کیا آپ نے کبھی فادرز ڈے پر اپنے ابو جان کو خط لکھا ہے؟


ڈاکٹر خالد سہیل۔ ۔ ۔ گل رحمان
گل رحمان کا اپنے ابو ( ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب کے نام خط )
مورخہ 17 جون ؀ 2020

پیارے ابو، آپ کیسے ہیں؟ جانتی ہوں ربط کا قصہ تمام ہوئے ایک عمر گزر گئی اور مزاج پرسی کا تکلف بھی جاتا رہا۔ لیکن آپ سے اور خود کلامی سے کبھی بھی دل نہیں بھرا۔ جانتی ہوں مجھ سے زیادہ آپ مجبور ہیں لیکن پھر بھی دل برداشتہ ہو کے کبھی کبھی کچھ کہنے سننے کو جی چاہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے جیسے زندگی اپنی ہی سناتی رہی اور ہماری بات بیچ میں ہی رہ گئی۔ خیر وہ اس کی عادت ہے ہر پل نفسا نفسی میں ہی رہتی ہے۔ بات کو آگے بڑھاتی ہوں۔

وقت قلیل ہے اور قصہ جیسے شیطان کی آنت۔ تحریر کا سوچتے ہی سب سے پہلے گویا بچپن کا گمان ہونے لگا۔ جب آپ نے شروع شروع میں مجھے خط و کتابت کی ضرورت سمجھائی تھی۔ میں آپ کو خط لکھتی تھی اور آپ والد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین استاد ہونے کا بھی فرض انجام دیتے تھے۔ میرا خط، خواہ میں آپ کے ساتھ اسی گھر میں ہوں یا دوسرے ملک میں، میری املاء سمیت مجھے نا صرف واپس بھیجتے تھے بلکہ اس پہ اتنا تبصرہ کرتے کہ مجھے ازبر ہو جاتا۔

مجھے اردو سے کوئی خاص دلچسپی تو نہ تھی لیکن اسی طرح میں دھیرے دھیرے اپنی مادری زبان سے رو شناس ضرور ہو رہی تھی۔ ابو آج بھی مجھے املاء کی ضرورت رہتی ہے خواہ وہ میرا اظہار رائے ہو یا اظہار خیال۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ سمجھانے والے شفقت سے نہیں تنقید سے ذہن نشیں کرواتے ہیں۔ ابو آپ کو وہ قصہ تو یاد ہوگا۔ ۔ ۔ بلکہ یوں کہیں کہ میری وہ عادت جس پہ امی سے بہت ڈانٹ پڑتی تھی۔ ”گل ابو کو آتے ہی ہر خبر نہ سنایا کر “ میری معصومیت خبر دینے میں نہیں، بلکہ آپ جس طرح ہر مسئلہ کا حل نکالتے تھے اس کی تعلیم و تربیت لینا تھا۔

کہیں نہ کہیں میں بہت پہلے آپ کو ضابطہ حیات مان چکی ہوئی تھی۔ اور آج شاید اسی سانچے کو کٹورے کی طرح لیے جگہ جگہ پھرتی ہوں۔ لیکن کیا کروں اس میں جس کو بھی رکھوں، خلا رہ ہی جاتا ہے۔ آج بھی ان لوگوں کی بات یاد آتی ہے جو ہم بہن بھائیوں کی مثال یوں دیتے تھے ”چراغ تلے اندھیرا“ ۔ محاورے تو بہت پڑ ہے تھے لیکن یقین جانیں ایک ایک کر کے سب کے مطلب سمجھ آ رہے ہیں۔ ابو آپ سے لا متناہی محبت تو ہے لیکن ایک شکایت بھی ہے۔

جہاں آپ نے ہماری پرورش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی مثلاً پیسے کی ہو یا خواہشوں کی ہمیشہ میانہ روی کا سبق دیا۔ مزاج کی بات ہو یا حالات کی، استقامت پہ زور دیا۔ ہمیشہ تعلیم، پیسا اور وقت کی قیمت جیسے رٹوا دی ہو۔ پھر ایک بات سکھانا کیسے بھول گئے؟ جینا۔ ۔ ۔ اور جینے کا قرینہ۔ کیا آپ نہیں جانتے تھے یہ دنیا پھولوں کی سیج نہیں؟ حتی کہ میرا نام بھی گل رکھ کے مجھے نرم و نازک احساس تو دیا لیکن شاید فولاد بنانا بھول گئے۔

آپ نے جہاں لکھنا پڑھنا سکھایا وہاں دنیا کی تند و تیز دھوپ کے جھلسنے سے کیسے بچا جائے کیوں نہیں بتایا؟ اخلاق، نظم و ضبط اور ہوشمندی دی لیکن رویوں کی بابت کچھ نہیں بتایا۔ احساس دیا لیکن درد برداشت کرنے کی حد نہیں بتائی۔ دینا سکھایا، لینا منع کرتے رہے۔ جو تعلیم لو اس پہ عبور حاصل کرو، لیکن یہ کیا کہ جو سبق دنیا دیتی ہے وہ کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ کاش کہ آج ہم آپ کی تعلیم و تدریس سے زیادہ آپ کے ذاتی تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے۔ چلیں کوئی بات نہیں میری کاوشیں ایک دن آپ کے اس راز سے پردہ اٹھا ہی دیں گی کہ ماں باپ اولاد کو دنیا اور زندگی کا صرف خوبصورت چہرہ کیوں دکھانا چاہتے ہیں۔ بد صورت چہرہ کہیں اپنے پیچھے کیوں چھپا لیتے ہیں؟

جواب کی منتظر آپ کی پیاری بیٹی
گل رحمن

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا اپنے ابو کے نام خط
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ڈیر گل رحمان صاحبہ!

آپ نے اپنے ابو کو لکھا ہوا محبت نامہ مجھے بھیجا اور میری رائے مانگی۔ میری نگاہ میں والدین ایک ایسا رول ماڈل بن سکتے ہیں جو مرنے کے بعد بھی اپنے بچوں کو انسپائر کرے۔ آپ کا خط پڑھ کر مجھے وہ خط یاد آ گیا جو میں نے اپنے ابو عبدالباسط ’جو ایک زمانے میں گورنمنٹ کالج کوہاٹ اور آر اے بازار ہائی سکول میں ریاضی کے استاد تھے‘ کو ان کی وفات کے کئی سال بعد لکھا تھا جس کا عنوان تھا

خوش قسمت بیٹے کا خط
وہ حاضر خدمت ہے۔

پیارے ابو جان! آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں لیکن میری یادوں اور خوابوں میں زندہ ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے ’جب بادشاہ فوت ہوتے ہیں تو اپنے بچوں کے لیے محلات اور کھیت اور بہت سی دوسری دنیاوی چیزیں ورثے میں چھوڑ جاتے ہیں لیکن جب سنت سادھو ولی اور صوفی اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کے لیے اپنی دانائی اور کچھ کہانیاں چھوڑ جاتے ہیں جو نسل در نسل ان کے بچوں کی زندگی کی تاریک راہوں میں مشعل راہ کا کام کرتی ہیں۔‘

جب میں آپ کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے آپ کی بہت سی باتیں یاد آتی ہیں جن میں آپ کی شخصیت اور زندگی کا فلسفہ دکھائی دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے آٹھویں جماعت کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور پشاور کے آر اے بازار ہائی اسکول میں اول پوزیشن حاصل کی اور آپ کے دوست مبارکباد دینے آئے تو آپ نے بڑے احترام سے کہا ’میرا بیٹا اللہ کی امانت اور فطرت کا ایک تحفہ ہے۔ میں صرف اس کی دیکھ بھال کرنے والا ہوں اور اس کی کامیابی کے لیے پوری طرح کوشاں ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ اس نے کامیابی حاصل کی‘

مجھے آپ کے الفاظ کی دانائی تک رسائی میں کافی وقت لگا اور میں نے محسوس کیا کہ آپ نہ صرف مجھ سے محبت کرتے تھے بلکہ مجھ پر فخر بھی کرتے تھے اور میری آزاد منش شخصیت کا احترام بھی کرتے تھے۔

جب میں دسویں جماعت میں تھا تو سکول میں صدارتی الیکشن میں حصہ لینا چاہتا تھا۔ میری مقبولیت کو دیکھ کر میرے دوست پر امید تھے کہ میں الیکشن جیت جاؤں گا۔ جب میں نے آپ سے اجازت مانگی اور کہا کہ میرے نامزدگی کے کاغذات پر دستخط کر دیں تو آپ نے انکار کر دیا تھا۔

مجھے اس بات سے بڑا دھچکا لگا اور میں نے پوچھا
’ابو جان! آپ نے دستخط کیوں نہیں کیے؟‘
آپ نے پوچھا ’کیا تم صدر بننا چاہتے ہو؟‘
میں نے ایمانداری سے جواب دیا ’جی ہاں بننا چاہتا ہوں‘
’تو پھر تمہیں نا اہل قرار دینا چاہیے‘
میں نے پریشان ہو کر پوچھا ’آخر کیوں؟‘

آپ نے فرمایا تھا ’کیونکہ تم طاقت چاہتے ہو اور جو شخص طاقت چاہتا ہے وہ اندر سے کمزور ہوتا ہے اور اس کا غلط استعمال کرتا ہے۔ طاقت آنے کے بعد بہت سے لوگ مغرور اور متکبر ہو جاتے ہیں‘

میں آپ کے استدلال سے متفق تو نہ تھا لیکن خاموش رہا۔ آپ نے فرمایا

’میرا یقین ہے کہ کسی بھی قوم میں لوگوں کو اپنا ایسا رہنما خود انتخاب کرنا چاہیے جو ان کی بہتر خدمت کر سکے اور اس شخص کو اپنی انکساری کی وجہ سے وہ پیشکش ٹھکرا دینی چاہیے۔ یہی جمہوریت کی روح ہے۔ ہمیں لوگوں کی خدمت کرنا سیکھنا چاہیے نہ کہ حکمرانی کرنا

we need to learn to serve not rule

جب ہم مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں کچھ شاندار مثالیں ملتی ہیں۔ جب عمر بن عبدالعزیز سے کہا گیا کہ وہ خلیفہ بن جائیں اور امام ابو حنیفہ سے کہا گیا کہ قاضی بن جائیں تو دونوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ جب عوام نے اصرار کیا تو انہوں نے وہ ذمہ داری قبول کی اور عوام کی خدمت کی۔

یوں آپ نے میرے الیکشن میں نامزدگی کے کاغذات پر دستخط نہ کیے اور میں الیکشن میں حصہ نہ لے سکا لیکن میں نے آپ کے استدلال کو دل سے قبول نہ کیا۔ میں نے سوچا کہ آپ بہت مثالیت پسند انسان تھے۔

اس واقعہ کے کئی سال بعد جب میں اسرائیل کے ”کبوتز“ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں وہی نظام قائم تھا جس کا آپ نے ذکر کیا تھا۔ لوگ اپنا رہنما چنتے تھے اور وہ رہنما معذرت کرتا تھا لیکن لوگوں کے اصرار پر ذمہ داری قبول کرتا تھا۔ اس دن مجھے آپ کی دانائی کا اندازہ ہوا اور مجھے ماننا پڑا کہ آپ کے فلسفے پر عمل ہو سکتا ہے اگر لوگ اسے دل سے قبول کر لیں۔

جب میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا تو اکثر رات کو دیر سے گھر آتا تھا۔ آپ سوئے ہوتے تھے جبکہ امی جان میری فکر میں جاگ رہی ہوتی تھیں۔ ایک دن امی جان نے آپ کو بھی جگائے رکھا تا کہ آپ مجھے نصیحت کریں۔ وہ چاہتی تھیں کہ آپ کچھ ڈانٹ ڈپٹ کریں۔ اس رات میں قدرے گھبرایا ہوا تھا لیکن میں جانتا تھا کہ آپ نرم خو اور شفیق باپ ہیں۔ آپ زندگی میں جو بھی کرتے تھے اس میں ایک فلسفیانہ رنگ ہوتا تھا۔ آپ مجھے ایک علیحدہ کمرے میں لے گئے۔ مجھے اپنے سامنے بٹھایا اور بڑے نرم لہجے میں کہا

’بیٹا کیا تم جانتے ہو کہ کون لوگ راتوں کو نہیں سوتے؟‘
’نہیں میں نہیں جانتا‘
’وہ یا تو پارسا ہوتے ہیں یا پاپی they are either saints or sinners
اتنا کہہ کر آپ سونے کے لیے چلے گئے۔

آپ میں مزاح کی حس بدرجہ اتم موجود تھی۔ آپ رات کے کھانے کے بعد مجھے ’میری بہن عنبر اور امی عائشہ کو لطائف اور کہانیاں سناتے تھے۔

جب میں نے شاعری شروع کی اور محفلوں میں اپنا کلام پڑھنا شروع کیا تو آپ نے مجھے ایک لوک کہانی سنائی جو مجھے آج تک یاد ہے۔ آپ نے فرمایا
’ایک گاؤں میں ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ اس کے تین بیٹے تھے۔ ایک روز وہ بیچ چوراہے بیٹھا رو رہا تھا۔ لوگوں نے پوچھا‘ کیوں رو رہے ہو؟ ’

’ اس نے کہا‘ میرا کوئی بیٹا نہیں بچا ’
سب سے بڑے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا؟
اس کی شادی ہو گئی وہ بیوی کا ہو گیا ہے
منجھلے بیٹے کا کیا ہوا؟
وہ شہر چلا گیا ہے
لیکن سب سے چھوٹا بیٹا نہ تو شہر گیا ہے اور نہ ہی اس نے شادی کی ہے
وہ شاعر ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ یہ کہہ کر وہ شخص پھر رونے لگا
یہ کہانی سنانے کے بعد آپ ہنسے تھے اور کہا تھا
میرا تو ایک ہی بیٹا ہے اور وہ بھی شاعر ہو گیا ہے
یہ سن کر میں بھی ہنس پڑا تھا۔

آپ کی وفات کے بعد جب میں کینیڈا سے لاہور گیا تو میری آپ کے بہت سے دوستوں اور شاگردوں سے ملاقات ہوئی جو آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ وہ سب جانتے تھے کہ آپ ایک انسان دوست انسان تھے جو خدمت خلق عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔

ابو جان!

اپنے فلسفیانہ اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے سے محبت اور پیار سے پیش آتے تھے۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود ہم ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ آپ نے نے مجھے مدلل بات کرنا اور دوسرے کی رائے کا احترام کرنا سکھایا اور یہ بھی سکھایا کہ دل جیتنا دلیل جیتنے سے زیادہ اہم ہے۔

winning hearts is more important than winning arguments

چند سال پیشتر جب میں لاہور گیا تھا اور آپ کی قبر پر حاضری دینے جا رہا تھا تو مجھے راستے میں ندا فاضلی یہ نظم یاد آئی تھی اور میں لوٹ آیا تھا۔ وہ نظم حاضر خدمت ہے

تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا تم مر نہیں سکتے
تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی وہ جھوٹا تھا
وہ جھوٹا تھا وہ تم کب تھے کوئی سوکھا ہوا پتہ ہوا سے گر کے ٹوٹا تھا
مری آنکھیں تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں سوچتا ہوں وہ وہی ہے
جو تمہاری نیک نامی اور بدنامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں
تمہیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی پہ پاتا ہوں
بدن میں جتنا بھی میرے لہو ہے وہ
تمہاری لغزشوں ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر تمہارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم ’مری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے وہ جھوٹا ہے
تمہاری قبر میں میں دفن ہوں تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا

آپ کا خوش قسمت بیٹا
خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments