کوئی استاد لاولد نہیں ہوتا


”ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے“ ۔ یہ الفاظ اس شخصیت کے ہیں جن کا قد کاٹھ ماپنے کے لیے علم و ادب کا پیمانہ چاہیے۔ اب ہم کہاں سے لائیں وہ الفاظ، وہ ادائیگی، وہ لب و لہجہ اور آواز جو کانوں سے ہوتی ہوئی سیدھا دل میں اتر جاتی تھی۔ نیلام گھر پاکستان ٹیلے ویژن کا وہ پروگرام تھا جو اپنے آپ میں ایک اکیڈمی تھا، ازاں بعد اسے طارق عزیز شو کا نام دے دیا گیا۔

زندگی تو خاکی ہے بالآخر اس نے ایک دن خاک میں خاک ہی ہوجانا ہے۔ علم و آگہی کے ان گنت چراغ جلانے والی ایک ہمہ جہت شخصیت اپنے خالق حقیقی سے ملنے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو چکی ہے۔ موت اس فانی دنیا کا خاتمہ ضرور ہے لیکن پھاٹک ہے اس جہاں کا جو امیدوں، جگنوؤں، پھولوں، مخملی گھاس اور مشک و عنبر کی بسی ان وادیوں میں کھلتا ہے جسے جنت کہتے ہیں۔ طارق عزیز صاحب نے یقیناً اس گرم جوشی سے اہل جنت کو بھی سلام کہا ہوگا اور ”پاکستان زندہ باد“ کا گرجتا نعرہ لگایا ہوگا۔

طارق عزیز کی پاکستان سے محبت ان کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرتی تھی۔ یہ محبت انھیں ان کے والد سے وراثت میں ملی تھی۔ میاں عبدالعزیز پاکستانی 1936 ء میں پاکستان بننے سے بہت پہلے سے اس لفظ کو اپنے نام کے ساتھ لگاتے تھے۔ 1964 ء میں جب پی۔ ٹی۔ وی کا انعقاد ہوا تو طارق عزیز کو لاہور سنٹر سے پی۔ ٹی۔ وی کے پہلے اناؤنسر کی حیثیت سے اس کے اعلان کی تشہیر کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہم سب اپنے بچپن کاوہ وقت کیسے بھول سکتے ہیں جب سب چھوٹے بڑے ٹی۔ وی سیٹ کے آگے بیٹھے ”نیلام گھر“ ذوق و شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ شہر بھر کی گلیاں نیلام گھر دیکھنے کے لیے سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔ طارق عزیز صاحب کے لب و لہجے کا زیر وبم، بروقت جملوں کی ادائیگی، برجستہ شعروں کا استعمال وہ تمثیلات اور استعارات کی طرح کرتے تھے۔ انسان کی یہ خاصیت ہے کہ وہ تمام عمر سیکھنے کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ طارق عزیز صاحب سے ہم اس عمر میں متعارف ہوئے جب گھروں اور سکولوں میں بھی وطن کی محبت، جذبات و نفسیات کی طرح تربیت کا حصہ ہوتی تھی۔

ادھر نیلام گھر کے ذریعے سے جنرل نالج اور شعر و شاعری یاد کرنے کی خواہش بھی سب کے دلوں میں موجزن رہتی تھی۔ ہم چوں کہ گرفن ریلوے کالونی میں رہتے تھے اور کالونی کی زندگی میں پڑوسیوں سے رشتے داروں کی طرح کے مراسم ہوتے تھے۔ کالونی میں پہلا ٹی۔ وی بھی ہمارے ہی گھر تھا سب لوگ جوق در جوق ٹی۔ وی دیکھنے آیا کرتے تھے۔ ویک اینڈ پہ پاپا اور میری ماں ہم سب ہم عمر بچوں کو اکٹھے کر کے گھر کے آنگن میں باقاعدہ نیلام گھر کھلایا کرتے تھے اور کہانیوں کی کتابوں، پودوں کی پنیریوں اور چھوٹے موٹے کھلونوں کی شکل میں انعامات بھی دیا کرتے تھے۔

بعد میں وہ پنیریاں ہم سے گھر کے باغ اور گملوں میں لگوائی جاتیں۔ یوں ہم صحت مندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے۔ ہمیں سینکڑوں سوال جواب اور اشعار یاد ہو جایا کرتے تھے۔ کبھی بیت بازی کے مقابلے ہوتے اور کبھی جنرل نالج کے سوالات۔ مرزا غالب، علامہ اقبال، میر تقی میر، نظیر اکبر آبادی اور الطاف حسین حالی کے بے شمار اشعار ہمیں یاد ہوتے۔ اب یاد کرتی ہوں توان سب سوالوں اور شعروں کی وصولی طارق عزیز صاحب کو جاتی ہے۔

طارق عزیز صاحب کے پروگرام سے ہمیں Life in values اور پاکستان سے محبت بھی سیکھنے کو ملی۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی صدا کاری کا ایک منفرد دور اب ختم ہوگیا۔ طارق عزیز صاحب ہمارے ان استادوں میں سے تھے جن سے ہمیں شعرو ادب اور مطالعے کا شوق حاصل ہوا۔ طارق عزیز صاحب نہ صرف نیلام گھر کے کمپیئر تھے بلکہ پورا پروگرام ان کی سربراہی میں ترتیب دیا جاتا تھا تو ایک طرح سے وہ شریک پروڈیوسر بھی تھے۔ طارق عزیز شو کو پوری دنیا میں ایک خاص شہرت ملی اور گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی اس پروگرام کا اندراج ہوا۔

طارق عزیز صاحب پاکستان کا اثاثہ ہیں۔ نجی ٹیلے ویژن میں اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ بصارت سے محروم ایک لڑکے نے مجھے خط لکھا کہ آپ پروگرام شروع کرتے ہوئے مجھے مخاطب نہیں کرتے۔ میں سوچتا رہا اور ایک دن ایک جملہ ”دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے“ مجھ پہ اترا اور میں یہ جملہ ادا کرنے لگا۔ علم سے محبت کرنے والے طارق عزیز کا کتابوں سے عشق میں بولا گیا جملہ تھا ”میرا ایمان ہے جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہاں برکت نہیں ہوتی“ ۔ شاعری بھی کرتے تھے۔ ان کا اپنا پسندیدہ شعر تھا:

ہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارقؔ کہ شہر میں
کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں

4 طارق عزیز صاحب منٹگمری جو اب ساہیوال کہلاتا ہے کے رہنے والے تھے۔ مجید امجد اور منیر نیازی کے زیر سایہ بچپن گزارا جو انھیں کندن بنا گیا۔ انھوں نے زمانے کی ٹھوکریں بھی کھائیں لیکن ان تھک محنت کے ذریعے عزت اور شہرت کمائی۔ پندرہ جون 2020 کو طارق عزیز صاحب کے آخری ٹویٹ میں ایک دل گداز اداسی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ لکھتے ہیں : ”یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے، رواں دواں زندگی رک گئی ہے، کئی دنوں سے بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں کہ آزادانہ نقل و حرکت بھی مالک کی کتنی بڑی نعمت تھی، نجانے پرانا وقت کب لوٹ کے آتا ہے۔ ابھی تو کوئی امید نظر نہیں آ رہی“ ۔ اور وہی ہوا وہ اپنی زندگی میں اسی اداسی کی فضا میں دنیا سے کوچ کر گئے۔ طارق عزیز صاحب کی چھوٹی بحر کی پنجابی نظم ہے :

اج دی رات میں کلا واں
کوئی نئیں میرے کول
اج دی رات تے میریا ربا
نیڑے ہوکے بول

ò طارق عزیز صاحب اداکار، صدا کار، کمپیئر، فلاسفر، براڈ کاسٹر اور ایک ہر دلعزیز انسان تھے۔ کچھ لوگوں کو خدا شاید فرصت کے لمحات میں بیٹھ کر بڑی سچیلی مٹی سے گوندھتا ہے۔ طارق عزیز صاحب بھی ایسی ہی مٹی سے بنائے گئے انسان تھے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک طارق عزیز صاحب بیسٹ سیلر تھے لیکن میں کہوں گی کہ وہ بیسٹ میکر تھے کہ انھوں نے ایک عہد کی تربیت کی تھی۔ وہ ذہنی آزمائش کے اپنے پروگرام نیلام گھر کوکچھ اس طرح جذب ہو کر کرتے تھے کہ بجلی کی سی سرعت سے الحمرا کے اسٹیج سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے ہال میں مدعو مہمانوں کی کرسیوں کے پاس پہنچ جاتے اور ہانپے بغیر سوالات پوچھتے۔

آخیر عمر تک طارق عزیز صاحب کی آواز کی گھن گرج قائم رہی۔ ان کی کچھ دن پہلے کی ویڈیو جس میں وہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں، اس میں کچھ نحیف سے ضرور نظر آتے ہیں لیکن ان کی آواز ایک ببر شیر کی طرح ہے۔ یہ صرف آواز نہیں تھی بلکہ ایک جذبہ تھا، ایک ادارہ تھا، علم و ادب کا ایک جہان تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ لاولد تھے اور اپنی ساری دولت پاکستان کے نام کرگئے۔ یہ تو ان کی اپنے وطن سے لازوال محبت تھی اور ہماری ان سے محبت یہ ہے کہ میرا ماننا ہے کہ کوئی استاد کبھی لاولد نہیں ہوتا۔ ہمارے عہد کے سب لوگ ان سے جڑے ہوئے ہیں۔ خدائے عزوجل ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور درجات بلند کرے۔ آمین! اس دارفانی سے کوچ کرنے سے پہلے شاید زیر نظر اشعار ان کے ذہن میں آئیں ہوں گے!

گھر میں جی لگتا نہیں میرے دوستو
جس جگہ زندگی ہو وہاں لے چلو
نوجوانوں نے ڈالے ہوں ڈیرے جہاں
گیت گونجیں سویرے سویرے وہاں
ہاں چلو ہم بھی دھومیں مچائیں وہاں
گھر میں جی لگتا نہیں میرے دوستو
جس جگہ زندگی ہو وہاں لے چلو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments