طبقہ اشرافیہ اور بے زبان سرکاری ملازمین


راوی لکھتا ہے کہ ایک کمزور اور منحنی سا شخص نے کسی حکیم سے رجوع کیا اور اس سے وعدہ لیا کہ اس کی تکلیف سن کر حکیم صاحب نہیں ہنسیں گے۔ حکیم نے وعدہ کیا کہ میں نہیں ہنسوں گا۔ وعدے وعید کے بعد مریض نے تیلی جیسی پتلی ٹانگ تھوڑی سی ننگی کی تو حکیم کی ہنسی کو بریک نہ لگ سکے۔ مریض نے شکوہ کناں نظروں سے حکیم کی طرف دیکھا اور کہا کہ آپ نے نہ ہنسنے کا وعدہ کیا تھا۔ حکیم اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولا ”ہنسنے کی معذرت چاہتا ہوں لیکن یہ بتائیں کہ آپ کو تکلیف کیا ہے۔

مریض انتہائی دکھی انداز میں کہنے لگا“ حکیم صاحب! میری یہ ٹانگ سوج گئی ہے ”موجودہ کرونا کی وبا اور ملکی معیشت کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ ہماری حالت بھی اسی منحنی اور کمزور شخص کی ٹانگ جیسی ہے۔ ملکی معاشی بحران کا رونا اورسرکاری ملازمین کو جہاں ایک سال تک صبر کرنے کے دلاسے دیے جار ہے ہیں وہاں کچھ سماجی رابطوں کے ماہرین اور بقراط حضرات بھی سرکاری ملازمین کو خود غرض اور بے حس بھی قرار دے چکے ہیں کہ جب پورا ملک کرونا جیسے وائرس کا شکار ہے اور ملکی معیشت کا پہیہ نہ صرف مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے بلکہ ناقابل استعمال بھی ہے، وہاں سرکاری ملازمین کو اپنے پیٹ کی پڑی ہے۔

لیکن کسی نے بھی درجہ چہارم کے سرکاری ملازم کے بارے میں نہیں سوچا جس کی گھریلو معیشت کا انحصار صرف اور صرف اپنی تنخواہ پر ہوتا ہے۔ اسی قلیل تنخواہ سے نہ صرف اس نے مکان کا کرایہ، بجلی، گیس اور پانی کے بل ادا کرنے ہوتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی ادا کرنے کے بعد جو کچھ باقی بچتا ہے اس سے گھر کا دال دلیہ بھی کرنا ہوتا ہے اس کے علاوہ بیماری اور مرگ کے اخراجات اور بچوں کے کپڑے اور جوتی کے اخراجات بھی اسی قلیل تنخواہ سے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ نئی اسلامی ریاست مدینہ کے قائدین نے اس بجٹ میں یہ بھی نہیں سوچا کہ ایک ایسا ملک جس کے وزیر اعظم کے ایک ماہ کاخرچہ سات لاکھ روپے ماہانہ سے پورا نہیں ہوتا وہاں 25000 روپے ماہانہ سے چھ افراد کا گھر کا خرچہ کیسے چلایا جائے گا۔

تاریخ شاہد ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ کی تنخواہ کا سوال آیا، آپ نے فرمایا ”مدینہ میں ایک مزدور کو جو یومیہ اجرت دی جاتی ہے، اتنی ہی میرے لیے مقرر کرو“ ایک صحابیؓ بولے کہ اس میں آپ ؓکا گزارہ کیسے ہو گا؟ تو حضرت ابوبکرصدیقؓ ؓنے تاریخی جملہ کہا ”میرا گزارہ اسی طرح ہو گا جس طرح ایک مزدور کا ہوتا ہے۔ ہاں! اگر گزارہ نہ ہوا تو میں مزدور کی اجرت بڑھا دوں گا“ لیکن افسوس ہمارے ملک کے شرفاء اور افسر شاہی کو صرف اپنا گزارا تو نظر آ جاتا ہے لیکن اس غریب اور مزدور پیشہ چپراسی، چوکیدار، کلرک، سپاہی، فوجی، دربان اور مالی کا وسیع کنبہ اور محدود اخراجات کسی بھی صاحب ذی حیثیت کو نظر نہیں آئے۔

اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ بجٹ 2020۔ 21 ء سے ماضی کی طرح، حالیہ بجٹ میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ان مخصوص ملازمین کو تنخواہوں میں دیے گئے خصوصی اضافے پر اپنی تصدیقی مہر ثبت کر دیں گییہاں تک کہ ان خصوصی اضافوں کے لئے اسمبلی سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ اگر چہ بجٹ 2020۔ 21 ء میں اعلان کیا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کے لئے تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا رہا، لیکن اس میں ایف آئی اے، نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم وغیرہ جیسے محکموں کے افسران کو پہلے سے ہی گزشتہ سال کے بجٹ کے بعد ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے تنخواہوں کی مد میں دیے گئے بھاری بھر کم اضافوں کو دستاویزی شکل دی گئی ہے اور انہیں ریگولر کیا گیا ہے۔

اسی طرح 2019۔ 20 ء کا بجٹ سامنے آنے سے مہینوں قبل ہی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے نیب کے ملازمین کی تنخواہ دوگنا سے بھی زیادہ بڑھا دی گئی تھی اور بعد میں بجٹ کے دوران اس اضافے کو ریگولر کر دیا گیا تھا۔ ذرا آگے کی بھی سنتے جائیں گزشتہ مالی سال کے دوران، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، جوڈیشل اکیڈمی، پاکستان لاء کمیشن، بینکنگ ٹریبونلز وغیرہ کے ملازمین کے لئے بھی جوڈیشل الاؤنس کا اعلان کیا گیا تھا اور یہ اقدام بھی انتظامی آرڈر کے ذریعے کیا گیا۔

حال ہی میں سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں ہدایت کی تھی کہ وفاقی حکومت کے تمام سرکاری ملازمین کو 20 فیصد اسپیشل الاؤنس دیا جائے۔ تاہم، یہ بات بہت ہی دلچسپ ہے کہ سپریم کورٹ اور ساتھ ہی ہائی کورٹس نے کئی سال قبل اپنے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کیا تھا۔ 2018 ء میں پہلے یہ خیبر پختونخوا کی حکومت تھی جس نے ایگزیکٹو الاؤنس کی مد میں پی اے ایس (سابقہ ڈی ایم جی) گروپ اور پی ایم ایس (سابقہ پی سی ایس) گروپ کے ملازمین کو تنخواہوں میں 150 فیصد اضافہ دیا۔

گزشتہ سال کے وسط جولائی 2019 ء میں بزدار حکومت نے خیبر پختونخوا حکومت کی مثال پر عمل کرتے ہوئے صوبائی بیوروکریسی کی اشرافیہ کے لئے بنیادی تنخواہ میں 150 فیصد اضافے کی منظوری دی اور صوبائی اسمبلی سے مشاورت تک نہیں کی گئی۔ ان تمام عیاشیوں اور فضول خرچیوں کا اطلاق صرف افسر شاہی کی تنخواہوں پر ہی نہیں ہوا بلکہ اراکین پارلیمنٹ، صدر مملکت اور وزراء نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں لیکن درمیانے سکیل کے افسران اور درجہ چہارم کے اخراجات کسی کو بھی نظر نہیں آئے اور کرونا کے اخراجات اور تباہ حال معیشت کا تمام تر بوجھ غریب اور مسکین ملازمین کے نازک کندھوں پر ڈال کر حکومت اپنے سیاہ رو کارناموں پر پردہ ڈالنے میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔

ان تمام شاہ خرچیوں کو دیکھ کر کیا ایک عام سرکاری ملازم یہ نہیں سوچتا ہو گا کہ ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ استادوں پہ ٹھپا ہے وہ کام نہیں کرتے لیکن 1122، پولیس، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف، بلدیہ سے لے کر باقی ملازمین کا کیا قصور ہے؟ تھوڑا فراغ دل ہو کر سوچیں سوچیں کہ 470 روپے والے آٹے کا 20 کلو کا تھیلہ 970 کا ہو چکا ہے۔ چینی 70 روپے سے بڑھ کر 85 روپے کلو، گھی 160 روپے کلو سے بڑھ کر 195 روپے کلو ہو گیا ہے اور غریب ملازمین کو کہا جا رہا ہے کہ صبر کے گھونٹ پیو اور جون 2021 تک اسی تنخواہ میں گزارا کرو۔

آپ سب سے میرایہ سوال ہے کہ کیا موجودہ بیماری اور ہمارا معاشی بحران جون 2021 تک جاری رہے گا؟ جہاں تک ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ا ندازہ ہے کہ کرونا کی موجودہ بیماری ) کووڈ۔ 19 ) ستمبر کے وسط تک مکمل طور پر ختم ہو جائے گی توکیا بقیہ 9 ماہ موجودہ حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے بچائی گئی رقم سے ملک چلائے گی؟ اس ملک میں جہاں سابقہ سال ٹیکس کی حد کم کر کے سفید پوش ملازمین کے گلے پر چھری چلائی گئی وہاں مہنگائی 13 فیصد کے تناسب سے بڑھی ہے لیکن تنخواہ صفر فیصد، میرے خیال میں سوشل میڈیا کے سقراط و بقراط صاحب عقل حضرات کو اس بات کا علم نہیں کہ بجٹ میں تنخواہ صرف اس لئے بڑھائی جاتی ہے کیونکہ اسی تناسب سے مہنگائی بھی بڑھ رہی ہوتی ہے۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافے کے تناسب کو دیکھتے ہوئے کم از کم سکیل ایک تا 15 ان تمام ملازمین کی تنخواہ میں مناسب اضافہ کیا جائے تاکہ وہ سکھ کا سانس لینے کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں دیں۔ جن میں خاص طور پر درجہ چہارم اور پولیس ملازمین کے علاوہ ہر محکمے کے چپراسی، دربان، مالی، کلرک، سپاہی اور چوکیدار شامل ہیں جن کا چولہا صرف اور صرف ماہانہ تنخواہ سے ہی چلتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments