فائز عیسیٰ ریفرنس پہ ایک تحریر


سپریم جوڈیشل کونسل نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کالعدم قرار دے دیا۔ قریب قریب اک سال چلنے والے اس ریفرنس کو حکومت پاکستان نے دائر کیا تھا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کہ والد محمد عیسیٰ قائداعظم کے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، بطور صدر آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں درج ہے۔ اپنے خاندان کے ورثے کو آگے بڑھانے والے فائز عیسیٰ کے بولڈ کیرئیر کی وجہ سے وکلا کی اکثریت جسٹس فائز عیسیٰ کی عزت کرتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں انصاف ٹکے ٹوکری ہوتا ہو، جہاں بعض ججز خفیہ ملاقاتوں کے لیے بدنام ہوں، جہاں بعض ججز کی ڈکٹیشن لیتے ہوئے کالز لیک ہوں، جہاں بعض ججز کہیں اور کے لکھے ہوئے فیصلے پڑھ کر سنائیں وہاں انصاف کی روایات کو شان سے لے کر چلنے والے جسٹس فائز عیسیٰ تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوئے تھے۔

ماضی میں جب سپریم کورٹ نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کو فارغ کیا تو بلوچستان ہائیکورٹ ججز سے خالی ہو گیا تب فائز عیسیٰ کو ڈائریکٹ جسٹس عہدہ سنبھالنے کا حکم ملا فائز عیسیٰ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے والے قاضی کے طور پر سامنے آئے۔ مشرف دور کے جوڈیشل ایکٹوزم کے بعد پاکستانی سیاست کا منظر نامہ عدلیہ کے بغیر ادھورا ہے۔

2018 کے الیکشن کے نتائج میں پانامہ اور عدلیہ کا بنیادی کردار رہا ہے۔ نواز شریف کی کرپشن کا فسانہ کتنا سچ کتنا جھوٹ اس بات سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ ان کے خلاف عدالت میں پیش کیے جانے والے ثبوت ان کا جرم ثابت کرنے کے لیے ناکافی تھے۔ بے شک نواز شریف منی ٹریل ثابت نہیں کر سکے مگر تفتیشی ادارے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ان کی کرپشن کے ثبوت اکٹھے نہیں کر سکے تھے۔ چند انٹرویوز چند ویڈیو کلپس ان کو جھوٹا ضرور ثابت کرتے ہیں لیکن یہ ایسے ثبوت ہرگز نہیں کہ اس بنا پر سخت فیصلے سنائے جا سکیں اور یہ بات قانون سے تھوڑی بھی واقفیت رکھنے والا شخص بخوبی سمجھتا ہے۔ ن لیگ ان انٹرویوز اور ویڈیو کلپس کو سیاسی بیانات قرار دیتی ہے بعینہ عمران خان توہین عدالت اور پینتیس پنکچر سمیت متعدد بیانات اور یو ٹرنز کو سیاسی بیانات قرار دے چکے ہیں۔

جہاں تک آف شور کمپنیز کی بات ہے تو پانامہ کے مطابق سب سے زیادہ آفشور کمپنیز رکھنے والی شخصیات تحریک انصاف میں شامل ہیں دور کیوں جانا خود عمران خان صاحب بھی آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔ چونکہ گزشتہ جنرل الیکشن میں چہیتوں کو مسیحا بنانے اور ن لیگ کو دیوار سے لگانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ن لیگ نے اک کروڑ سے زائد ووٹ لیے اور موجودہ حکومت کی ناکامی وہ وجہ ہے جس کے باعث 2023 کے الیکشن میں تحریک انصاف کا کوئی بڑا کردار نظر نہیں آ رہا۔ اس ساری صورت حال میں ن لیگ کی قیادت کو زیادہ دیر سیاست سے دور رکھنا عبث ہے۔ مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی تشکیل کے لیے عدلیہ کا بنیادی کردار ہو گا۔ من پسند منظرنامے کی تشکیل کے لیے ہیت مقتدرہ کو عدلیہ کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے پروفیشنلزم کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دستیاب ثبوت اور قانون کے مطابق فیصلے سنانا ہیں نہ کہ کسی کی ایما پر‍۔

آپ فائز عیسیٰ کے ماضی میں دیے گئے فیصلوں پہ نظر دوڑائیں تو گزشتہ برس سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو رکنی بینچ نے، جو جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تھا، فیض آباد دھرنا کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا کئی اہم نکات کے علاوہ فیصلے کے آخر میں دی گئی تجاویز میں عدالت نے آرمی چیف، اور بحری و فضائی افواج کے سربراہان کو وزارت دفاع کے توسط سے حکم دیا تھا کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔ فیصلے میں آرمی چیف کو ہدایت کی گئی تھی کہ افواج پاکستان اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو اپنی آئینی حدود میں رکھا جائے یہ فیصلہ نہ صرف جسٹس فائز عیسیٰ کی بہادری اور اصول پسندی کو ظاہرکرتا ہے بلکہ حکومتی ریفرنس کی وجہ بھی قرار دیا جاتا رہا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو وہ کس قدر بے باکی سے انصاف فراہم کریں گے۔ بہرحال عقل مند کو اشارہ کافی ہوتا ہے اس فیصلے نے باور کرا دیا کہ مستقبل میں جسٹس فائز عیسیٰ کی ترقی طاقت کے مراکز کے لیے کتنی مشکلات کھڑی کر سکتی ہے

اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان مشکلات سے بچنے کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف سازشوں کا آغاز کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کی برطرفی کے لئے پنجاب بار کونسل میں قرارداد لا کے تاثر دیا گیا کہ وکلا ان کے خلاف ہیں۔ پھر حکمراں جماعت تحریک انصاف نے پہلے ان کے خلاف درخواست دی اور پھر وفاقی حکومت کی طرف سے ان کے خلاف سپریم کورٹ میں باقاعدہ ریفرنس دائر کر دیا گیا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے اس بابت صدر پاکستان کو خط بھی لکھا تھا جس کی وجہ سے اس کیس کو عالمی شہرت نصیب ہوئی تھی۔ دنیا بھر سے سیاست پہ نظر رکھنے والے افراد اس کیس کا دلچسپی سے مشاہدہ کر رہے تھے۔ فیصلہ آ چکا، حکومتی ریفرنس کالعدم ہو گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ عوامی امیدوں پہ پورا اترتے ہیں یا پھر اک اور افتخار چوہدری پاکستانی عدلیہ کا مقدر بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments