جدید ذہن کے اشکالات اور روایتی مذہبی فکر


عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ اہل مذہب ہمیشہ سوال کرنے اور کچھ حساس موضوعات (ان کے نزدیک) پر مکالمے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہوتا ہے کہ دین مکمل ہے اور ہمیں مذہبی موضوعات پر عقلی استدلال کے طرف جانا ہی نہیں چاہیے۔ لیکن عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے اور بچپن اور عموماً جوانی میں مذہب اور تصور خدا کو لے کر ہمارے ذہن میں طرح طرح کے سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ اور یہ عین فطری بھی ہے۔ آپ کسی کے ذہن پر قدغن نہیں لگا سکتے۔

لیکن ہمیں کبھی بھی ان سوالات کے تسلی بخش جوابات نہیں ملتے۔ الٹا ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ یہ شیطانی وسوسے ہوتے ہیں اور یوں ہر وقت شیطان مردود سے پناہ مانگنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ بہت سوں کو بچپن میں یہی پٹیاں پڑھا کر خاموش بھی کر دیا جاتا ہے لیکن یہی بچے جب بڑے ہوکر یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں وہاں انہیں سائنس کے ہر سوال کا جواب مذہب سے الٹ ملتا ہے تو پھر یہ سرے سے مذہب ماننا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

دراصل میں روایتی علماء کا بدقسمتی سے حال یہ ہے کہ انھیں فقہ کی ہزار سالہ پرانی دقیق کتابیں تو رٹی رٹائی یاد ہوگی مگر جدید اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات سے نمٹتے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوں گے ۔ وہ نہیں جانتے کہ چارلس ڈارون، کارل مارکس، آئن سٹائن کون ہیں؟ نظریہ ارتقا کیا بلا ہے، نظریہ اضافت کس چڑیا کا نام ہے؟ لہٰذا ان کے پاس آسان ہتھیار یہی بچتا ہے کہ ایسے کفریہ سوال نہ پوچھو، اسلام سے باہر ہو جاؤ گے۔

لیکن سوالات اٹھنے کا یہ سلسلہ کسی بھی طرح سے رکتا نہیں ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں ایسے سوالات اٹھنے کا رجحان غیر معمولی قوی ہو اور دلیل یا ذاتی تجربے سے ان سوالات کے تشفی بخش جوابات نہ ملے یا کسی طرح سے انسان کے اس ذہنی قوت کو مناسب کاموں میں صرف نہ کیا جائے تو اس سے ایک ایسی شخصیت کے تشکیل پا جانے کا اندیشہ ہوتا ہے جو مذہب، اقدار اور روایات سے مکمل طور پر باغی ہو جاتی ہیں۔ اس کی ہمارے سامنے سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔

بہت سارے دوست جو بچپن یا جوانی میں ان حالات سے گزرے ہوں گے وہ میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ یہ سب کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ایسے بندے کو آپ جتنا ذہنی ٹارچر کریں گے وہ اتنا ہی مذہب، دین اور بالآخر خدا سے دور ہوتا جائے گا۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ نفرت، گالم گلوچ، تشدد یا قتل کی دھمکیوں اور سر تن سے جدا جیسے اشتعال انگیز نعروں سے آپ کسی بندے کو خدا کے قریب نہیں لا سکتے۔ سائنسی ذہن جوابات بھی سائنسی مانگتے ہیں۔

ایسے میں ہمارے ارد گرد ایسے گنے چنے سکالرز بشمول غامدی صاحب کا وجود نوجوانوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے جو ان اذہان میں اٹھنے والے سوالات کے منطقی اور عقلی دلائل سے تشفی بخش جوابات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ان کو کسی طرح مایوسیوں کے دلدل سے نکالنے کا سبب بنتے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہی چند اشخاص جو تعلیم یافتہ نسل میں آج کل مقبول ہے اور ان کی ذہن سازی کر رہے ہیں وہ سب کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں ہیں اور نا ہی روایتی فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہ سب کے سب جدید علوم پر دسترس رکھتے ہیں۔ سوالات چاہے جیسے بھی ہو ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ اپنی جنت کی فکر میں دنیا کو جہنم بنانے کی بات نہیں کرتے بلکہ انسانوں کی فلاح اور اس دنیا کو رہنے کے لئے ایک بہترین جگہ بنانے کی بات کرتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ مذہب کے روایتی فکر والوں کی طرح سائنس کو مذہب کے بالمقابل کھڑا کر کے نوجوان اذہان کو کنفیوز کرنے کا سبب بھی نہیں بنتے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ بھی سچ ہے کہ جدید نسل میں قبولیت پانے والے ایسے نام گنتی کے ہے۔

بہرحال اس سارے بحث کا مقصد یہی ہے کہ روایتی علماء کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ گستاخی اور اسلام بیزاری کے فتوؤں سے آپ کسی کو خاموش تو کر سکتے ہیں لیکن مطمئن نہیں کر سکتے۔ ہمارا کام ان سوالوں کے سامنے بند باندھنا نہیں بلکہ ان کے جوابات دے کر انہیں مطمئن کرنا ہے۔ ورنہ علم اور انسانی شعور کے ارتقاء نے ویسے بھی اپنا سفر تو جاری رکھنا ہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کا حشر بھی پروٹسٹنٹوں پر ظلم ڈھانے والے خدا کے مقدس کیتھولک پادریوں جیسا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments