عوام جاہل اور نمائندے متجاہل ہیں


میرا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے دور افتادہ علاقہ سرن ویلی (جو کوہ موسیٰ کا مصلیٰ کے دامن میں واقع ہے ) سے ہے۔ ہمارے ہاں پسماندگی کی انتہا ہے۔ مگر سیاسی عمل دخل میں ہمارے علاقے کا بچہ بچہ متحرک رہتا ہے۔ اپنے علاقے کے لوگوں، بالخصوص نوجوانوں کی اصلاح کے لئے میں اپنا فیسبک اکاؤنٹ استعمال کرتا ہوں، اور مشاہدہ کے مطابق ان معاملات کی وضاحت کی کوشش کرنا میرا مشغلہ ہے جن معاملات کو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن پورے معاشرے کے بدلے اذہان اور بگڑے نظریات کو سنوارنا مجھ اکیلے کے بس کی بات نہیں ہے۔

قوم پرستی، تعصب، نفرت، انا پرستی اور شخصیت پرستی کے ساتھ ساتھ ہمارے لوگ وہ تمام امیدیں، ان لوگوں سے ہمیشہ کے لئے وابستہ رکھے ہوئے ہیں، جن امیدوں پر پورا اترنا، ان لوگوں (عوامی نمائندوں ) کے فرائض میں داخل ہی نہیں ہے۔ سڑک ٹوٹ جائے، کہیں پل و پگڈنڈی کی ضرورت پڑے، پانی کا نلکا لگانا ہو یا بجلی کے پول درکار ہوں یا پھر بجلی کا ٹرانسفارمر اوور لوڈ اور دیگر وجوہات کی وجہ سے جل جائے اور اسے تبدیل کروانا ہو، سرکاری نوکری (کلاس فور، چوکیدار، استاد کی بھرتی) کے لئے سفارش درکار ہو وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کاموں کا بھار ہمارے لوگ، ہمارے قومی و صوبائی نمائندوں پر ڈالے بیٹھے ہیں۔ اگر میں کہوں کہ علاقہ سرن ویلی ہی نہیں بلکہ ضلع مانسہرہ کی سیاست مندرجہ بالا امیدوں یا ان امیدوں پر پورا اترنے کے وعدوں پر منحصر کرتی ہے تو میرا یہ کہنا کسی طور بھی غلط نہ ہوگا۔

اور اگر مجھ سے یہاں کے عوام بارے رائے لی جائے تو میں کہوں گا ”عوام جاہل اور نمائندے متجاہل ہیں“ ممکن ہے کہ اب ہم میں سے اکثر لوگ لفظ ”جاہل“ کے وہ معنی مراد لے لیں جو عام طور پر گالی سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے لغوی اعتبار سے اس کی وضاحت کیے دیتا ہوں۔ لفظ ”جاہل“ عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں اصل حالت اور اصل مفہوم کے ساتھ مستعمل ہے۔ جس کے معانی انپڑھ، بے ادب، بے سلیقہ، بے علم اور غیر مہذب ہیں۔

سنسکرت میں جاہل کو ”اجڈ“ ، عربی میں ”احمق“ ، فارسی میں ”گستاخ“ اور ہندی میں ”گنوار“ کہا جاتا ہے۔ اب اگر ہم کسی خاص قسم کی بیہودگی کے مظاہرے پر کسی ایک اور خاص شخص یا چند اشخاص کے لئے لفظ ”جاہل“ استعمال کریں گے تو اس کا مفہوم اور ہوگا اور جب ہم اسی لفظ کو پورے عوامی سٹرکچر کے لئے استعمال کریں گے تو مطلب اور ہوگا۔ مثلاً: ایک شخص یا چند لوگ ماں باپ کو گالیاں دیں انہیں ہم ”جاہل“ بمعنی اجڈ، گوار، بداخلاق، گستاخ اور احمق کہیں گے اور اگر تمام لوگ ایم این اے، ایم پی اے کو بجلی کا ٹرانسفارمر یا پول لگوانے کی امید پر ووٹ دیں تو ان تمام لوگوں کو ہم جاہل بمعنی بے علم، احمق یا انپڑھ کہیں گے۔ لہذا ”عوام جاہل ہیں“ یہ بات بالکل درست ہے اور اس میں کچھ بہت زیادہ بری بات بھی نہیں ہے۔ جاہل ہیں، نہیں جانتے، اور اگر جاننے لگ جائیں تو جاہل نہیں ہوں گے۔

دوسری طرف عوامی نمائندے عام اصطلاح کے مطابق سیاستدان ”متجاہل“ ہیں۔ جاہل اور متجاہل میں فرق بس اتنا سا ہوتا ہے کہ جاہل اس لئے جاہل ہوتا ہے کہ وہ کچھ جانتا نہیں اور متجاہل وہ ہوتا ہے جو جانتا تو سب کچھ ہے مگر جان بوجھ کر انجان بنتا ہے۔ عوام کو معلوم نہیں کہ ہمارے ایم این اے، ایم پی اے صاحبان کے اختیارات و فرائض کیا ہیں مگر ان نمائندوں کو تو پتہ ہے کہ ان کی کیا ذمہ داریاں اور کیا اختیارات ہیں؟ اس کے باوجود یہ لوگ (نمائندے یا سیاستدان) عوام کی ان تمام بے ڈھنگی و جاہلانہ امیدوں کو پختہ کرنے کے لئے ان تمام مسائل کے حل کا وعدہ کر لیتے ہیں جو ان کے بس میں نہیں ہوتے۔ گویا جان بوجھ کر ”جاہل“ بنتے ہیں اس لیے ”متجاہل“ ہوئے۔

جس طرح آئین کے مطابق جن چیزوں پر قانون سازی قومی اسمبلی میں ہوتی ہے ان کے علاوہ تمام امور پر صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کی مجاز ہیں۔ مثلاً تعلیم کا شعبہ صوبوں کے پاس ہے تو قومی اسمبلی کے امیدوار کو تعلیمی اصلاحات یا تعلیم سے جڑی امیدوں کی مد میں ووٹ دیا جائے اس کی کوئی تک نہیں بنتی اور خارجہ امور مرکز کے پاس ہیں تو صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو بہترین خارجہ پالیسی میں بہتر کردار ادا کرنے کی امید سے ووٹ دینا جہالت ہے۔ بالکل اسی طرح جو کام ایم این اے اور ایم پی ایز کے نہیں ہیں ان کے لئے انہیں منتخب کرنا بھی جہالت بمعنی لاعلمی ہے۔ اس کا ازالہ ضروری ہے مگر متجاہل سیاستدان یہ نہیں چاہتے عوام کو ان کی اصل کا پتہ لگنے پائے۔

رہی بات ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ (صوبائی ہیلتھ منسٹر) کے بیان کی تو انہوں نے درست ہی کہا ہے کہ لاہوری جاہل ہیں مگر یہ کہنا وہ کیوں بھول گئیں کہ انہی جاہل لاہوریوں نے انہیں منتخب کیا، وہ اگر جاہل ہیں تو محترمہ، ساتھ مضبوط شواہد کے متجاہل ٹھہریں۔ جاہل کا تو حل ہے کہ وہ جاننے کی تگ و دو کرے مگر متجاہل کا حل یہ ہے کہ وہ بددیانت بھی ہے لہذا پہلے استعفیٰ دے اس کے بعد جان بوجھ کر جاہل (یعنی متجاہل) بننے کی روش کو ترک کر کے عوام کی حقیقی نمائندگی کا حق ادا کرے۔ میں نہیں محترمہ سے پورا پاکستان پوچھ رہا ہے کہ اگر لاہوری بازار جانے سے گریز نہ کر کے جاہل ہو سکتے ہیں تو بازار کھول کر، لاک ڈاؤن کے خلاف ہو کر وزیر اعظم پاکستان کو کیا کہنا پڑے گا پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments