اکتوبر 47ء کا واہگہ بارڈر اور ہرے کھٹے سنگتروں کی مٹھاس


اکتوبر انیس سو سینتالیس کی خنک شام واہگہ بارڈر پر کھائے ہرے کچے کھٹے سنگتروں کی مٹھاس۔
”اماں۔ اماں۔ پانی۔ ہائے پانی۔ ہائے میں پیاس سے مرا جا رہا ہوں۔ ۔ ۔“ کافی رات گئے اندھیرے میں کھیت یا میدان میں بچھے بستر پر اپنی ماں کی گود میں سر رکھے لیٹے میں کراہ رہا تھا۔

” صبر بیٹا صبر۔ بس تھوڑی دیر۔ فوجی گئے ہوئے ہیں۔ ابھی پانی لے آئیں گے۔ ۔ ۔ دیکھو انہوں نے برتن ڈھونڈنے ہیں۔ پانی بھی کنویں سے نہیں لینا۔ اس میں زہر ملا دیا گیا ہے۔ بس ابھی آیا۔“ میری ماں مجھے دلاسا دے رہی تھی۔

بہت بڑے میدان میں بے شمار بستر لگے یا بغیر بستر لوگ بچے بڑے مرد خواتین بیٹھے لیٹے رات گزرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے گرد دائرے میں کھڑی سولہ بسوں کا حصار تھا۔ ان بسوں کو ایک سو پانچ فوجی ٹرکوں کے قافلے نے حفاظت میں لے رکھا تھا۔ ۔ ۔

سولہ بسوں کا یہ قافلہ دوپہر سے کچھ قبل پاکستان سے قادیان آیا تھا اور سہ پہر جتنے لوگ ان میں آ سکے لے کر واپس روانہ ہوا تھا۔ قصبہ سے نکلتے کچھ دور ایک نہر کی پٹری پر ابھی زیادہ دور نہیں گئے تھے۔ کہ قافلہ رک گیا۔ سورج ڈوبنے والا تھا۔ نہر کا پانی رکا اور گندگی سے بھرا تھا۔ انسانی اعضاء اور لاشیں نہر میں اور باہر پڑی بدبو فضا میں پھیلائے تھیں۔ ۔ ۔ ڈرائیور اور ایک باہر رائفل بردار فوجی سب کو چوکنا رہنے اور بہادری سے مقابلہ کی تلقین کر رہے تھے کہ ایک پیامبر بتانے آیا کہ سامنے سے پاکستان سے ایک بڑا فوجی قافلہ آیا ہے اور اس نے بسوں کو فوراً واپسی کا حکم دیتے بتایا ہے۔

کہ آگے اکثر مقامات پر کھیتوں میں سکھوں کے مسلح دستے چھپے بیٹھے آپ کے منتظر ہیں اور ایک بندے کا بھی خیریت سے پہنچنا معجزہ ہوگا۔ ۔ ۔ اور فوجی ٹرکوں کی رہنمائی اور بنائے رستہ پر نہر کی پٹری سے کھیتوں میں یہ مڑتا یہ قافلہ ریلوے لائن کے پار اس ترتیب سے کھڑا تھا اور صبح روشنی ہونے سے پہلے سوار ہو کر نکلنا تھا۔

A Muslim family fleeing from Hindu India moves along a road near Lahore on Aug. 26, 1947.

کوئی دو ہفتے قبل محلہ دارالفضل کی مسجد دارالفضل کے صحن کی طرف سامنے واقع مکان کے باسی ہمارے خاندان کو صرف چند منٹ کے نوٹس پر گھر سے نکلنا پڑا تھا۔ کہ چولہے پر چڑھی ہنڈیا بھی نہ اتاری تھی۔ بس والدہ ضروری کاغذات کی پوتھی گلے میں لٹکائے اور جو کپڑے اشد ضرورت ہو سکا لئے ہمارے ہاتھ پکڑے تعلیم الاسلام سکول کی عمارت کی طرف بھاگ رہی تھیں۔ ۔ ۔ ہاں وہ گھر میں موجود دو بھینسوں کے رسے کھولنے نہ بھولی تھیں۔ ۔ ۔

ان دو ہفتوں کی کہانی الگ سہی۔ چند دن قبل نو فوجی ٹرکوں کا قافلہ ایک دن اور تین ٹرکوں کا قافلہ ایک دن بہت چھوٹے بچوں والے خاندانوں کو لے جا چکا تھا۔ میری بڑی ہمشیرہ کا خاندان اپنے بچوں کے ہمراہ اور میرا بھائی اور ایک بہن بھی ان کے ساتھ سوار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اور آج اس قافلے میں والدہ ایک بڑی بہن میں اور مجھ سے بڑے بھائی شریک تھے۔

سورج طلوع ہونے سے قبل یہ قافلہ دوبارہ روانگی پکڑ چکا تھا۔ ابلی ہوئی گندم نمک مرچ اور پانی کا ناشتہ ہو چکا تھا۔ ۔ ۔ یہی یا ملتی جلتی خوراک کے دو ہفتہ میں عادی ہو چکے تھے۔ اب دو فوجی ٹرک بسوں کے آگے۔ ایک درمیان اور دو پیچھے تھے ہر بس کی چھت پر دو فوجی چوکس پوزیشن لئے تھے۔ میں اور بھائی شفیق ڈرائیور کی پچھلی نشست پر مردوں کے ساتھ اور والدہ اور بہن اس سے پچھلی پر تھیں۔ نہر کے پار اور کھیتوں میں کئی مرتبہ فوجی ٹرکوں پہ چوکس کھڑے رائفل بردار دیکھ کر کرپانیں اور تلواریں ہاتھ میں لئے سکھ بھاگتے نظر آئے۔ ۔ ۔ لاشیں بھنبھوڑتے گدھ اور کتے خوفزدہ کرنے کو کافی تھے۔ مگر انتہائی بچپن ہی میں سکھائی گئی قرآنی دعاؤں کا ورد زاد راہ تھا۔

قافلہ نہر چھوڑ گاؤں بٹالہ گرنتھیاں سے گزرنے لگا تو کچی سڑک پر نالے کا پل ٹوٹا ہوا تھا۔ قافلہ رک گیا۔ فوجی چوکس بسوں کی چھتوں پر کھڑے اور ارد گرد گشت میں تھے۔ دائیں بائیں کھیتوں سے گونجتے ست سری اکال۔ خالصہ راج قسم کے نعرے اور سر دکھائی دیتے یا بھاگتے نظر آتے۔ دو فوجی ٹرک ارد گرد کے بند گھروں کے دروازے اینٹیں وغیرہ توڑ کر اور درختوں کی ٹہنیوں وغیرہ سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ میں رستہ بنا کے قافلہ گزارنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

بار بار قافلہ رکتا ایک ٹرک آگے چکر لگا کر جہاں کھیتوں میں چھپے جتھوں کا شک ہوتا دو چار فائر کر کے بھگا کے واپس آتا اور قافلہ رواں ہو جاتا۔ بٹالہ سے آگے شاید سڑک پکی تھی یا نہیں۔ یاد نہیں۔ مگر ایک جگہ پھر قافلہ روک لیا گیا۔ اب ہندوستانی پولیس اور فوجی تھے۔ ایک فوجی پچھلے دروازے سے ہماری بس میں داخل ہوا اور اعلان کیا کہ کسی مسافر کے پاس یا سامان میں کوئی چھری چاقو ڈنڈا اسلحہ قسم کی کوئی چیز ہے تو نکال دے ورنہ ابھی تلاشی پر کچھ نکلا تو گرفتار کر لیا جائے گا۔

نو سالہ میرے بھائی شفیق کی جیب میں ہمیشہ چھوٹا چاقو ہوتا تھا۔ جو وہ اپنے شوق۔ دوستوں سنگ۔ کھیتوں سے مولیاں گاجریں گنے توڑ کر کھانے کے وقت استعمال کرتا تھا۔ اسے چاقو نکالتے ڈرائیور نے جو پیچھے مڑا دیکھ رہا تھا دیکھ لیا۔ آہستگی سے مگر مضبوط آواز سے بولا۔ خبردار۔ پاجامہ کے اندر چھپا اسے۔ تو نے دو سکھ مارنے ہیں اس سے۔ ۔ ۔ مجھے آج بھی وہ پرعزم چہرہ اور لہجہ یاد ہے۔ ۔ ۔ فوجی ادھر ادھر جھانکتا آیا۔ ڈرائیور کو کھڑا کر کے اس کی جسمانی تلاشی لی۔

سیٹوں کے نیچے ہاتھ پھیرا۔ اور اتر گیا۔ قافلہ پھر رواں ہوگیا تھا۔ ڈرائیور ساتھ کی نشست پر بیٹھے مسافروں سے کہہ رہا تھا۔ میرے پاس دو چھرے چھپائے ہیں چوکنے رہنا ضرورت پڑی تو میں تمہیں پکڑا دوں گا۔ ۔ ۔ شاید کہیں کچھ کھانے پینے کا مہیا ہوا یا بس میں موجود تھا یا جو بھنے چنے وغیرہ ساتھ تھے۔ ان سے ہی گزارا ہوا۔ یاد نہیں۔

رکتے چلتے۔ نعرے سنتے۔ فوجیوں کی گولیوں سے جتھوں کو ڈراتے بھگاتے۔ بھاگتے دیکھتے۔ دونوں طرف لاشوں کے انبار مرے مویشی۔ اور ان کو نوچتے گدھ اور چیلیں اور جانور۔ بکھرے ہوئے سامان ٹوٹی بیل گاڑیوں پہ لٹکے پھٹے دوپٹے اور کپڑے دیکھتے۔ خوف سے کانپتے مگر دعا اور یقین کے دامن سے لپٹے امرتسر سے گزرتے اواخر اکتوبر انیس سو سینتالیس کی اس ٹھنڈی ہوتی شام سورج ڈھلنے سے کچھ قبل ابھی واہگہ بارڈر کچھ دور ہی تھا۔ کہ پیاس سے خشک۔ یا بھوک سے بیتاب ہونے کو بھول یہ سب کچھ چھوڑ چھوڑ آئے مہاجر پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ جن میں ساڑھے چھ سالہ لئیق احمد اور نو سالہ شفیق احمد کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ ۔ ۔

بسیں ان نعروں سے گونجتیں۔ واہگہ بارڈر پار کرتے میدان میں کھڑی ہو چکی تھیں۔ دونوں بھائی ڈرائیور والی کھڑکی سے کود کر باہر آ گئے تھے۔ رضا کار شاید تھکے ٹوٹے مگر مطمئن خوشی سے دمکتے چہروں والے نو وارد مہاجروں میں کھانا پانی تقسیم کر رہے تھے کہ ایک بس کے نزدیک ہی ایک بوڑھے جھریوں والے گھٹنوں سے اونچی دھوتی والے بابے کو ٹوکری میں ابھی کچے تقریباً ہرے سنگترے لئے بیٹھے دیکھا۔ میری جیب میں ایک آنہ موجود تھا۔ ۔ ۔ اور اس ایک آنہ میں چھ سنگترے ملے تھے۔ ۔ ۔

واہگہ بارڈر کی پاکستانی حدود میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ساڑھے چھ سالہ بچے کے ایک آنہ کے چھ خریدے ہوئے ان ہرے۔ کچے۔ کھٹے۔ سنگتروں کی مٹھاس اس اسی سالہ بوڑھے لئیق احمد کے منہ میں آج بھی تازہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments