کورونا بھی ہے لیکن ٹڈی دل کی بھی خبر لینی چاہیے


امسال جنوری میں ٹڈی دل نے حملہ کیا۔ انڈے بھی دیے۔ ہم نے دینے دیے۔ اس کے بعد بھی ان کو نہیں چھیڑا۔ آخرانسانیت نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مئی جون کے تباہ کن ٹڈی دل کے جھنڈ کے جھنڈ دیکھنا نصیب ہوا۔ واہ کیا منظر تھا۔ ۔ ۔

آسمان پر محو پرواز ٹڈیاں دیکھنے سے زیادہ مزہ زمین پر پڑنے والے ان کے گھنے سائے کے نظارے میں تھا۔ گویا تپتی دوپہر میں کالی گھٹا چھا گئی ہو۔ غور کرنے پر معلوم ہوا اس کالک میں کچھ حصہ ٹڈیوں کی ایک خصلت کا بھی ہے۔

وہ یہ کہ جیسے جیسے وہ کھیت کھلیان، درخت پودے، پھل پھول کھاتی جاتی ہیں ویسے ویسے وہ اپنا پیٹ بھی ہلکا کیے جاتی ہیں۔ آخر کیوں نہ کریں زندگی 90 دن کی اور فی دن 150 کلومیٹر کا سفر۔ ۔ ۔ کتنا بوجھ ہوتا ہے نا ننھی سی جان پر۔ ۔ ۔ سب درختوں میں بس نیم کا درخت ہرا بھرا رہا۔ ظالم کہیں کا مہمانوں کی مہمان نوازی نہ کرنا کہاں کی شرافت ہے؟

کسان بھری دوپہر میں ٹین کے ڈبے اور ڈھول اٹھا کر کھیتوں کی طرف نکل گئے، پھر جو لطف آیا بس بھنگڑا نہیں ڈالا۔ سنا ہے جولائی میں پھر افریقہ سے ایک مہمان دستہ آنے والا ہے۔ امید ہے ایک زرعی ملک کی حکومت اب بھی ان کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کرے گی اور کسانوں کے ٹین، ڈھول کی تھاپ پر چین کی بانسری بجائے گی۔ رہے شاہ کا شوق سلامت، ”فصلیں“ اور بہت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (شاعر سے معذرت)

اقوام متحدہ اوربلوم برگ کے مطابق ٹڈی دل کے نتیجے میں آنے والی قحط، کرونا کی وبا سے زیادہ جانیں لے سکتی ہے۔ ٹڈی دل کوئی نئی آفت نہیں کہ حکومت کہے کہ ہم اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

1939 اور 1945 میں ٹڈی دل کے تدارک کے لیے کمیشن بنے جس کے نتیجے میں 1946 میں پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ بنا۔ جس میں ٹڈی دل کے تدارک کے علاوہ باہر سے آنے والے پودوں اورانکے بیجوں کو قرنظینہ کرنے کی شقیں بھی موجود تھیں۔

قیام پاکستان کے بعد بھی اکثر سندھ اور بلوچستان کے کچھ اضلاع اس کا شکار رہتے آئے ہیں۔ کبھی بڑے پیمانے پر کبھی چھوٹے پیمانے پر۔ 1950 کی ابتدائی دہائی میں بین الاقوامی کمیشن قائم کیا گیا جس نے ایران، عراق، افغانستان، پاکستان اور انڈیا میں ٹڈی دل کا مقابلہ کرنے کے لیے سروے کیے، مشینریز بنایئں، مختلف کامیاب تجربات کیے اورصحرائی ٹڈیوں کے انڈے تک تلف کر دیے جس کے نتیجے میں 1952 میں مقامی ٹڈیوں کا کوئی حملہ نہ ہوا۔

اسکے بعد دوبارہ سے ہجرت کر کے آنے والے ٹڈی دل کا، 1950 میں قائم ہونے والے محکمہ تحفظ پودا جات/ٖ فصلات، کی جدید مشینری اور 20 سے زائد سپرے کرنے والے ہیلی کاپٹرز کی مدد سے موئثر انداز میں خاتمہ کیا گیا۔

2020 کی اوائل تک ان ہیلی کاپٹرز میں سے صرف تین بچے تھے۔ ان میں سے ایک اس سال جنوری میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ اس میں موجود پائلٹ بھی شہید ہو گیا۔ سپرے کرنے والے کچھ ہیلی کاپٹزر ہم نے ترکی سے برآمد کیے ہیں، مگر یہ موجودہ بڑے پیمانے کے ٹڈی دل کے حملوں سے نبٹنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اورجو موجود ہیں ان کا بھی مکمل استعمال نہیں کیا جا رہا۔

بلوچستان اور سندھ میں 80 فیصد ٹڈی دل کی موجودگی کے باوجود وہاں کی صوبائی حکومتوں نے اس سے نمٹنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ مگر پنجاب کابینہ نے بار بار وفاقی حکومت کو خط لکھ کر نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی اور آرمی کی مدد سے اس آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے مشینری تیار کرنے کی اجازت لے لی ہے۔ اب وہ اس مشینری کو استعمال کر رہی ہے، گو کہ جنوری کے بعد بہت دیر کر دی مہربان آتے آتے۔

پاکستان میں ایگریکلچر، فوڈ سیکیورٹی اور پسٹیسائڈز کے متعلقہ وفاقی اور صوبائی ایکٹ اور رولز بھی موجود ہیں۔ جن کے مطابق ٹڈی دل یا دیگر پسٹیسائڈز کے حملے کی صورت میں مقامی انتظامیہ مقامی لوگوں اور کسانوں سے اخراجات وصول کر سکتی ہے۔ جس سے وہ ٹڈی دل یا دیگر پسٹیسائڈزکے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات اٹھا سکتی ہے۔

چلیں یوں ہی سہی مگر کم از کم کسانوں کی پوری محنت تو ضائع نہ ہو گی۔ پوری فصل کی تباہی پہلے کسان کو رلاتی ہے، پھر بھی کچھ نہ کیا جائے تو کچھ عرصے بعد پوری قوم کو رلاتی ہے۔

اگر مقامی حکومت نقصان کو روکنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ کسانوں سے اس سال کا ٹیکس نہیں لے سکتی۔ صرف یہ شق کافی نہیں، اس کے ساتھ ریلیف پیکج اور اگلی فصل کا بیج دینا بھی لازمی ہونا چاہیے تھا۔

موجودہ بحران میں فوڈ منسٹری کے محمد خورشید اور بائیو ٹیکنالوجسٹ جوہر علی نے ایک پلان پیش کیا کہ ٹڈیاں جب رات میں بیٹھ جاتی ہیں تو ان کو پکڑ کر مرغی اور مچھلی کی فیڈ کے لیے استعمال کیا جائے۔ وزیراعظم کی اجازت ملنے پر پہلا پائلٹ پروجیکٹ اوکاڑہ میں شروع کیا گیا۔ لاک ڈاؤن اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونے والی بیروزگاری، دونوں سے نجات کی نجات، پروٹین کی پروٹین۔

شنید ہے کہ بائبل میں بھی میٹھے شہد کے ساتھ کھٹی ٹڈی کھانے کا ذکر ملتا ہے۔ 1950 م میں ہونے والے بین الاقوامی گرینڈ آپریشن میں مشرقی پاکستان کی خواتین نے ٹڈیاں پکڑ کر خوب پیسے بھی کمائے تھے اور فوٹو بھی کھچوائے تھے۔ اور ہاں گزشتہ برس سندھ اسمبلی میں بھی تو فرائیڈ ٹڈیوں کا دور چلا تھا۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر جولائی کے ٹڈی دل کے حملے سے قحط آ بھی جائے تو انہی ٹڈیوں کو کھا کر غذائی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ ایسا ہی ایک مشورہ میرے پاس بھی ہے۔ کیوں نہ ایک بڑا سا جال بنا جائے جو 15000 کلومیٹر لمبا اور 5000 میٹر چوڑا ہو۔ جب افریقی ٹڈیاں آئیں تو اس کو پھیلا کر ان کو قید کر لیا جائے اور کیا جن و انس، کیا چرند پرند سبکی پروٹین کی سپلائی کو یقینی بنایا جائے۔ زیادہ ہو جائیں تو چین کو برآمد کر دی جائیں۔ ملا نصر الدین کو کوئی وزارت ملتی تو ایسے ہی منصوبے پاس ہوتے۔

بھئی ہم تو ایسے مشورے ہی دے سکتے ہیں۔ اب حکومت جانے کہ کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانی ہے یا بس مستقبل قریب میں ایک زرعی ملک سے ”زرعی“ اور آبادی سے ”کسان“ منہا کرنا ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments