قوم پرست جماعتیں، قومی سلامتی اور معصوم شاہ کا مینار


میاں رضا ربانی کی تجویز کے مطابق اس ملک میں بین الادارتی سول، ملٹری بیوروکریسی اور جوڈیشری کے درمیان ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے مگر اندرون خانہ صرف حال احوال پوچھ کر، کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کے تحت صرف وقت گزارا جاتا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اکثر و بیشتر خفیہ ملاقاتوں اور ٹیلی فون سے ہی کام چلاتی رہی ہیں مگر چھ مرتبہ منتخب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی میاں ریاض حسین پیرزادہ کو جو منھ میں تھا مثلاً چولستان کی زمینوں پر قبضوں کا ذکر زبان پر لاتے لاتے بہت دیر ہو گئی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے اسمبلی فلور پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے کچھ گلے شکوے کر کے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان یہ کہہ کر، کر دیا کہ حکومت سے جن چھ نکات کی بنیاد پر ان کا اتحاد ہوا تھا ان چھ نکات پر عمل کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں۔ فی الحال تو ان کو منانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے مگر سوال یہ بنتا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل کس کے پاس ہے اور کیا ناراض بلوچوں اور ریاست کے مابین ڈائیلاگ ممکن ہے؟

کیا سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی ڈائیلاگ کرنے کی تجویز غیر مناسب تھی جسے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ یہ میاں رضا ربانی کی ذاتی تجویز ہے۔ ملک میں ایک طرف تو کورونا وائرس کی وبائی صورتحال، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف قومی سلامتی، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، مذہبی انتہاپسندی جیسے حالات دیکھنے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کچھ نا معلوم افراد قوم پرست رہنما مرحوم عبد الواحد آریسر کی قبر پر چاکنگ کر گئے تو کچھ خیر پور یونیورسٹی کے شعبہ سندھی کے پروفیسر ساجد سومرو اور سندھ یونیورسٹی جامشورو کی کمیسٹری کی پروفیسر عرفانہ ملاح سمیت کئی لوگوں پر توہین مذہب کے الزامات لگا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سندھ میں حالیہ سکیورٹی فورسز پر حملوں کو بھی صوبہ سندھ کے امن و امان کی صورتحال پر ایک سوچی سمجھی سازش سمجھا جا رہا ہے کہ اس طرح کے حملوں سے صوبے بھر میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوگی اور لسانیت سمیت دیگر کئی مسائل میں بھی اضافہ ہوگا جس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔

ہم اپنے سیکیورٹی اداروں کو کئی ناموں سے پکارتے نظر آتے ہیں کوئی انہیں حساس تو کوئی ان کو فرشتہ تو کوئی محکمہ زراعت کا عملدار کہہ کر پکارتا ہے۔ یقیناً پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی قومی سلامتی کے مسائل ضرور ہوں گے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی اپنی صلاحیت، تجربے اور ٹریننگ کے بنیاد پر ان سے نمٹتے ہوں گے ۔ بلوچستان اور سندھ میں لاپتہ افراد کی گمشدگی کے مسائل میں بتدریج اضافہ نظر آ رہا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اس مسئلے کو وقتاً فوقتاً اٹھاتی نظر آ رہی ہیں مگر اس کے باوجود بھی اس مسئلے کا کوئی خاطر خواہ حل نہیں نکل پا رہا اور جب ان لاپتہ افراد کی مائیں بہنیں ہاتھوں میں ان کی تصاویر اٹھائے سڑکوں پر خوار ہوتی نظر آتی ہیں تو لوگوں کی ہمدردیاں ان کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ہمارے آرمی چیف خود بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو سب سے زیادہ خطرہ داعش جیسی دہشتگرد تنظیموں سے ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کو شکار بنا سکتے ہیں۔ جس کی ماضی قریب کی مثال لیاقت میڈیکل سائنس کی طالبہ نورین جبار لغاری کی ہے جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے گھر چھوڑ کر داعش میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ بھارتی اور افغان انٹیلی جنس اداروں سمیت غیر ریاستی اداکاروں کا کردار اور پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کے تانے بانے ہمیشہ بھارت اور افغانستان سے ہی جڑتے پائے گئے ہیں جس کی مثال بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو اور افغانی جاسوس نور آغا ہیں۔

حالیہ چین اور بھارت کی لداخ میں کشیدگی، افغانستان امن معاہدہ، امریکی افواج کا انخلا اور پاکستان کا کردار، پر بھی پاکستان کو بہت سے چیلنجز سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ اس لیے یہ وقت کے ضرروت ہے کہ ریاستی ادارے صوبہ سندھ میں جئے سندھ جیسی قوم پرست جماعتوں اور بلوچستان میں بلوچ قوم پرست تنظیموں اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی ایم جیسی تنظیموں سے ڈائیلاگ کر کے معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرے۔ جب امن کے قیام کے لیے پاکستان اور افغان طالبان سے بات چیت ہو سکتی ہے تو ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل بھی دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے بجائے صرف اور صرف بات چیت سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

ایران، امریکہ۔ جنوبی کوریا، امریکہ۔ چین، امریکہ۔ روس، امریکہ ازلی دشمنی کے باوجود اگر آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں تو ہم اپنے ملک کے لوگوں سے کیوں نہیں؟ اگر واقعی ہم بلوچستان میں امن و امان کا قیام اور سی پیک کو کام کرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر بلوچوں کی احساس محرومی کو ختم کر کے ان سے ڈائیلاگ کرنا پڑے گا اور سندھی اور پختون قوم پرست قوتوں سے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہو گا اور اگر ہنگامی بنیادوں پر ہم نے ڈائیلاگ شروع نہیں کیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب ہمارے مستقبل کے معمار بھی عطا محمد بھمبرو سے متاثر ہوتے نظر آئیں گے۔

ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد لڑ کر آزادی حاصل کرنے کا دور اب گزر چکا ہے۔ سائیں جی ایم سید جب سندھو دیش کے نعرے لگایا کرتے تھے، باچا خان نے غلام ملک میں دفن ہونے کے بجائے افغانستان کو فوقیت دی تھی اب وہ کابل میں دفن ہیں۔ بزنجو، مری، بگٹی اور کئی دوسرے نذیر عباسی جیسے سر پھرے انقلابی کامریڈ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ عرب اسپرنگ، عراق اور یمن کی خوفناک صورتحال ہمارے سامنے ہے اور پاکستان کے حالات بھی اب تبدیل ہو چکے ہیں اب سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل اب سوشل میڈیا پر زیادہ پائی جاتی ہے کبھی وہ پیپلز پارٹی کے سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کو، ووٹ کو گالی دینے پر چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتی ہے تو کبھی وہ تحریک انصاف کی ٹائیگرس کی پولیس والوں کے ساتھ بد تہذیبی کو برداشت نہیں کرتی تو کبھی کرنل کی بیوی کو کھری کھری سنائی جاتی ہیں تو کبھی میاں نواز شریف کی چہل قدمی ان کے گلے پڑ جاتی ہے تو کبھی ملک کے حکمرانوں سے مایوسی کا اظہار ممیز کے ذریعے کرتی نظر آتی ہے۔

حکومت اٹھارہویں آئینی ترمیم، این ایف سی ایوارڈ کو ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہی ہے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ابھی بھی ہماری سوچ صوبوں کی خود مختاری کے خلاف ہو گی تو پھر وہ وقت دور نہیں جب ہم لوگوں کی احساس محرومی ختم کرنے اور قوم پرست جماعتوں کو قومی دھارے میں لانے کے بجائے انہیں معصوم شاہ کے مینار پر چڑھاتے نظر آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments