کیا چکن کھانے سے کرونا ہو سکتا ہے؟


خدا کا واسطہ ہے خبریں پھیلانے سے پہلے کچھ تو تحقیق کر لیا کریں۔ کرونا کے متعلق آپ کی پھیلائی غلط معلومات کی بدولت لوگوں نے اس کو سیریس نہیں لیا اور آج ہم کرونا کیسز میں چائنہ کو کراس کر چکے ہیں۔ بے شمار لوگوں کی گھروں میں اور بہت سوں کی ہسپتالوں میں وینٹیلیٹرز نہ ملنے سے اموات ہو رہی ہیں۔ مگر آپ کو صبر نہیں آ رہا اور ہر لغو، بے بنیاد پوسٹ کو شیئر پر شیئر کرتے جا رہے ہیں۔

نیا شگوفہ برائلر چکن میں کرونا اور ایپوکلیپٹک وائرس نکال دیا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کے یہ تمام خبریں کس حد تک درست ہیں۔ سب کے پاس اتنے مہنگے فون ہیں، تھوڑا سا تردد کر کے 1 منٹ کے لئے زیادہ نہیں صرف گوگل کر کے ہی دیکھ لیں کے کسی آفیشل میڈیا پیج سے بھی یہ خبر بریک ہوئی ہے۔ ایپوکلیپٹک وائرس ڈاکٹر گریگر کی اپنے اختراع ہے۔ ڈاکٹر صاحب پیدائشی سبزی خور ہیں اور کسی بھی قسم کا گوشت کھانے کے خلاف ہیں۔

ان کو آج تک سیریس نہیں لیا گیا نا ہی کوئی ایسی تحقیق سامنے آئی ہے جس سے ثابت ہو کے گوشت کھانے سے حلال جانوروں کی تمام بیماریاں جانوروں سے انسان میں پھیلتی ہیں۔ کسی سر پھرے کے دماغ میں آیا ہو گا کہ چکن کی قیمت آج کل زیادہ ہے، لوگوں کو ڈرایا جائے تاکہ وہ چکن نا کھائیں اور قیمت نیچے آ جائے۔ اس لئے کسی پرانی خبر کو سنسنی خیز بنا کر سوشل میڈیا پر چلا دیا بغیر سوچے سمجھے کہ اس کہ کیا نتائج نکلیں گے۔ لوگ پہلے ہی کرونا کی وجہ سے پریشان ہیں یہ نیا دھچکا دے کر آخر کون سا ایجنڈا فالو کیا جا رہا ہے؟

چکن کی قیمت کا تعین کرنے کے بے شمار عوامل ہوتے ہیں۔ عید سے پہلے لاک ڈاؤن کی وجہ سے شادی ہال اور ریسٹورنٹ بند تھے جس کی وجہ سے فارمرز نے مال کم ڈالا۔ شروع میں بہت لوگ کرونا کے خوف سے بھی چکن نہیں لے رہے تھے مبادا شاپر پکڑنے سے ہی نا ہو جائے۔ مگر جیسے ہی لاک ڈاؤن کھلا ڈیمانڈ زیادہ ہو گئی اور سپلائی اتنی تھی نہیں کہ پوری ہو سکے اس لئے کچھ دن کے لئے قیمت زیادہ ہو گئی۔ نیا مال آنے میں 3 سے 4 ہفتے لگتے ہیں جیسے ہی وہ مال مارکیٹ میں آئے گا قیمتیں معمول پر آ جائیں گی۔ اس میں کسی طرح سے نا حکومت کا قصور ہے نا ریٹیلر کا۔ یہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی کا آسان اصول ہے۔

ذرا سوچئے آپ کی کم علمی اور بے احتیاط پوسٹوں کی بدولت کتنے لوگ چکن کھانا چھوڑ دیں گے اور اس سے اس انڈسٹری سے جڑے لاکھوں افراد کے خاندانوں پر کیا گزرے گی۔ ریسٹورنٹ انڈسٹری کا کیا ہو گا جس سے لاکھوں لوگ جڑے ہیں۔ ایک بات یاد رکھئے، کرونا 56 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت برداشت نہیں کر سکتا، اگر چکن میں کسی قسم کا بھی وائرس ہے تو جتنا ہم کھانے کو بھون کر پکاتے ہیں کسی قسم کا بھی وائرس اور بیکٹیریا سروائیو نہیں کر سکتا۔

اچھے اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیجئے اور بلا تحقیق خبروں کو آگے فارورڈ مت کیجئے۔ آپ نہیں جانتے معصوم لوگ اس کو سیریس لے کر کیا نقصان کر بیٹھیں۔ اس کار خیر میں پڑھے لکھے اور جاہل کی کوئی تخصیص نہیں۔ بہت بڑے بڑے نام نہاد دانشور بھی شیئر کرتے وقت وہی کام کرتے ہیں جو ایک عام آدمی کرتا ہے۔ اپنی خواہش کو خواہش رہنے دیں خبر مت بنائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments