صحرا کا رومانس (1)


نرم و دلگیر چاندنی رات اور تاروں کی دلفریب جھلملاہٹ میں، لق و دق صحرا کے بیچ آپ کسی ریت کے ٹیلے پر بیٹھے باد نسیم کی نرم تھپکیوں سے پیدا شدہ رومان پرور ماحول سے محظوظ ہو رہے ہوں، جس میں صرف صحرائی ہوا کی سر گو شیوں کے سو ا ہر جانب سکوت طاری ہو اور اچانک کہیں دورسے کسی دل جلے صحرائی باشندے کی بانسری کی مدھر کوک سنائی دے توآپ پرسحر طاری ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو آپ یہ سحر اپنے اوپر طاری ہونے دیں۔ یہ سحر دنیا اور مافیا سے بے نیاز کر کے آپ کو اپنے پاس لے آئے گا۔ میں اس تجربے سے گزر چکا ہوں۔

پاکستان کے جنوب مشرق میں صحرائے تھر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں انسان چند دن بسیرا کر لے تو وہ اپنے آپ کو کسی اور ہی دنیا میں محسوس کرتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو مادی ترقی، جدیدتمدن اور بے ہنگم زندگی کی ہوش ربا رفتار سے الگ تھلگ مگر فطرت سے بہت قریب ہے۔

2002 ء سے 2005 ء میں حیدرآباد سندھ میں تعیناتی کے دوران مجھے صحرائے تھر کے اندر رہنے اور اس کے کشادہ سینے پر سفر کرنے کا موقع ملا۔ میری ملازمت کی نوعیت ایسی تھی کہ مجھے اکثر چھور، بدین، مٹھی اور نگر پارکر جانا ہوتا تھا۔ اس وقت سے آج تک میرا اس ریتلی سر زمین کے ساتھ دوستی کا عجیب رشتہ ہے۔ گویا تھر کی سر زمین میری محبوبہ ہو۔ دو چار یا پانچ سال بعد میری محبوبہ مجھے اپنے ہاں بلا لیتی ہے۔ وہ مجھے ہر دفعہ نئے انداز سے گلے لگاتی ہے، اپنی سہانی صبح اور شام میرے ساتھ بتاتی ہے۔

کبھی کوئی شکائت یا گلہ شکوہ نہیں کرتی ہر دفعہ اپنی بپتا نئے انداز سے مجھے سناتی ہے۔ میں اس کی باتیں بہت سنجیدگی سے سنتاہوں ہر دفعہ اس کی بلکتی زندگی کے لیے کچھ کرنے کی تدابیر اور اردے لئے واپس لوٹتا ہوں۔ مگر واپس آکر اپنے کولہو کے بیل والی زندگی کے نہ ختم ہونے والے چکر کاٹنے کے لئے دوبارہ جت جاتا ہوں۔

پاکستان کے دیگر تین صحراؤں کے مقابلے میں تھر کی ریت کے سمندر بیچ مٹی کے ذخیرے بھی ملتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں ہریالی اور خود رو نخلستان بھی پائے جاتے ہیں۔ اس لئے تھر کو سبز صحرا کہنے والے کچھ غلط نہیں کہتے۔ دو تین سال بعد جب کبھی مینہ برستا ہے تو جنگلی نباتات اورپھل، پھول اور بوٹے اپنا حسن اور جوبن تھر کے باسیوں پر ضرور آشکار کرتے ہیں۔ میگھا چھانے پر اور اس کے بعد گھن گرج کے ساتھ پیاسی سر زمین پر جب مینہ برستا ہے تو تھر کے باسیوں کے پیلاہٹ زدہ اداس چہرے کھل اٹھتے ہیں۔ بارش برسنے پر صحرائے تھر میں باقاعدہ جشن منایا جاتا ہے۔ یہ حسن معاشی مشکلات کے باوجود صحرائے تھر کے باسیوں کا رشتہ اپنی سر زمین سے جوڑے رکھتا ہے۔ او ریہ لوگ اپنی جنم بھومی کو چھوڑنے پر کسی طور آمادہ نہیں ہوتے۔

تھر کا صحرا بھٹوں ( ریت کے لمبوترے ٹیلے ) اور ڈھاروں (بھٹوں کے بیچوں بیچ لمبوتری وادیوں ) پر مشتمل ہے۔ جو جنوب مغرب میں بحیرہ عرب کی جانب سے چلنے والی توانا ہواؤں کی شورش سے وجود میں آتے ہیں۔ باد صحرائی اس شورش میں نقش پا مٹا دیتی ہے، وہاں کے رہائشی بتاتے ہیں کہ صحرا میں سفر کرنے کے لیے آپ کے پاس کمپاس، نقشہ، خشک خوراک اور پانی کا ہونا ضروری ہے ان اشیا ء کے بغیر صحرا میں سفر کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

صحرائے تھر پاکستان کے جنوب مشرق میں صوبۂ سندھ کے سب سے بڑے ضلعے تھر پارکر میں واقع ہے جس کا رقبہ سات ہزار پانچ سو بیاسی مربع میل ہے جبکہ آبادی صرف اٹھارہ لاکھ ہے۔ ضلع تھر پارکر کے شمال اور مغرب میں عمر کوٹ، بدین اور میرپور خاص جبکہ مشرق میں ہندوستان کا صوبہ راجھستان ہے۔ تھر پارکر کی تحصیلیں جو مقامی زبان میں تعلقے کہلاتی ہیں، مٹھی، ڈپلو، ڈاہلی، کلوئی، چھاچھرو، اسلام کوٹ اور نگر پارکر ہیں۔

تاریخ دانوں کے مطابق ”تھر“ کا علاقہ آج سے چار ہزار سال قبل صحرا میں تبدیل ہوا تھا۔ آج جہاں تھر پارکر ہے یہاں سے دریائے سندھ کی ایک شاخ گز رکر بحیرہ عرب سے جا ملتی تھی۔ اس وقت تک یہ ایک زرخیز علاقہ تھا۔

اس علاقے میں بارش بہت کم ہوتی ہے۔ موسم گرما (اپریل، مئی اور جون) میں دن کو شدید گرمی پڑتی ہے جبکہ راتیں قدرے ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ موسم سرما (دسمبر، جنوری اور فروری) زندگی کو قدرے پر سکون بنا دیتا ہے۔ یہاں پر نیم، کیکر، شیشم، بوئی، تھور، بڑھ، لسوڑہ، املی، داھو، کنکیرہ، کیر، تلسی جیسی نباتات اور کنیر جیسے صحرائی پھول ملتے ہیں۔

تھر کی مقامی غذائی اجناس میں گوار (سبز پھلیاں ) ، سانگری اور کیر شامل ہیں۔

صحرائی حیات میں چنکارہ ہرن، مور، عقاب، تھر کی فاختہ، تیتر، ہندی رابن، صحرائی لومڑی، گیدڑ بچھو اور سانپ کے علاوہ کئی طرح کے جانور اور حشرات الارض پائے جاتے ہیں۔

لوگوں کا ذریعہ معاش، مویشی پالنا، کھیتی باڑی (جہاں جہاں سبز علاقہ ہے ) اور دستکاری ہے۔ گلہ بانی میں اکثریت بھیڑ کی ہے، جس کی اون بڑے پیمانے پر شہروں کو فروخت کی جاتی ہے۔ اس کے

علاوہ بکری، گائے، اونٹ، گھوڑے، خچر، گدھے اور بھینس اور مرغ بانی جیسے جانور یہاں پر ذریعہ آمدن کے ساتھ ساتھ ذرائع نقل و حمل اور خوراک کا ذریعہ بھی ہیں۔

البتہ تھر میں بارشوں کی کمی اور پانی کے ذخائر کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر چند برس بعد شدید قحط سالی آ جاتی ہے۔ جس سے سبزیاں اور فصلیں تلف اورجانور کثیر تعداد میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔

تھری لوگوں کی عمومی خوراک ؛ گوار کا سالن، سانگھری کا سالن، کیر کے پھل اور پھول کا اچار اور خاتیو ہے۔ جو سانگھری کا ایک منفرد اور پر ذائقہ کھانا ہے۔

لوگوں کی بود و باش سادہ اور پر وقار ہے۔ تھر کے باسیوں کا لباس صحرا کے موسموں کے مطابق سر سے پاؤں تک ڈھانپنے والا ہے۔ خواتین پورے بازو پر چوڑیاں پہنتی ہیں جو سفید بھی ہوتی ہیں اور رنگین بھی۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ تھری خواتین کا چوڑیاں پہننے کا طریقہ ان کی ازدواجی حیثیت ظاہر کرتا ہے۔ مقامی رسم و رواج کے مطابق؛ غیر شادی شدہ خواتین کلائی تک چوڑیاں پہنتی ہیں جو رنگین یا سفید ہوتی ہیں۔ شادی شدی خواتین پورے بازو پر چوڑیاں پہنتی ہیں جو عموماًسفید ہوتی ہیں۔ بیوہ ہندو ہو یا مسلمان چوڑیاں نہیں پہنتی۔ تھر کے باسیوں کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ”دھاتکی“ ہے۔ اس کے علاوہ کولی، گجراتی، جوگی، سندھی اور اردو بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔

تھر کے باشندے انسان دوست، شفیق اور مہمان نواز ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اجنبیوں سے جلدی دوستی نہیں کرتے۔ البتہ اگر کسی سے قلبی رشتہ جڑ جائے تو پھر عمر بھر نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اونٹوں کی کوہان پر بیٹھے تھر کے مسافر لمبے سفر پر لوک گیت گاتے اور بانسری بجاتے ہیں۔ ثقافتی تہواروں میں مختلف کھیل اور ڈھول کی تھاپ پر ناچتے ہیں اور بانسری، تبلہ اور بین شوق سے بجاتے ہیں۔ یہاں کے مشہور لوک فنکاروں میں تھر کی کوئیل، مائی باگھی (مرحومہ) مائی دھائی، بیجل خان اور صادق فقیر صحرائی گانوں اور صحرائی دھن پر اپنے لوک گیتوں کی وجہ سے مشہور ہیں :

مائی با گھی کے لوک گیت کا مکھڑا یہاں لکھنا بے محل نہ ہوگا:
”کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی
جا توڑا بٹاڑو ماناں چھنے مانے دیکھ لے ”

( میں نیم کے درخت کے نیچے اکیلی کھڑی ہوں۔ اے میرے محبوب، اے جانے والے مسافر، مجھے غور سے دیکھ لے تا کہ جب تو لوٹے تو مجھے اسی حالت میں پائے۔ )

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments