حسن بن الصباح سے الطاف حسین تک


یہ سنہ 1094 ء کی بات ہے۔ مصر کے حکمرانوں میں حکومت پر تلواریں نکلیں۔ الافضل شہنشاہ نامی وزیر نے اپنے پسندیدہ شہزادے مستعالی کو خلیفہ بنایا اور حقیقی ولی عہد، نزار بھاگ کر سکندریہ چلا گیا جہاں اس نے اپنی حکومت قائم کرلی۔ دونوں بھائیوں میں جنگ ہوئی اور مستعالی نے نزار کو شکست فاش دے کر اس کی سرعام گردن کٹوا دی۔ مگر بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔ نزار کا حسن بن الصباح نام کا ایک چاہنے والا لڑاکا اس کے بیٹے الہادی کو لے کر ایران آ گیا۔

یہ شخص حسن بن الصباح جدید دہشت گردی کا بانی ہے اور دنیا کی تمام گوریلا تحریکیں بڑی حد تک اسی کے بنائے ہوئے ماڈل پر چلتی ہیں۔ حسن ابن الصباح نے اپنے چھوٹے سے گروہ کی مدد سے موجودہ ایران کے شمال مغرب میں واقع الموت کے قلعے پر قبضہ کیا۔ اور یہاں الہادی کو رکھا۔ یہ قلعہ اتنی عجیب جگہ پر واقع تھا کہ اس کو فتح کرنا بھی ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ یہاں سے حسن ابن الصباح نے الہادی کو امام ماننے والوں کی تربیت شروع کی۔ ان ماہر قاتلوں کو ایسے حملے کرنے کی تربیت دی جاتی تھی کہ جن میں ان کی جان لازمی جاتی۔ حسن ابن الصباح نے ان حملوں کو ’فدائی‘ حملے کا نام دیا اور ان قاتلوں کے منظم گروہ کو ’فدائین‘ کہا۔

ان فدائین کو مسلسل حشیش کا نشہ کرایا جاتا اور ایک رات ان کو قلعے میں موجود ایک خاص باغ لے جایا جاتا جہاں وہ حسین کنیزوں سے ہم بستری کرتے۔ صبح جب وہ جاگتے تو ان کو بتایا جاتا کہ رات کو امام نے ان کو جنت بھیجا تھا اور اب جب وہ امام کے حکم پر فلاں کو قتل کریں گے تو اسی جنت میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ حشیش کے نشے میں جنت کی سیر کرنے والے یہ فدائین بڑی آسانی سے اپنے امام کے حکم کی تعمیل اور جنت کے حصول کے لئے کسی کے بھی قتل پر آمادہ ہوجاتے۔ یہ لوگ تاریخ میں حشاشین کہلائے اور انگریزی لفظ Assassin اسی لفظ سے برامد ہوا۔

ایک جانب یہ فدائین تو اپنے امام کی محبت اور حشیش کے نشے میں کچھ بھی کرنے پر آمادہ ہوتے مگر ان کا امام اور اس کے پیچھے اصل قوت حسن بن الصباح کسی نشے میں نہ تھے۔ وہ بڑے بڑے حکمرانوں کو خراج کے خطوط مع خنجر کے بھیجا کرتے۔ بڑے بڑے بادشاہ، وزیر، رئیس نواب اگر ان کو خراج دینے سے انکار کرتے یا ان کی چھوٹی سی حکومت کو حقارت سے دیکھ کر کچلنے کا ارادہ کرتے تو فوراً فدائین کو قتل کے مشن پر روانہ کر دیا جاتا۔ یوں اس چھوٹی سی قوت کا خوف دور دور تک پھیل جاتا۔

حشاشین کے ہاتھوں مرنے والے معروف مقتولین میں خطے کے بڑے بڑے بادشاہ اور وزیر شامل ہیں۔ ان معروف لوگوں کی تعداد کم و بیش ساٹھ ہے جن میں یروشلم کا عیسائی بادشاہ لارڈ ایڈورڈ اور کمزور عباسی خلیفہ الراشد بھی شامل ہیں۔ یوں الموت کا قلعہ عملاً تب کی دنیا کے لئے موت بن گیا تھا۔ اس چھوٹے سے گروہ نے اپنی سخت تربیت سے بڑی بڑی حکومتوں کو خوفزدہ رکھا اور خراج لے کر اپنی قوت بڑھاتے رہے۔ جو فدائین بھی کسی بادشاہ کے محل میں بھیس بدل کے گھستے اور اسے قتل کرتے ان کی اپنی موت اس عمل کے بعد لازمی ہوتی۔ ایسے فدائین کے نام الموت کے قلعے میں بڑی عقیدت سے لکھے جاتے اور یوں باقی فدائین کو بھی بڑا جذبہ ملتا۔

166 سال تک حشاشین الموت کے قلعے سے بربریت کا کاروبار چلاتے رہے۔ الہادی تو حسن بن الصباح کی کٹھ پتلی تھا لیکن بعد میں اس کی نسل کے لوگ ہی اس Cult کے سربراہ بنتے چلے گئے۔ یہ گروہ اپنی نہاد میں ایک بہت زبردست کیس اسٹڈی کا درجہ رکھتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بند قسم کے گروہ کیسے لمبے عرصے تک اپنے عجیب و غریب عقائد و نظریات کے ساتھ جی لیتے ہیں اور کسی کونے کنارے میں بیٹھ کر دہشت گرد تنظیم کیسے چلائی جاتی ہے۔ کیسے بھتے اور خراج کے لئے خوف کو ہتھیار بنا کر اپنے سے بہت بڑی قوتوں کو بھتہ دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ قلعہ شاید صدیوں تک قائم رہ جاتا اگر چنگیزی اس کو بالآخر تاراج نہ کردیتے۔

اسی نوع کی گروہی ساخت کی ایک اور حالیہ تاریخ کی مثال سری لنکا کی تحریک ’لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام‘ بھی ہے۔ عرف عام میں اس تحریک کو تامل ٹائیگرز بھی کہاجاتا ہے۔ اس تحریک کی ابتدا بھی سری لنکا کی برطانیہ سے آزادی کے بعد وہاں کے سنہالی عوام کو نوازنے کے لئے بنائی گئی پالیسیز تھیں۔ تامل قوم کو، جو کہ برطانوی عہد میں ترقی کے زینے پر آگے تھی اب ملک میں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا تھا۔ اسی جذبے سے ولوپلائی پربھاکرن جیسے نوجوان ملک کے باغی بن گئے۔

ابتدا میں سیاسی رہنے والی تحریک بعد میں ایک بھیانک دہشت گرد تنظیم بنی۔ دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ خودکش بم دھماکے اسی تحریک نے کیے ۔ تاملوں کے ہاتھوں خودکش حملوں میں مرنے والے طاقتور افراد بھی ایک دو نہیں سیکڑوں ہیں۔ سب سے اہم سری لنکا کے وزیر اعظم راناسنگھے پرمادیسا اور ہندوستان کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی ہیں۔ ایک زمانے میں ان کی حکومت عملاً سری لنکا کے شمال میں قائم ہوگئی۔ جب پربھاکرن اپنے عروج پر تھا تب اس کا علاقہ عملاً الموت کے قلعے کی طرح تھا۔ وہاں وہ پوری حکومت قائم کیے بیٹھا تھا جہاں اپنی فوج کے علاوہ، اپنی پولیس، اپنا بینک، اسکول، کالج سب کچھ تھا۔ مگر سری لنکن فوج کے آخری ہلے نے اس قلعے کو ڈھا دیا۔ مجھے آج سے پانچ سال قبل سری لنکا جانے کا موقع ملا تو وہ ملک اس وقت تک تیس سال تک چلی بھیانک جنگ کے نفسیاتی اثرات کا شکار معلوم ہوا۔ پربھاکرن تو 2009 ء میں اپنی تحریک کے ساتھ مرچکا لیکن آج بھی اس کا خوف اس فضا میں کہیں کہیں گھلا ملتا ہے۔

ویسے تو اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں مگر ہمارے وطن میں ایسی ایک مثال الطاف حسین کی ایم کیو ایم ہے۔ ایک جماعت جو کہ کوٹہ سسٹم اور مہاجروں کی حق تلفی کے نعرے پر قائم ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ ایک بند cult بن گئی۔ اس گروہ میں بھی الطاف حسین کی حیثیت کم و بیش ’امام‘ کی ہی تھی۔ الطاف حسین کے ساتھ خالص مذہبی عقیدت کا اظہار عام ہوا اور یہ گروہ شخصیت کی پرستش کا ادارہ بن گیا۔ اس جماعت نے کراچی میں بھتہ خوری کو ایک سائنس بنایا۔ بعد میں ان سے یہ سائنس عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز امن کمیٹی نے بھی سیکھی۔ یہی سائنس ایم کیوایم سے نکلنے والے گروہوں، ایم کیوایم حقیقی اور سنی تحریک نے بھی استعمال کی۔ ایم کیوایم نے کراچی پر جس طرح قبضہ جمایا اور جیسے خوف کو استعمال کیا وہ بالکل حسن بن الصباح کے گروہ سے مشابہہ ہے۔ بڑے بڑے صحافی اور میڈیا چینل الطاف حسین کے خلاف ایک لفظ بھی لکھنے اور بولنے سے ڈرتے تھے کہ ان کی بوری تیار نہ ہو جائے۔

سیاست پر بننے والے مزاحیہ پروگرام الطاف حسین کی تمثیل سے بھی دور رہتے ایسا بہت بعد میں اور بہت ڈرتے ہوئے ہوا۔ لفظ ’نامعلوم افراد‘ کراچی کے ہر معاملے میں اتنا استعمال ہوا کہ ایک مذاق بن گیا۔ سب کو معلوم ہوتا تھا کہ نامعلوم افراد کون ہیں۔ مگر خوف نے لوگوں کو معلوم کو نامعلوم قرار دینے پر مجبور کر دیا۔ اس گروہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے پاس ایک ایسا وفادار طبقہ موجود تھا جو کہ اس میں آہنی ڈھانچے کا کردار ادا کرتا تھا۔

الطاف حسین بعد میں اپنے گروہ کو ٹیلیفون سے دہائیوں تک چلاتا رہا۔ ایم کیو ایم ہر قسم کے دباؤ سے اپنے خاص انتظامی ڈھانچے کی مدد سے نکل آتی۔ آخر میں ایک بہت بڑے حملے نے الطاف حسین کے فون کا تار کاٹ دیا۔ آج ایم کیو ایم کی حالت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا ہم اسی جماعت کے خوف میں پل بڑھ کر جوان ہوئے تھے؟ ہم نے اسی کے خوف میں اپنی اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی تھی۔

جنون پر قائم یہ تحاریک اپنی خون آشامی میں نامور ہوئیں اور ان سے ایک زمانہ ڈرتا رہا لیکن عمومی انسانی تاریخ میں ان کی تعریف کرنے والے کم ہی ملتے ہیں اور یہ تحاریک انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خوف سے قلعے قائم کیے جا سکتے ہیں مگر ایک طویل المیعاد انسانی ورثہ نہیں قائم ہو سکتا ۔ Cult منظم ہوتے ہیں مگر انتظام غیر انسانی ہوتا ہے۔ ایسا انتظام بہت دیر تک نہیں چلتا، بہت دور تک نہیں چل سکتا، چاہے کوئی حسن بن الصباح ہو، الطاف حسین ہو یا ویلو پلائی پربھاکرن انجام میں Cult اپنی دہشت کی قوت کھو دیتا ہے۔ یہی تاریخ کا بار بار دہرایا ہوا سبق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments