اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا یہ دو غیر عسکری اور غیر صدارتی شخصیات ہیں جن کو اس اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا

ساری کہانی سنانے کا مقصد تھا ک افواج پاکستان سرحدوں پر دشمنوں کا قلع قمع کر کے اپنا کردار ادا کر رہی ہے جبکہ سیاستدان بھی کچھ نا کچھ کام کر رہے ہیں اپنے ذہن، شخصیت اور ترجیحات کے مطابق جبکہ پاکستانی عوام کا جذبہ تو عمر آفندی جیسا ہے لیکن کام ابھی عمر آفندی جیسے نہیں ہو پائے اپنا وطن عام شہری کی بھی ملکیت ہوتا ہے وہ کیوں غلط کام کرتا ہے؟ یا کیوں اپنے سامنے غلط کام ہونے دیتا ہے جب اپنے ہی ملک میں بگاڑ پیدا کرتا ہے وہ کیوں بھول جاتا ہے کہ یہ ملک اس کا مسکن ہے آپ سوچیں کہ عام شہری بھی اپنی پوری قوت اپنے وطن عزیز کے لیے لگا دے تو کیا کوئی قوت ہمیں زیر کر پائے گی پاکستان کو روشن مستقبل مل سکتا ہے اگر ایک کروڑ عمر آفندی جیسے نوجوان یہ ٹھان لیں کہ انہوں نے اپنا قبلہ درست کرنا ہے اور اس ملک کو آگے لے کر جانا ہے اپنے ملک سے محبت کریں اپنی ذمہ داری لیں ملک کے رضاکار خدمت گزار بنیں کیونکہ آپ کے رویے اور عمل سے ہی پاکستان جنت کا ٹکڑا بنے گا پاکستان زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments