بچوں کے حقوق


بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں جو بڑے ہو کر ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بچوں کے حقوق اور ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ بڑے ہو کر اچھا شہری بننے کے ساتھ ساتھ عائلی زندگی سے لے کر ملک و قوم کی قیادت تک بہترین منتظم ثابت ہوں اور زندگی کے ہر شعبہ میں کارہائے نمایاں سرانجام دے کر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔

اسی لیے اسلام نے بھی آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے نہ صرف بچے کی پیدائش بلکہ ماں کے پیٹ میں جنین کے لیے بھی حقوق کا تعین کیا اور انہی حقوق کے تحت اسے سب سے بڑھ کر زندگی اور پھر وراثت و نفقہ کا حق دیا اسی طرح آج کی دنیا بھی بچوں کے حقوق کی بات کر رہی ہے اقوام عالم میں بین الاقوامی سطح پر اور مختلف ممالک میں اپنے اپنے طور پر بچوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے اقوام متحدہ سمیت بڑے بڑے عالمی سماجی ادارے اس پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔

اگر ہم وطن عزیز پاکستان کی بات کریں تو پاکستان ایک اسلامی ملک ہے بحیثیت مسلمان اسلام ہمارے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلام نے ماں کے پیٹ سے لے کر بعد از موت تک ہر مرد و عورت کے لیے حقوق کا تعین کر دیا ہے اسی طرح آئین پاکستان اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھی اس حوالے سے قانون سازی ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس سب کے باوجود ہر سطح پر بچوں کا بری طرح استحصال ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق پر کنونشن 1989 میں بچہ کی عمر کا تعین اٹھارہ سال کیا گیا ہے لیکن ہمارے معاشرہ میں بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اس کی حق تلفی شروع ہوجاتی ہے کبھی اسے مناسب اور ضرورت کے مطابق غذا نہ دے کر اس کا حق سلب کیا جا رہا ہوتا ہے تو کبھی ماں کو بھوکا پیاسا رکھ اور ذہنی و جسمانی تشدد کر کے اور اس وجہ سے اس پر پڑنے والے اثرات کی صورت میں اس پر ظلم کیا جا رہا ہوتا ہے جو کسی کو نظر بھی نہیں آتا اسی وجہ سے بیشتر بچے یا تو بہت کمزور اور لاغر یا معذور و اپاہج پیدا ہوتے ہیں یا پھر پیدائش سے قبل یا فوراً بعد مر جاتے ہیں۔

ایسی صورتوں میں زچہ و بچہ دونوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں پیدائش کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے لیکن اس میں بھی بچے کی صحت، خوبصورتی بدصورتی اور با الخصوص بچہ یا بچی کی پیدائش پر صنفی امتیاز کے باعث ظلم و زیادتی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے معذور بچوں کی مناسب پرورش اور تعلیم و تربیت نہ کرنے اور بچیوں کے ساتھ ہر سطح پر امتیازی برتاؤ تو ہمارے معاشرے میں عام ہے آئے روز اس حوالے سے خبریں سننے کو ملتی ہیں اور جو لوگ اپنے بچوں کی اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی سطح پر بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال تو ہمارا نظام تعلیم ہے بچہ تین سال کا ہوتا ہے تو اسے کتابوں کا بھاری بھر کم بستہ تھما کر سکول بھیج دیتے ہیں حالانکہ یہ اس کی بہترین ذہنی و جسمانی پرورش کا وقت ہوتا ہے اسلام نے سات سال تک اس کے لیے نماز تک کی چھوٹ دے رکھی ہے خالق کائنات سے بڑھ کر کوئی مدبر اور اس کے آخری رسول سے بڑھ کر کوئی معلم نہیں ہو سکتا اس لیے انسانیت کے لیے ضابطہ حیات بھی وہی ہے جو اللہ نے اپنے آخری رسول کے ذریعے دیا ہے اس لیے چاہے کوئی کتنا ہی بڑا مفکر کیوں نہ ہو اسلام کے ضابطہ حیات کو جھٹلا کر ہر گز کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم اسلام کے آفاقی پیغام کو بھلا کر مزید مسائل کا شکار ہو رہے ہیں اور آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔

تعلیم و صحت کی سہولیات اور دو وقت کی روٹی تو دور کی بات چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھیک مانگ اور محنت مزدوری اور مشقت کر کے پیٹ پالنے پر مجبور نظر آتے ہیں اور اب تو ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے باوجود بچوں پر تشدد جنسی زیادتی اور انھیں انتہائی بے رحمی و سفاکی سے قتل کرنے کی وارداتوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجوہات میں اسلام سے دوری حقوق سے عدم اگاہی اور شرعی و ملکی قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا شامل ہے۔

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اللہ کے بتائے ہوئے ضابطہ پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ بچوں کے حوالے سے ان کے حقوق اور موجود قوانین اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی بہت ضروری ہے جب ہمیں پتا ہو گا کہ بچوں کو مفت تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کرنا اور ان پر کسی بھی طرح کے ظلم و زیادتی یا ان کے حقوق کی خلاف ورزی پر قانونی گرفت ریاست کی ذمہ داری ہے تو پھر عوام حکومت سے اس کی ڈیمانڈ بھی کریں گے اور جب حکومت پر ریاستی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے دباؤ پڑھے گا تب قانون پر عمل درآمد ہو گا اور ادارے بھی اپنا کام کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments