ارد شیر کاﺅس جی: شراب پئے اور چاکلیٹ کھائے بغیر دوستی


ارد شیر کاﺅس جی حسب وعدہ ہمیں رات اپنی مرسڈیز اسپورٹس میں لینے پہنچ گئے۔ پھولدار شرٹ اور خاکی ٹراﺅزر۔ ہم نے کار میں بیٹھ کر انہیں تنگ کرنے کے لیے جب گجراتی میں یہ کہا کہ Wire-Tapping نوں تو پروگرام نتھی؟ (خفیہ ریکارڈنگ کا تو کوئی پروگرام نہیں) تو تاﺅ کھا گئے۔ کار سائیڈ پر روک کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قمیص کے بٹن کھول کر دکھایا۔ ہم نے کہا ”دوسروں کو تو مٹی میں ملانے میں ایک منٹ نہیں لگاتے۔ تم سے کوئی مذاق کرے تو اتنا برا مناتے ہو۔ نہیں جاتا میں تمہارے کھانے پر۔ روکو گاڑی“۔ ہمارے یوں روٹھ جانے پر کہنے لگے ”تم نے یہ کیا تو میں باپ کو کیا جواب دوں گا۔ دعوت کی ضد اسی نے کی تھی۔ اس کی اور تمہارے سب سے چھوٹے نانا محمد پٹیل کی پالی ہلز۔ ممبئی کی ایک مراٹھی چھوکری کے پیچھے بہت لڑائی ہوئی تھی۔ بعد میں دونوں پکے دوست بن گئے تھے۔

گھر پہنچے تو والد بزرگوار رستم فقیر کاﺅس جی وہاں موجود نہ تھے۔ ساتھ والے کمرے میں البتہ عبدالکریم لودھی اور احمد مقصود حمیدی (انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا، زبیدہ آپا اور زہرہ نگاہ کے بھائی) دونوں پرانے بیوروکریٹس موجود تھے۔ کاﺅس جی تین پرانے سی ایس پی افسران کے دوست اور میزبان تھے۔ عبدالکریم لودھی کو وہ قابل مگر جلد بھڑک جانے والے مزاج کا، احمد مقصود حمیدی کو قابل مگر سرکاری ملازمت میں Misfit اور کنور ادریس کو قابل مگر مصلحت پسند افسر سمجھتے تھے۔

 ہم نے کہا ہم چلے جاتے ہیں، پھر کبھی آ جائیں گے۔ کہنے لگے میرا باپ تیرا رستم کاکا (چچا) میرے کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ آج تو نے میرے کو برباد کرنے کا فل پلان بنایا ہے۔ یہ سالے(سالا ان کا تکیہ کلام تھا جس کا لوگ بہت برا مناتے تھے۔ انہیں گجراتی حس مزاح سے کوئی واسطہ نہ پڑا تھا۔ پارسی اس کی بدترین شکل تھے۔ چھوٹی سی کمیونٹی ہونے کی وجہ سے انہوں نے تکلفات کو ایک طرف رکھ چھوڑا تھا۔ کیا عورتیں، کیا مرد بے حد بے تکلفی سے بات کرتے تھے۔ جسے عام تخاطب میں گالم گلوچ سمجھا جائے وہ ان کے ہاں روز مرہ کا محاورہ تھا۔ اس عادت کی وجہ سے کاﺅس جی صاحب کو کئی دفعہ بہت بدمزگی کا سامنا بھی کرنا پڑا) ایک دو شاٹ لگائیں گے۔ گھر بھے گی (راہ لینا) ہو جائیں۔ تب تک You talk to a darling girl

تھوڑی دیر میں چشمہ لگائے، ٹرے میں اورنج جوس کے دو گلاس سجائے، کریپ سلک کی نیلی ساڑھی پارسی انداز میں لپیٹے نینسی آگئیں۔ وہ ارد شیر کی بیگم تھیں اور کراچی کی مشہور ڈنشا فیملی سے ان کا تعلق تھا۔ ہوٹل میٹروپول انہیں کا تھا۔ اس ہوٹل کے لگژری سوئیٹ میں بھٹو صاحب نصرت بھٹو سے شادی کے بعد ایک سال مفت مہمان رہے تھے۔ شادی کی یہ خبر کچھ دنوں تک خاندان سے اور پہلی بیگم سے خفیہ رکھی گئی تھی۔ یہ بات ہمیں کاﺅس جی نے خود بتائی تھی۔ جس کی کئی دفعہ تصدیق بھٹو صاحب کے ہندو دوست پی کے شاہانی نے بھی کئی نجی محافل میں کی۔

کراچی میں بیگم صاحبہ کے ڈنشا خاندان کا شمار مالدار ترین افراد میں ہوتا تھا ہے۔ ہوٹل میٹروپول تک کراچی میں مقامی باشندوں کو آمد کی اجازت تھی۔ سن ستر کے وسط تک میٹروپول کے اس کونے پر جو گرینڈ ہوٹل اور چوراہے کے سامنے ہے وہاں مقامی باشندوں کے لیے دیوار پر آﺅٹ آف باﺅنڈ کا بورڈ لگا رہتا تھا۔ انگریز کو بد صورت بیریر لگانے کی ضرورت نہ تھی سیاہ بورڈ پر سرخ ضرب کا نشان اور اسٹینسل سے چھاپے ہوئے سفید حروف مقامی آبادی کا پتہ پانی کرنے کے لیے کافی تھا۔  اس سے آگے گوروں کی بستیاں تھیں۔ شہر میں جابجا مجسمے دکھائی دیتے تھے۔

 عبداللہ کچھی جس نے انگریز کے زمانے سے محکمہ مال کی نوکری کی تھی۔ ہمیں زبانی گزٹ کے طور پر سناتا تھا کہ ڈنشا اور ہارون فیملی کے لئے بے تحاشا ملکیت کی وجہ سے مزید جائیداد خریدنے پر پابندی تھی۔

اس کا بیان تھا کہ وائسرائے کی بیگم لیڈی ڈفرن کو خواتین کا ایک ہسپتال کراچی میں بنانا تھا۔ وائسرائے کی جانب سے قائم شدہ فنڈ میں پانچ ہزار رکھے گئے اور سندھ کے جملہ رﺅسا نے کل دس ہزار روپے کے عطیات دیے۔ ہسپتال کی تعمیر (جہاں بے نظیر صاحبہ کی وزارت عظمی سے چند ماہ قبل بلاول پیدا ہوئے) کے لیے فنڈز کی باقی فراہمی جو پچاس ہزار روپے کے لگ بھگ تھی وہ اسی ڈنشا فیملی نے دان کیے۔ لڑکیوں کے لیے کراچی میں پہلا اسکول ماما پارسی گرلز اسکول بھی اس خاندان نے ہی تعمیر کیا تھا۔ Nadirshaw Edulji Dinshaw. یعنی این ای ڈی انجنیرینگ انسٹیٹوٹ جو اب جامعہ کا روپ بدل چکا ہے وہ بھی اسی خاندان کے نام پر ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم گلاس منھ سے لگاتے انہوں نے ہم سے پوچھ لیا

You don’t mind screw driver?

(ووڈکا اور اورنج جوس کی کاک ٹیل سے ہم نے انکار کیا تو وہ ناخوشی سے ہمارے بیورو کریسی سے تعلق پر تف بھیجنے لگیں۔ ہم آدھا گھنٹہ ہندوستانی میوزک اور کراچی کے حالات پر بات کرتے رہے انہیں بھی ہماری طرح فلمی موسیقاروں میں نوشاد سے زیادہ مدن موہن اور لکشمی کانت پیارے لال پسند تھے۔ ہم نے کہا نوشاد کے ہاں ایک اداسی ہے۔ یہ اداسی مدن موہن کے ہاں تڑپ۔ Yearning، شائستگی اور میلوڈی بن کر بہت اچھی لگتی ہے۔ وہ سب سے مل چکی تھیں۔ دوران گفتگو ایک دفعہ بہت آہستگی سے کاﺅس جی جھانک کر بھی گئے لیکن بولا کچھ بھی نہیں۔ وہ ہمارے سینئر افسر چلے گئے تو انہوں نے ہم دونوں کو بدستور گفتگو میں منہمک پا کر آہستہ سے کہا کہ

Before you two decide to elope, have dinner at my place.

اگر تم دونوں نے بھاگنے کا ارادہ کر لیا ہے تو کم از کم میرے گھر کھانا ہی کھا لو۔ یہ کاﺅس جی کے مذاق کا عام معیار تھا۔

رستم کاﺅس جی نے ہم سے اپنے نانا اور ان کے بھائیوں کے بارے میں بہت سوال کیے، دو کی موت تو ہماری پیدائش سے پہلے ہو چکی تھی۔ امیر جی پٹیل بھی بعد میں اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ وہ ان سے واقف نہ تھے۔

کھانا ختم ہوا تو والدہ اٹھیں اور سونے کی پلیٹ میں قیمتی چاکلیٹ اپنی الماری سے نکال کر لائیں۔ ہم نے کہا کہ ہم چاکلیٹ نہیں کھاتے تو وہ یہ سوچے بغیر کہ ہم مہمان ہیں، کاﺅس جی سے کہنے لگیں ”تو کئیا گدھیڑا گھر بولاوی لئی چھے۔ چاکلیٹ نتھی کھاتو اے کوئی مانس چھے (تم کن گدھوں کو گھر پر بلا لیتے ہو۔ جو چاکلیٹ نہ کھائے وہ بھی کوئی انسان ہے)۔ دہلی والوں کی طرح گھر کے بزرگ کا خود اپنے ہاتھ سے آپ کو میٹھا پیش کرنا۔ گجراتیوں میں بھی مہمان کی تواضع اور تکریم کا بہت اونچا درجہ سمجھا جاتا ہے۔

دہلی کے بزرگ تو کھیر، فیرنی یا اس قسم کا چمچہ خود آپ کے منھ میں ڈالتے ہیں۔ گھر کی دو عورتوں سے ایک دعوت میں ان کے معیار میزبانی سے گرنے کا شرف ہمیں دو بار حاصل ہوا۔ بیگم سے شراب سے انکار اور والدہ سے چاکلیٹ کے انکار پر۔ چلتے وقت فقیر جی نے کاﺅس جی سے کہا کہ پرانے لوگ ہیں، ان کا جب بھی موقع ہو، خیال رکھنا۔

راستے میں ہم نے ان سے پوچھا کہ سن 1976 میں بھٹو صاحب نے انہیں 72 دن کے لیے جیل کیوں بھیجا تھا۔ اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے جوانی میں سالا کوئی صدر کی کوئی گوانی زچھوکری کے پیچھے ناراض ہوگیا ہوگا۔ دل میں خنس رکھ کر بیٹھا ہوئے گا۔ کاﺅس جی کی الہی بخش سومرو سے بہت دوستی تھی۔ سندھ کے کھوڑوں، سومروں اور پیر سائیں پگارا کی بھٹو خاندان سے پرانی مخاصمت تھی۔ یہ سب ان سے پرانے اور معتبر خاندان تھے۔ سابق بیورکریٹ اور جنرل رانی کے عزیز، الطاف گوہر کو بھی ڈان میں ایڈیٹر لگانے کا ذمہ دار وزیر اعظم بھٹو کاﺅس جی کو سمجھتے تھے۔ ڈان گروپ کا ہارون خاندان اور الطاف گوہر چونکہ امریکہ کی طرف ایک واضح جھکاﺅ رکھتے اور بھٹو مخالفت میں پیش پیش تھے، لہذا ممکن ہے یہ بھی ایک سبب ہو۔

ہم نے علاقے کی آخری تین رجسٹریوں کو سامنے رکھ کر اوسط سے فی گز پانچ سو روپے کم کا ایوارڈ آف کمپینسیشن جاری کیا تو وہ ادارہ، سرکار بذریعہ ڈپٹی کمشنر اور کاﺅس جی سبھی ہمارے خلاف عدالت چلے گئے۔ شاہد حامد (کے الیکٹرک کے ایم ڈی جنہیں قتل کردیا گیا) ہمارے ڈی سی اور کر م فرما تھے۔ بہت لحاظ کرتے تھے بلا کے ذہین اور دور رس انسان تھے۔ کہنے لگے کہ’ ان کا ہمارے خلاف اپیل میں جانا ادارے کو کنفیوز کردے گا۔ ڈی سی نے یہ اعتراض کیا کہ سوا کروڑ کا خطیر ایوارڈ دیتے ہوئے ہم نے ان سے پوچھا تک نہیں۔ یہ ذہانت کی بات تھی، بیورو کریسی کو ایسے بہت گر آتے ہیں۔ ادارے کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ خیال نہیں کیا کہ وہ اتنے عرصے سے اس جگہ کے کرائے دار ہیں۔ ہم نے ان کی تجویز کردہ قیمت سے سو فیصد زیادہ کا ایوارڈ دیا ہے۔ کاﺅس جی جنہوں نے سو ا کروڑ کا چیک بطور معاوضہ احتجاجاً وصول کیا، اس بات کو عدالت میں چھیڑا کہ انگریز نے سونے کے بدلے سونے کا جو اصول بتایا ہے اسے ہم نے اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔

جسٹس سلیم اختر کی عدالت تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے ایڈوکیٹ جنرل سے پوچھا کہ اس قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ کلکٹر صاحب ڈپٹی کمشنر سے ایوارڈ آف کمپنسیشن دیتے وقت ڈپٹی کمشنر سے کوئی حکم حاصل کریں۔ یوں یہ اعتراض تو فی الفور رد کر دیا گیا۔ ادارے کا اعتراض کہ وہ اس عمارت کو کم قیمت میں خریدنے کے لیے اس وجہ سے حق دار ہیں کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے یہاں ایک شفاخانہ اپنے ملازمین کے لیے چلاتے ہیں۔ اس پر عدالت نے اس دلیل کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اس رعایت سے تو کشمیر پر ہندوستان کا اور اسرائیل کا فلسطین پر ان کے مقرر کردہ اصول کی روشنی قبضہ جائز ہو جاتا ہے۔ آپ اگر ایک ٹیکسی میں ایک عرصے تک گھومیں اور کسی دن اس ٹیکسی کو خریدنے کا موڈ بن جائے تو کرایہ کار کی مالیت میں شمار کرنا ناجائز ہو گا۔

کاﺅس جی کی امارت اور دولت کا احوال ظاہر کرتے ہوئے انہیں ہماری ادارے کی مجوزہ قیمت سے زائد کا ایوارڈ خوش دلی سے قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ ہمارے بارے میں ان کا مستحسن فیصلہ یہ تھا کہ تین پارٹیاں جس پر معترض ہوں اس ایوارڈ میں نہ صرف قانونی طور پر کوئی سقم نہیں، بلکہ انصاف کے تمام تر تقاضے بھی بطریق احسن پورے کیے گئے ہیں۔

کاﺅس جی سے ہماری دوستی پکی ہو گئی۔ فریال کی طرح انہوں نے اس کے بعد ہمارے ایوارڈ پر کبھی کوئی گفتگو نہیں کی۔ جولائی سن نوے میں ایک دن آئے تو ہم انہیں لیاری کے ایک سرکاری میٹرنٹی ہسپتال لے گئے۔ اس کی ڈاکٹر انچارج کو وہاں کچھ لوگوں کی بے جا مداخلت سے بہت شکوہ تھا۔ یہ معاملات پی پی کے ایم پی اے جناب عبدالخالق جمعہ اور علی ہنگورہ جو ہمارا بہت لحاظ کرتے تھے ان کی مدد سے بغیر پکڑ دھکڑ کے ہم نے حل کرا دیے۔ وہ بہت مطمئن تھیں۔ ارد شیر کاﺅس جی نے اس سے جب دواﺅں کا بجٹ پوچھا تو بتایا گیا کہ حکومت کے بجٹ میں اس مد میں سالانہ کل پچیس ہزار روپے ملتے ہیں۔

کاﺅس جی نے اس کے سامنے سے تشخیصی نسخے لکھنے والا پیڈ کھینچا اور کوٹ کی جیب سے قلم نکال کر ان کے نام اسٹینڈرڈ چارٹر بنک جو اس وقت گرننڈلیز بینک کہلاتا تھا ایک لاکھ روپے ان کے اکاﺅنٹ سے بطور عطیہ دینے کا لکھا۔ سادہ طبع مگر جواں سال ڈاکٹر صاحبہ جو نہ کاﺅس جی سے واقف تھیں نہ ان کے انداز مہربانی سے۔ کہنے لگیں” اس کمپنی کے پریسکرپشن پیڈ پر لکھے گئے آپ کے عطیے کو کون مانے گا“۔ وہ کہنے لگے ” چل ایک وعدہ کر کہ کل پیسے مل جائیں تو مجھ سے شادی کرے گی۔ نہیں تو اس پر ایک زیرو تو اپنے ہاتھ سے اضافہ کرنا اور اتنی ہی رقم کل تیرے اکاﺅنٹ میں ایکسٹرا بطور ہرجانے کے جمع کرا دوں گا۔ Third Party Guarantee تیرے علاقے کا یہ ایس ڈی ایم اور عبدالخالق جمعہ صاحب ہوں گے۔

اس میٹرنٹی ہوم سے باہر نکلے تو ایک سپاہی مل گیا۔ یہ لیاری کا ایک گجراتی تھا۔ ہماری آستین کھینچ کر ایک طرف لے گیا۔ اس کی بیوی زندگی اور موت کی زیست کی کشمکش میں کسی خیراتی ہسپتال میں پڑی تھی۔ ڈاکٹر نے جان بچانے کے لیے دس انجکشنوں کا جو نسخہ لکھا تھا اس کا ایک انجکشن ہی سن نوے میں سولہ ہزار روپے تھا۔ ہم نے کہا کل ہم اس کے ڈی آئی جی افضل شگری سے معاونت کی درخواست کریں گے۔ وہ مہربان ہیں، مان جائیں گے۔ پولیس ویلفئر فنڈ سے کوئی امداد کریں گے۔ ارد شیرکاﺅس جی جو گیٹ پر بے تابی سے ہمارے منتظر تھے۔ پوچھنے لگے کہ کیا معاملہ ہے؟ ہم نے احوال سنایا تو وہی پیڈ منگایا کراچی کے ایک بڑے میڈیکل اسٹور کو لکھا کہ نسخہ دیکھ کر اسے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے کے انجکشن دے دیے جائیں۔ وہ بھی متذبذب تھا مگر اسے اشارہ کیا کہ وہ کار میں سوار ہوجائے۔ ہم بندر روڈ پر اس میڈیکل اسٹور پر رکے۔ اسے وہیں انجکشن لے کر دیے۔ اس کی مسرت اور حیرت دونوں ہی دیدنی تھیں۔

ایک صبح سات بجے فون آگیا کہ آتا ہے گاڑی بھیج رہا ہوں۔ ناشتہ کرلیا ہے نہیں تو تیار کراﺅں۔ ہم نے شوخی سے کہا Noritake Gold- Plated Dinner Set میں ہم Acacia Honey کے ساتھ tea Darjeeling long leaf سوئس چیز اور حلوہ پوری-

پہنچے تو بتایا کہ دوپہر کو ان کی ملاقات کے۔ ڈی۔ اے کے ایک ڈی۔ جی (بلڈنگ کنٹرول) سے طے ہے۔ وہ چاہتے تھے ہم بھی اس ملاقات میں شریک ہوں۔ ان دنوں تین تلوار کے قریب واقع گلاس ٹاﺅر اور گلف ٹاﺅر پر عدالت میں جنگ چل رہی تھی۔ ہم نے پہلو تہی کی کہ ہم کے ڈی اے کے اہم افسر ضرور ہیں مگر اس کا تعلق بلڈنگ کنٹرول سے ہے، ہم سے نہیں۔ اس کا ہمارا سرکاری تعیناتی سے کوئی تعلق نہیں۔

Just for sobering effect and drilling reasons in their stone heads.

(ان کے دماغ میں بھس بھرا ہے تو تمہاری موجودگی سے کچھ بات سنبھل جائے گی)

ہم انکاری ہوئے۔ ایک آدھ سرکاری مصروفیت سے فارغ ہوکر ڈیڑھ گھنٹے بعد دفتر پہنچے تو ڈھونڈیا مچی تھی ڈی۔ جی، کے۔ ڈی۔ اے پریشان تھے۔ انہیں چیف سیکرٹری سعید مہدی کے دفتر سے فون آیا تھا کہ ہم کو لازماً ساتھ لے جایا جائے۔ ہمیں لگا کہ کاﺅس جی بہت اوپر سے آئے ہیں۔

دوپہر کاﺅس جی کے گھر چار میری روڈ باتھ آئی لینڈ جب یہ وفد پہنچا تو ان کا ڈیش ہاﺅنڈ کتا ڈیوک لپک کر باہر آیا۔ کاﺅس جی پیچھے پیچھے چلے آتے تھے۔ ڈی جی صاحب اور دیگر شرکا کی تو جان ہی نکل گئی۔ کاﺅس جی کو پوچھنے لگے ” کتا کاٹے گا تو نہیں؟“ کاﺅس جی کہنے لگے ”حرامی ہو گا تو کاٹے گا. دیکھ اقبال کے آس پاس کیسے مزے سے گھومتا ہے۔ یہ پہلی دفعہ بھی آیا تھا, ڈیوک کچھ نہیں بولا تھا۔

کاﺅس جی کے گھر میں جانداروں اور کاروں کے سوا کوئی بھی شے سو سال سے کم پرانی نہیں تھی۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments