شکیلہ یاسین بٹ: دھیان کے روشندان سے ایک بہادر ماں کو سلام


آج من پھر محو یاس ہو کر کسی خواب گراں مایہ کی حسرت میں گھر سے نکلا اور یادوں کے گھنے جنگل میں پہنچ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد یوں لگا کہ کسی گزرے ہوئے موسم کی دلدل میں دھنسنے لگا ہوں کہ اچانک بھائیوں جیسے دوست عاطف رزاق بٹ کی آواز آئی، کدھر جا رہے ہیں شیخ صاحب۔ ؟ میں نے عرض کیا کہیں نہیں۔ کئی دن کی یادوں کی مسلسل مسافت نے تھکا دیا ہے، ویسے بھی چہروں کے جنگل میں بھٹکنا کار بے معنی ہے۔ عاطف مسکرایا اور میرے ساتھ بیٹھ گیا پھر ہم کوچۂ بیگانگی میں دھیان کے روشندان سے کڑیانوالہ کے ماضی قریب کی تاریخ کے اوراق پلٹنے لگے ایک ورق پر عاطف رزاق پکار اٹھا، کیا دلیر ماں تھی۔

میں نے پوچھا کون۔ کہنے لگا میری ٹیچر میڈم شکیلہ، کمال کی شخصیت تھیں۔ دوسروں سے مختلف تھیں یہی ان کی خوبی تھی اور اسی کو لوگ ان کی خامی بتاتے ہیں۔ عاطف رزاق بولتا رہا۔ میں نے دامن وقت پر پھسلتے لمحوں کو روکا اور دھیان کے روشندان سے جھانکا تو یہ میری جانی پہچانی شخصیت محترمہ شکیلہ یاسین بٹ کی تصویر تھی۔ اسے دیکھتے ہی میں نے وقت کا پہیہ ریورس میں گھمایا تو مجھے بہت کچھ یاد آنے لگا۔

ہم ستر اور اسی کی جس دہائی میں شعور کی دہلیز پر دستک دے رہے تھے اس وقت ہمارے روایتی سماج میں عورت کا مجموعی تاثر یہی تھا کہ عورت کی اپنی کوئی ذات نہیں ہوتی، عورت محض ایک ”شے“ ہے جسے مرد اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ اسی مردانہ بیانیے کو قبول کر کے عورتیں بھی خود کو کم تر سمجھ کر مرد کی غیر مشروط تابعدار تھیں۔ اس زمانے میں کوئی عورت پورا فرد ہونے کا اعلان کرتی تو مردانہ سماج اس پر طعن زنی کرنے لگتا۔

اس دور میں کڑیانوالہ کے محلہ ڈاکخانہ میں شیخ یاسین کشمیری کی اہلیہ پورے قد اور اعتماد سے بسلسلہ روزگار گھر سے نکلتی تو ہم جیسے بنیادپرست اسے حیرانی سے دیکھتے۔ وہ لمبے قد، گندمی رنگت اور روشن آنکھوں والی بہادر خاتون سکول ٹیچر محترمہ شکیلہ یاسین بٹ تھی جس نے مردانہ تحکمانیت کے ٹھہرے پانی میں بطور فرد اپنے پورے حقوق کا پتھر پھینک کر ہلچل مچا دی تھی۔ تبدیلی سے ہر شخص خوفزدہ ہوتا ہے لیکن روایتی مردانہ سماج کے سرکردہ حوا کی بیٹی کے انسان ہونے سے کچھ زیادہ ہی ڈرتے تھے اور ڈرتے ہیں۔ عورتوں کے دماغ کو محض خانگی کوڑاکرکٹ سمجھنے والوں کے لیے یہ حوصلہ مند ورکنگ وویمن کسی مرد سے کم نہ تھی اس لیے اسے پورے انسان کے طور پر قبول کرنا ان کے لیے کبھی آسان نہیں رہا۔

میڈم شکیلہ بیسویں صدی کے پچاس کے عشرے کے وسط میں قصبہ کڑیانوالہ کے نواحی گاؤں چک کمالہ کے پیر بخش کے گھر 28 ستمبر 1956 ء کو پیدا ہوئیں۔ اس دور میں خواندگی ایک مسئلہ تھا چہ جائیکہ تعلیم نسواں، تاہم شکیلہ پیر بخش نے بنیادی تعلیم کے بعد میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پرائمری سکول ٹیچرز ٹریننگ کورس پی ٹی سی میں داخلہ لے لیا۔ اس امتحان میں مبینہ طور پر وہ ضلع بھر میں اول رہیں اور انہوں نے سرکاری ملازمت بطور ٹیچر شروع کی۔

1973 ء میں ان کی شادی کڑیانوالہ کی ممتاز کشمیری فیملی کے شیخ محمد امین کے بڑے صاحبزادے یاسین بٹ سے ہوگئی۔ بطور استاد وہ ایک پراعتماد اور حوصلہ مند خاتون تھیں اس لیے سسرال میں اس کو روایتی مردانہ سماجی رویوں، مذہبی خیالات اور دیگر سماجی عوامل کی وجہ سے قبولیت عام نہ مل سکی۔ بلکہ ان کے منجھلے صاحبزادے شعیب یاسین بٹ جو سوشیالوجی کے طالبعلم رہے ہیں ان کے خیال اور تجزیے کے مطابق ”ان کی والدہ کو نظریاتی اختلاف کی وجہ سے خاندان میں مکمل اور مطلق قبولیت کبھی نہ مل سکی“ ۔

محترمہ شکیلہ یاسین نے گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول چک کمالہ اور اعوان شریف کے آغاز و اجراء میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ اس کے علاوہ گورنمنٹ گرلز سکول فتالیاں میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ وہ ٹیچرز یونین میں بھی کافی متحرک رہیں اور پرائمری سکولز ٹیچرز ایسوسی ایشن کی تحصیل اور ضلعی عہدیدار بھی رہیں۔ درس و تدریش ان کا پیشہ ہی نہیں شوق بھی تھا اسی حوالے سے انہوں نے کڑیانوالہ کے پرانے ڈاکخانہ سے ملحقہ ایک عمارت میں اپنے گھر کے قریب 1985 ء میں پبلک ماڈل سکول کے نام سے پرائیویٹ سکول کا آغاز کیا یہ سکول 2012 ء تک کامیابی سے جاری رہا۔

محترمہ شکیلہ یاسین بٹ نے ایک استاد اور بہادر خاتون ہونے کے ناتے بے زبان طبقے کے حقوق، بے تعبیر خواہشوں، اور ان دعوؤں کو اہمیت دینا سیکھا تھا جو عام طور پر عورت اور خاص طور پر دیہاتی عورت کی زبان پر نہیں ہوتے۔ ایسے سماج میں جہاں انسانی حقوق کی آگاہی اور جدیدیت گالی سمجھے جاتے ہوں، ایک دبنگ عورت اور استاد ہونا بڑے دل گردے والے انسان کا ہی کام ہو سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کے لیے اس کا حسن، ذہانت، ہنر مندی اور صلاحیتیں اسے بیشتر مصائب میں مبتلا رکھتی ہیں۔

انہی اوصاف کی مالک ہونے کے ناتے میڈم شکیلہ کو بھی آسان زندگی نہیں ملی تھی۔ ایک حساس انسان کے لیے ایک ناگوار اور ناسازگار ماحول سے سازگاری پیدا کرنا بڑا کٹھن کام ہوتا ہے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ محترمہ نے اپنے ارد گرد کے ناسازگار ماحول سے بھی بڑی متانت سے سازگاری کشید کی۔ ان کے حالات اور جدوجہد دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ

کس کس کو خدا مانیے، اس شہر میں تیرے
دیکھا کہ تیرے شہر کا ہر شخص خدا تھا

سماجی مصائب کا انہوں نے حل یہ نکالا کہ خود کوگھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ تدریسی، سماجی اور سیاسی حلقوں میں مصروف رکھا۔ وہ نرم دل اور غریب پرور خاتون تھیں لہٰذا غریب بچوں کی مفت تعلیم ان کا مشن رہا۔ کئی غریب و یتیم بچوں کی سرپرستی کرتی رہیں۔ وہ ٹیچرز ویلفیئر کے لیے بھی فعال کردار ادا کرتی رہیں۔ ان کا شخصی دبدبہ، اور وقار ہی تھا کہ وہ محلے کی پنچایت کا کام بھی کرتی تھیں ان کے محلے کے کئی گھرانوں کے مسائل تھے جو لوگ ان کے پاس لے کر آتے اور وہ صلح جوئی کی تبلیغ کے ساتھ معاملات رفع دفع کروا دیتی تھیں۔

ان کے طالبعلم عاطف رزاق نے بتایا کہ وہ بارعب کلاس ٹیچر ہوتی تھیں۔ ڈسپلن اور کلاس ورک پر تو نظر رکھتی ہی تھیں ہمارے بولنے، بیٹھنے، ملنے، پہننے اور کھانے کے آداب تک پر گہری نظر رکھتی تھیں ان امور پر وہ طالبعلموں کی ماؤں سے مسلسل رابطے میں رہتی تھیں اور نصابی کام کے ساتھ تربیت کے حوالے سے فیڈ بیک لیتی رہتی تھیں۔ بڑی شفیق استاد اور معاملہ فہم منتظم تھیں۔ عوامی اثرورسوخ کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔

ان کا سماجی و سیاسی متحرک کردار انہیں دوسروں سے نمایاں کرتا تھا لیکن مردانہ سماج میں عورت کو ”مدر نیچر“ کا کردار دے کر ”حوا“ کی مستقل تمثیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ مردوں کی گفتگو حوا کی ایسی بیٹیوں بارے تحفظات رکھتی ہے جو مردوں کی بنائی ہوئی حد بندیوں سے نجات چاہتی ہوں۔ ہمارے ہاں عورتیں بطور مائیں اکثر روایت اور جدت کے درمیان معلق رہتی ہیں۔ ایک قدم آگے بڑھتی ہیں تو دو قدم پیچھے ہٹتی ہیں۔ ہمارے پسماندہ سماج کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں موت کا فرشتہ تو ایک ہی ہے لیکن زندگی کے فرشتے بیشمار ہیں، جو اپنے گریبانوں میں جھانکے بغیر دوسروں کی حیات کا نقشہ اپنے خیالات سے لکھنے کی حسرت کے مارے ہوئے ہیں۔

ہاں ; یاد آیا، محترمہ شکیلہ یاسین ماں بھی بہت کمال کی تھیں۔ انہوں نے اپنے بچوں نصرت ندیم نومی، شعیب یاسین بٹ، فیصل اور بیٹیوں کو ماں کی شفقت ہی نہیں باپ کی نگہبانی بھی خود ہی دی۔ ہمارے انکل یاسین نے یہ ذمہ داری انہی کے کاندھوں پر ڈال رکھی تھی۔ مجھے یاد ہے وہ اپنے بچوں کی تعلیم بارے بہت فکر مند رہتی تھیں۔ ایک روز میرے والد صاحب کے پاس آ گئیں اور کہا کہ مجھے کہیں کہ ان کے بچوں کو تھوڑا وقت پڑھانے کے لیے دے۔

والد صاحب کے حکم پر میں کچھ عرصہ ان کے بچوں کو پڑھانے ان کے گھر بھی گیا۔ وہ اپنے بچوں کے کامیاب مستقبل کے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنا چاہتی تھیں۔ وہ اپنے بچوں کو میری مثال دیا کرتی تھیں کہ ان دنوں میرے والد صاحب کی صحت گر رہی تھی اور کاروبار تباہ ہو گیا تھا۔ میں کالج نوکری سے واپس آتا تو سیدھا والد صاحب کے پاس دکان پر آجاتا۔ ان کی مدد کرتا تھا۔ وہ بچوں کو بتاتی تھیں کہ تعلیم انسان کو عاجز اور حوصلہ مند بناتی ہے اسی زینے سے کامیابی کی منزل ملتی ہے۔

بظاہر دنیا دار خاتون تھیں لیکن ذاتی طور پر ذکر الہٰی کی بڑی پابند تھیں اور اولیاءاللہ سے بڑی محبت کرتی تھیں۔ اس روحانی برکت کو بھی انہوں نے ہمیشہ اپنے بچوں کی کامیابی کی دعاؤں کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ کون سے ولی کی خانقاہ ہے جہاں انہوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی کامیابی کے لیے منتیں نہیں مانی تھیں۔ کہیں دیگ چڑھاتیں تو کہیں چادر لیکن دعا ایک ہی یا اللہ میرے بچوں کو کامیاب بنانا۔ انہیں علم تھا کہ خاندان میں ان کے لیے جو مسائل تھے وہ ان کے بچوں کے لیے بھی رہیں گے۔ اللہ نے ان کی دعائیں قبول کیں آج ان کے بچے ماشاءاللہ اپنی اپنی زندگی میں کامران ہیں لیکن یہ ان کی محنت سے زیادہ ان کی ماں کی دعاؤں کا ثمر ہے۔ 2018 ء میں بارسلونا میں میں نے خود دیکھا کہ نصرت ندیم نومی کی اپنے کام میں کیا عزت ہے اور کتنا اللہ کا فضل ہے۔ اللہ انہیں مزید کامیابیاں عطا کرے۔

محترمہ شکیلہ یاسین کی ایک اور خوبی ان کی فراخدل میزبانی تھی۔ ان کے گھر جائیں تو مہمان کی آؤ بھگت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی تھیں۔ وہ اہنے بچوں کو بھی یہی کہتی رہتی تھیں کہ گھر آیا مہمان کچھ کھا کر نہ گیا تو سمجھو قبرستان سے ہو کر گیا۔ گھر چھوٹا ہو یا بڑا اس کی بڑائی مکینوں سے ہے تو خوبصورتی مہمانوں سے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ گھر کی زکوٰۃ یہ ہے کہ اس میں مہمان خانہ ہو۔ ان کی زندگی میں برکت ایسی خوشگوار عادات و اوصاف کی وجہ سے ہی تھی۔

زندگی کی جدوجہد ہر انسان کے لیے ایک شدید معرکہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس معرکہ کے دوران کئی بار انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے ایسے میں اسے ایک ہمدرد جیون ساتھی کا اعتماد اور پیار ہی زندہ رکھتا ہے۔ محترمہ شکیلہ یاسین کی زندگی کے نشیب و فراز میں انکل یاسین بٹ کا ساتھ اور اعتماد مسلسل رہا جس نے اس بہادر خاتون کے کردار کو ہمیشہ توانائی فراہم کی۔ ہیڈیگر کہتا ہے کہ زندگی اور موت کے درمیان وقت کا حصول دراصل موت کو خوش آمدید کہنے کی تیاری ہے۔

موصوفہ بھی زندگی کے آخری برس دنیا سے کٹ کر رہ گئی تھیں اور انہوں نے یاد الہٰی سے لو لگا لی تھی۔ تاکہ اس کی بھیجی ہوئی موت جب آئے تو وہ رضائے الہٰی سمجھ کر خوشی خوشی قبول کریں۔ آخری دنوں میں وہ عارضہ قلب کا شکار ہوئیں اور انہیں طبی امداد کے لیے لاھور کے ڈاکٹرز ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں 22 اگست 2006 ء کو وفات پاگئیں۔ کڑیانوالہ کے شاہ بہرام قبرستان میں جامع مسجد انوار مدینہ کے قاری ارشد محمود نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور وہیں انہیں آخری آرام گاہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ حق مغفرت فرمائے۔

وقت کے کھیل سے گو ہم کو ملا کچھ بھی نہیں
زندگی پھر بھی ہمیں تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں

میں یادوں کے کوچۂ بیگانگی میں عاطف کے ہمراہ خاموش بیٹھا تھا کہ خلق چپ چاپ گزرتی رہی مگر اک نقش قدم اپنے ہونے کا پتہ دیتا رہا۔ میں نے عاطف کے ساتھ مل کر بہادر خاتون اور دلیر ماں آنجہانی محترمہ شکیلہ یاسین بٹ کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا کی اور رخت سفر باندھ کر واپس گھر آ گیا۔ اللہ کریم محترمہ شکیلہ یاسین کے درجات بلند فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments