پاکستانی فلمی دنیاکے نامور موسیقار اے حمید



یہ 1933 کا سال تھا جب ’دیو سماج‘ کالج، امرتسر میں موسیقی کے پنڈت، پروفیسرشیخ محمد منیر کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ نومولود کے چچا ایم اسلم بھی بمبئی میں اس وقت جانے پہچانے اداکار تھے۔ بچے کا نام شیخ عبدالحمید رکھا گیا۔ ابتدا ہی سے اس بچے نے موسیقی میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ خودبچے کے والدموسیقی کے پنڈت، پروفیسرشیخ محمد منیر تدریس کے علاوہ عملاً گیتوں کی دھنیں بھی ترتیب دیتے تھے۔ موصوف نے غیر منقسم ہندوستان میں 2 فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی: ”آخری غلطی ’‘ اور“ اندر راج ”۔

ان کے پاس موسیقی پر بہت سی نایاب کتابوں کا خزانہ موجود تھا۔ وہ جو محاورہ ہے“ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ”اس بچے پر صاد ر آیا۔ یہ تھوڑا بڑا ہوا تو اس کے جوہر چچا پر بھی کھلے۔ چچا چونکہ بمبئی میں اثر و رسوخ والے تھے لہٰذا انہوں نے مناسب وقت پر اپنے ہونہار بھتیجے کو بمبئی بلوا لیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ’فلم انسٹی ٹیوٹ پونا‘ میں داخلہ دلوا دیا۔ شیخ عبدالحمید کے اساتذہ میں نامور فلمی موسیقار ’سی رام چندرا‘ ( 1918 سے 1982 ) اور استاد محمد علی شامل تھے۔

سی رام چندرا کی موسیقی اس دور میں بہت پسند کی جاتی تھی۔ ان کی موسیقی جاتے زمانے اور آتے زمانے کا ایک حسین امتزاج تھی۔ ان کی دھنوں میں ان دونوں زمانے کی موسیقی بہت واضح محسوس ہوتی ہے۔ سی رام چندرا غیر محسوس طریقے سے پیانو بکثرت استعمال کرتے تھے۔ نوجوان عبدالحمید پونا سے بہت ذوق و شوق سے موسیقی کے اسباق حاصل کر کے واپس بمبئی آگئے۔ کتابی علم کے ساتھ اب پیانو کے استعمال کا وقت آ گیا۔ یوں انہوں نے بمبئی میں پیانو میوزیشن کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ موسیقار ماسٹر غلام حیدر کے معاون کے طور پر بھی کام کیا۔ ماسٹر غلام حیدر 1953 کے لگ بھگ لاہور سے بمبئی منتقل ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنے کے بعد ماسٹر صاحب جان گئے کہ یہ نوجوان ’پیانسٹ‘ مستقبل کا ایک اچھا موسیقار بننے والا ہے۔ واضح ہو کہ بمبئی میں ہر زمانے میں کسی نئے میوزشن کو جگہ بنانے میں سخت محنت اور ایک عرصہ لگتا ہے لیکن عبدالحمید نے جلد ہی پیانسٹ کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کروا لی۔ بمبئی کے میوزشنوں اور فلمی موسیقی کے کرتے دھرتوں میں شیخ عبد الحمید اب اے حمید پیانسٹ کے نام سے مشہور ہو گئے۔

میری اکثربانسری کے استاد سلامت حسین صاحب سے گفتگو ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ موسیقار اے حمید کا ذکر چل نکلا تو میں نے ان کے پیانو بجانے سے متعلق پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا: ”بیشک یہ بہترین پیانسٹ تھے۔ موسیقار خواجہ خورشید انور کے مشہور طربیہ گیت ’مہکی فضائیں گاتی ہوائیں، مہکے نظارے سارے کے سارے تیرے لئے ہیں‘ میں ان ہی کا بجایا ہوا پیانو ہے“ ۔ یہ گیت سپر ہٹ فلم ”کوئل“ ( 1959 ) کا ہے جسے حضرت تنویرؔ نقوی نے لکھا اور نورجہاں نے ریکارڈ کروایا تھا۔

یہ گیت بعد میں بہت سے کی بورڈ پلیئروں نے لائیو یا بعد کے آنے والے گلوکاروں کی آوازوں میں ری ریکارڈ کروایا۔ جیسے ارشاد علی، روبن جون، اظہر حسین، نزار لالانی، روح الدین خان المعروف رونی وغیرہ۔ اصل گیت میں موسیقار ا ے حمید کا بجایاہوا پیانو ہر زمانے کے سیکھنے والوں کے لئے سدا بہار سبق ہے۔ گیت کے ماحول اور بولوں کے امتزاج سے خواجہ خورشید انور نے پیانو کے جو پیس، فلاش، باریں اور ا نٹرول میوزک بنایا اس کو خواجہ صاحب کی سوچ کے قریب ترین رہ کر بجانا اے حمید ہی کا خاصا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں سلامت بھائی نے کہا: ”یہ جلد گھلنے ملنے والے نہیں تھے لیکن خوش اخلاق اور خوش مزاج تھے۔ میں اور دوسرے میوزیشن اکثر ریہرسل اور ریکارڈنگ کے بعد ان سے کہتے کہ اب آپ یہ پورا گیت پیانو پر بجائیے۔ وہ مسکرا کر جب بجاتے تو کیا میوزیشن اور کیا دیگر اسٹوڈیو ہنرمند سب ہی محظوظ ہوتے۔ ماشاء اللہ کیا انگلیاں تھیں! واقعی خالص پیانسٹ والی انگلیاں!“ ۔

موسیقار اے حمید نے تقریباً 70 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ انہوں نے پنجابی فلمیں بھی کیں، جیسے ”پنوں دی سسی“ ( 1972 ) ، فلم ”سوہنی ماہیوال ’‘ ( 1976 ) وغیرہ۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ نامور موسیقار امجد بوبی 1960 کی دہائی میں موسیقار اے حمید کے معاون رہے۔ مثلاً فلم ”شبنم“ ( 1965 ) اور فلم ”ہونہار“ ( 1966 ) ۔

موسیقار اے حمید کا فلمی سفر :

اے حمیدکی موسیقار کی حیثیت سے پاکستان میں پہلی فلم جے بی پروڈکشنز کی ”انجام“ ( 1957 ) ہے۔ اس کے مشترکہ فلمساز جعفر بخاری اور ایم اجمل قریشی، اور ہدایتکار جعفر بخاری تھے۔ اس فلم کی گیتوں کی تفصیل تو ملتی ہے لیکن کوئی گیت دستیاب نہ ہو سکا۔ مذکورہ فلم میں 7 گیت تھے۔ ان میں 3 مشیرؔ کاظمی، 2 ساغرؔ صدیقی، 1 سکندر بہزاد طالب اور 1 سیف الدین سیفؔ نے لکھا۔ گلوکاروں میں کوثر پروین، پکھراج پپو اور زبیدہ خانم شامل تھے۔

تحقیق کے مطابق اس فلم میں بے مثال شاعر جناب ساغرؔ صدیقی کے بھی یہ دو عدد گیت شامل تھے : ’شام جدائی، تیری دہائی، دل کے لہو سے، آنکھ بھر آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ اسے کوثر پروین نے صدا بند کروایا تھا۔ دوسرا گیت: ’چاند چمکا تھا پیپل کی اوٹ سے، سکھی رات کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ۔ ساغرؔ اس سے پہلے بھارتی فلموں کے بھی گیت لکھ چکے تھے۔

فلم ”بھروسا“ ( 1958 ) اور فلم ”فیصلہ“ ( 1959 ) بھی موسیقار اے حمید کی ابتدائی فلمیں ہیں لیکن ان کے گیت صحیح معنوں میں قبول عام حاصل نہ کر سکے۔

کراچی کی بننے والی سلور جوبلی فلم ”رات کے راہی“ ( 1960 ) وہ فلم ہے جس نے اے حمید کی بطور موسیقار شناخت دی۔ اس فلم کی کچھ خاص خاص باتیں : یہ کراچی فلمی دنیا کی شروع کی کامیاب ترین فلموں میں شامل ہے۔ اداکار ابراھیم نفیس کی یہ پہلی فلم ہے۔ تمام گیت فیاضؔ ہاشمی نے اور مکالمے ابراھیم جلیس نے لکھے۔ زبیدہ خانم کے اس فلم میں سپر ہٹ گیت تھے۔ عکاسی ریاض بخاری نے کی جنہوں نے آگے چل کر زبیدہ خانم سے شادی کر لی۔

مونٹینا فلمز کے بینر تلے بننے والی مذکورہ فلم کے مشترکہ فلمساز اقبال شہزاد اور نور الدین کیسٹ اور ہدایتکار ایس ایم یوسف تھے۔ فلم کے لازوال گیت : ’اے بادلوں کے راہی کس کا پیغام لایا، کہتی ہے دل کی دھڑکن ان کا سلام آیا‘ آواز زبیدہ خانم۔ فلم کاسپر ہٹ سدا بہار گیت: ’کیا ہوا دل پہ ستم۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ تھا۔ اس گیت کے بارے میں پاکستانی فلمی صنعت اور پاکستان ٹیلی وژن کے نامور بانسری کے استاد سلامت حسین صاحب نے مجھ کو بتا یا : ”۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاہور سے موسیقار اے حمید کراچی میں اقبال یوسف کی فلم ’رات کے راہی‘ کے گانے ریکارڈ کرنے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے بلوا کر زبیدہ خانم کی آواز میں فیاضؔ ہاشمی کا یہ سپر ہٹ گیت ریکارڈ کرایا :

کیا ہو ا دل پہ ستم تم نہ سمجھو گے بلم
بے وفا نہیں ہیں ہم، اس محبت کی قسم
” اس گیت میں میری بجائی ہوئی بانسری ہے“ ۔

ایف ا ینڈ وائی فلمز کے مشترکہ فلمساز ایف ایم سردار اور ایس ایم یوسف، اور ہدایتکار ایس ایم یوسف کی گولڈن جوبلی فلم ” سہیلی“ ( 1960 ) میں کئی ایک گیت سدا بہار ہیں : ’کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، خبر کیا تھی کہ یہ انجام ہو گا دل لگانے کا‘ آوازیں سلیم رضا اور نسیم بیگم، ’ہم بھول گئے رے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے، کیا کیا ہوا دل کے ساتھ مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘ آواز نسیم بیگم۔ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ ہماری ”سہیلی“ کی ریلیز کے 29 سال بعد بھارتی فلمساز و ہدایتکار ساون کمار نے فلم ’‘ سوتن کی بیٹی ”27 جون 1989 کو نمائش کے لئے پیش کی۔

اس فلم میں لتا منگیشکر کا ایک گیت ’ہم بھول گئے رے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘ ، اس بھارتی گیت میں استھائی کے بول اور دھن ہماری والی ہی رکھی گئی ہے البتہ موسیقار ’وید پال‘ نے انترا اور سنچائی بدل دی۔ ساون کمار ہی نے یہ گیت لکھا۔ موصوف نامور بھارتی خاتون موسیقار اوشا کھنہ کے شوہر بھی رہے بعد میں ان میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ فلم“ سہیلی ”کے اور بھی گیت مقبول ہوئے : ’ہم نے جو پھول چنے دل میں چبھے جاتے ہیں، کتنے پیارے ہیں جو غم ہنس کے سہے جاتے ہیں‘ آواز نسیم بیگم۔ اس فلم میں شادی بیاہ کا ایک ایسا گیت ہے جو آج بھی لڑکیاں ڈھولک پر گاتی ہیں : ’مکھڑے پہ سہرا ڈالے آ جاؤ آنے والے، چاند سی بنو میری تیرے حوالے‘ آواز نسیم بیگم اور ساتھی۔

ایف ا ینڈ وائی فلمز کے مشترکہ فلمساز ایف ایم سردار اور ایس ایم یوسف، اور ہدایتکار ایس ایم یوسف کی گولڈن جوبلی فلم

” اولاد“ ( 1962 ) کی کہانی اور گیت فیاضؔ ہاشمی نے لکھے۔ یہ ایک عورت کی بیوی اور ماں کی حیثیت سے جدوجہد اور قربانی کی کہانی ہے۔ اس فلم میں وحید مراد پہلی مرتبہ حبیب اور نیر سلطانہ کے بیٹے کے کردار میں نظر آئے۔ کہانی میں خود ان کے بچپن کے کردار کو ستیش آنند نے ادا کیا۔ یہ ایور یڈی پکچرز کے آنجہانی جگدیش چند آنند المعروف جے سی آنند کے بیٹے ہیں۔ جے سی آنند نہایت ملنسار اور پیارے شخص تھے۔ پی ٹی وی کراچی میں، میں ان کے تقسیم کار ادارے سے بہت سے فلمی گانے اور فلمیں پی ٹی وی کے لئے لایا کرتا تھا۔

فلم ”اولاد“ کے گیت پاکستانی فلمی تاریخ کے سنہری گیت ہیں : ’تم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا عورت سے ہمیں یہ کہنا ہے، اولاد تمہاری دولت ہے تعلیم تمہارا گہنا ہے‘ آواز نسیم بیگم، ’تم ملے پیار ملا اب کوئی ارمان نہیں، شکریہ آپ کا یہ پیار ہے احسان نہیں‘ آوازیں منیر حسین اور نسیم بیگم، ’نام لے لے کے تیرا ہم تو جئیے جائیں گے، لوگ یوں ہی ہمیں بدنام کیے جائیں گے‘ آواز نسیم بیگم، قوالی کا انداز: ’لا الہ الا اللہ حق لا الہ الا اللہ فرما دیا کملی والے نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آوازیں منیر حسین، سلیم رضا، سائیں اختر حسین اور ہم نوا۔

نگار پکچرز کے فلمساز راشد مختار اور ہدایتکار ایس اے حافظ کی گولڈن جوبلی فلم ”توبہ“ ( 1964 ) اپنی ’کایا پلٹ قوالی‘ کی وجہ سے آج بھی پہچان رکھتی ہے : ’نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے، سہارا ہی نہ تھا کوئی ہمارا ہم کہاں جاتے‘ آوازیں منیر حسین، سلیم رضا آئرین پروین، سائیں اختر حسین اور ہم نوا۔ سائیں اختر حسین کا تعلق موسیقی کے ربابی خاندان سے ہے۔ کبھی انشاء اللہ ان پر بھی بات ہو گی۔ نورجہاں کی آواز میں ایک گیت عوام میں بہت مقبول ہوا: ’او رے صنم دل یہ کیسے بتائے، پیار میں بیری ہو گئے اپنے پرائے‘ ۔ اس فلم کے تمام گیت فیاضؔ ہاشمی کے تھے۔

ایف اینڈ وائی موویز کے مشترکہ فلمساز ایف ایم سردار اور ایس ایم یوسف، اور ہدایتکار نذیر اجمیری کی سلور جوبلی فلم ”پیغام“ ( 1964 ) میں فیاضؔ ہاشمی کے دو گیت یادگار ہیں : ’تیری خاطر جل رہے ہیں کب سے پروانے، پیار کیا ہے کیا بتائیں تجھ کو دیوانے‘ آواز نورجہاں اور ’جفاؤں کی ہم کو سزا تو نہ دو گے، بس اتنا بتا دو بھلا تو نہ دو گے‘ آوازیں مالا، نسیم بیگم اور ساتھی۔

ایف اینڈ وائی موویز کے مشترکہ فلمساز ایف ایم سردار اور ایس ایم یوسف، اور ہدایتکار ایس ایم یوسف کی سلور جوبلی فلم ” آشیانہ“ ( 1964 ) کے کچھ گیت اب تک مقبول ہیں جو فیاضؔ ہاشمی نے لکھے : ’بڑے سنگدل ہو بڑے ناسمجھ ہو تمہیں پیار کرنا سکھانا پڑے گا‘ آوازیں احمد رشدی اور مالا، ’جا رے بیدردی تو نے کہیں کا ہمیں نہ چھوڑا، جس دل میں تو ہی تو تھا اس دل کو تو نے توڑا‘ آواز مالا، ’جی دیکھا جو انہیں دل نے، چپکے سے کہا ہائے، اس بات کا ڈر ہے یارو کہیں پیار نہ ہو جائے‘ آوازیں احمد رشدی اور مالا، ’جو دل کو توڑتے ہیں ان کا بھی جواب نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز منیر حسین۔

نگار پکچرز کے فلمساز راشد مختار اور ہدایتکار ایس اے حافظ کی سلور جوبلی فلم ”شبنم“ ( 1965 ) کے گیت، مکالمے اور منظر نامہ فیاضؔ ہاشمی نے لکھا۔ اس فلم کے بعض گیت قبول عام ہوئے : ’چن لیا میں نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا، پیار نہ کرنا یہ ہی کہتا رہا کہنے دیا‘ آواز نورجہاں، ’جو کسی کے قریب ہوتے ہیں، وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں‘ آواز سلیم رضا۔

ایف اینڈ وائی موویز کے مشترکہ فلمساز ایف ایم سردار اور ایس ایم یوسف، اور ہدایتکار ایس ایم یوسف کی سلور جوبلی فلم ” عید مبارک“ ( 1965 ) کے معاون کیمرہ مین جان محمد تھے جنہوں نے آگے چل کر عکاسی، فلمسازی اور ہدایتکاری میں بڑا نام کمایا۔ اس فلم میں فیاضؔ ہاشمی کی نعت بہت مقبول ہوئی۔ اب بھی خواتین کی محفل میلاد میں پڑھی جاتی ہے : ’رحم کرو یا شاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم، نظر کر م یا نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم‘ نمایاں آوازیں مالا، نذیر بیگم اور ہم نوا۔ یہ نعت ریڈیو پر بہت مقبول تھی اور آج بھی رمضان اور ر بیع الاول میں ریڈیو پاکستان اور ایف ایم اسٹیشنوں پر سنوائی جاتی ہے۔

نگار پکچرز کے فلمساز راشد مختار اور ہدایتکار قدیر ملک کی سلور جوبلی فلم ”میں وہ نہیں“ ( 1967 ) کی کہانی علی سفیان آفاقیؔ اور تمام گیت حمایتؔ علی شاعر نے لکھے۔ ’نوازش کرم شکریہ مہربانی، مجھے بخش دی آپ نے زندگانی‘ ، آواز مہدی حسن۔ یہ ان کے بہترین نغمات میں سے ایک ہے۔

ایس ایم وائی موویز کے فلمساز اور ہدایتکار ایس ایم یوسف کی سلور جوبلی فلم ”سہاگن“ ( 1967 ) کی کہانی ابراہیم جلیس نے اورتمام گیت فیاضؔ ہاشمی نے لکھے۔ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کراچی سے معروف سیگریٹ کمپنی کا پروگرام ’کیپسٹن ہٹ پریڈ‘ بہت مقبول تھا۔ مذکورہ فلم میں مہدی حسن کی آواز میں گیت: ’اے دنیا کیا تجھ سے کہیں جا چھیڑ نہ ہم دیوانوں کو، پگھلی ہوئی اس آگ میں جل کر مرنے دے پروانوں کو‘ کئی ایک ہفتے پہلے نمبر پر رہا۔ اس کے علاوہ بھی دن بھر یہ گیت کئی مرتبہ لگتا تھا کہ مجھے یہ گیت بولوں، اینڑول میوزک اور باروں کے ساتھ ذہن نشین ہو گیا۔

شاہین فلمز کارپوریشن کے فلمساز گلام حیدر لون اور ہدایتکار حسن طارق کی گولڈن جوبلی فلم ”بہن بھائی“ ( 1968 ) ملٹی کاسٹ فلم تھی۔ یہ ایک ایسی ماں کی کہانی تھی جس کے پانچ بچے بچھڑ نے کے بعد عرصے بعد دوبارہ ملے تھے۔ اس فلم کے کچھ گیت مشہور ہوئے : ’ہیلو ہیلو مسٹر عبد الغنی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ مزاحیہ گیت سیف الدین سیفؔ، آوازیں آئرین پروین اور احمد رشدی، ’کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا، میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا‘ گیت (غالبا) فیاضؔ ہاشمی، آواز احمد رشدی۔

ایم وائی موویز کے فلمساز و ہدایتکارایس ایم یوسف کی سلور جوبلی فلم ”شریک حیات“ ( 1968 ) کے بعض گیت امر ہو گئے : ’بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی، جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی‘ غزل بہادر شاہ ظفرؔ، آواز مہدی حسن،

’ کسے آواز دوں تیرے سوا ڈھونڈ رہا ہے تجھے پیار میرا‘ گیت نگار فیاضؔ ہاشمی، آواز مالا، ’تیرے لئے او جان جاں لاکھوں ستم اٹھائیں گے، یوں ہی سہیں گے درد و غم زخم جگر چھپائیں گے‘ غزل فیاضؔ ہاشمی، آواز نورجہاں۔

ایس ایم وائی موویز کے فلمساز و ہدایتکار ایس ایم یوسف کی سلور جوبلی فلم ”بہو رانی“ ( 1969 ) کا ایک گیت ریڈیو پر بہت نشر ہوا: ’تقدیر کی گردش پہ نہ رو اے میرے محبوب، رونے سے بدلتے نہیں حالات کسی کے‘ ۔

70 کی دہائی موسیقار اے حمید کے لئے تازگی کا باعث بنی۔ پنجاب پکچرز کے فلمساز اعجاز درانی اور ہدایتکار شریف نیر کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ”دوستی“ ( 1971 ) کا کچھ احوال ہو جائے۔ اس کی کہانی علی سفیان آفاقیؔ نے لکھی جس کی عکسبندی لندن میں ہوئی۔ اس فلم کے گیت آج بھی اپنی مثال آپ ہیں : ’آ رے آ رے دل کے سہارے، دل کی ہر دھڑکن تجھ کو پکارے‘ گیت نگار کلیم ؔ عثمانی، آواز یں نورجہاں اورمجیب عالم، ’بس گیا تو سوتنیا کے دوار سجنا، کہاں ہے تیرا پیار سجنا‘ گیت قتیلؔ شفائی، آواز نورجہاں،

’ چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے، حال میرے دل کا تمام لکھ دے‘ ، گیت نگار حضرت تنویرؔ نقوی، آواز نورجہاں، ’روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلی آئی‘ گیت کلیمؔ عثمانی، آواز نورجہاں، ’یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں پوچھتی ہیں کب بنے گی تو دلہن، میں کہوں جب آئیں گے میرے سجن۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ گیت قتیلؔ شفائی، آواز نورجہاں۔

سیٹیزن فلمز کے فلمساز ملک حسین اور ہدایتکار ریاض شاہد کی فلم ”غرناتا“ ( 1971 ) کی کہانی نامور شخصیت جناب نسیم حجازی نے لکھی۔ گیت حضرت تنویرؔ نقوی، مکالمے اور منظر نامہ خود ریاض شاہد نے لکھا تھا۔ ’کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، کیوں تم کو دیکھتے ہی دل کھو گیا ہمارا‘ آواز نورجہاں، ’میں ہوں یہاں تو ہے وہاں، ہیں درمیاں یہ فاصلے یہ دوریاں‘ آواز مہدی حسن۔

مشترکہ فلمساز مسعود پرویز اور اداکار اعجاز درانی، اور ہدایتکار مسعود پرویز نے سپر ہٹ فلم ”ہیر رانجھا“ ( 1970 ) بنائی تھی۔ اس نے لاہور میں گولڈن اور کراچی میں سلور جوبلیاں کی تھیں۔ اب انہوں نے 1972 میں اسی ڈگر پر چلتے ہوئے پنجابی فلم

” پنوں دی سسی“ بنائی۔ اپنی ٹیم میں موسیقار خورشید انور کے بجائے اے حمید کا انتخاب کیا گیا۔ یہ فلم کامیاب نہ ہو سکی۔ لیکن اس میں گیتوں پر بڑی محنت کی گئی تھی: ’اٹھ جاگ نی سسیے، ستی ایں، تیر ا لٹیا ای شہر بھنمبھور۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ گیت احمدؔ راہی، آواز مسعود رانا،

’ تیرے ملنے دی آس لے کے میں ٹر پیئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آوازیں رونا لیلیٰ اور مسعود رانا۔

گلستان پکچرز کے فلمساز فصیح الدین کشمیر والا اور ہدایتکار فرید احمد فلم ”خواب اور زندگی ’‘ ( 1973 ) کا ایک گیت عوام نے بہت پسند کیا: ’میرا کچھ حق تو نہیں ہے تیرے جلوؤں پہ مگر، میں تجھے جان وفا پیار تو کر سکتا ہوں‘ گیت قتیلؔ شفائی، آواز مہدی حسن۔

فلمساز بیگم احد ملک اور ہدایتکار فیاض شیخ کی فلم ”زخمی“ ( 1973 ) کا ایک گیت میرے مطابق موسیقار اے حمید اور گیت نگار حبیب جالبؔ کے خوبصورت ترین گیتوں میں سے ایک ہے : ’اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے، یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے‘ ، آواز مہدی حسن۔

پرویز پروڈکشنز کے فلمساز ناصر بخاری اور ہدایتکار اور کیمرہ مین جعفر بخاری کی سلور جوبلی فلم ”سماج“ ( 1974 ) کی کہانی ریاض شاہد نے لکھی۔ اس فلم کے یوں تو کچھ گیت بہت مقبول ہوئے لیکن ایک گیت آج بھی بے مثال ہے : ’چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں دنیا کے رسم و رواج چھوڑ دیں، سب سے نرالی ہو ہماری داستاں پیار کی کہانیوں کے رخ موڑ دیں ”، آوازیں مہدی حسن اور مالا۔

فلمساز جمیلہ بخاری اور ہدایتکار و عکاس جعفر بخاری کی فلم ”جواب دو“ ( 1974 ) میں حضرت تنویرؔ نقوی کا ایک گیت خاص و عام میں مقبول ہوا۔ اسے نورجہاں اور مہدی حسن نے الگ الگ صدا بند کروایا: ’زندگی جا چھوڑ دے پیچھا میرا، آخر میں انسان ہوں پتھر تو نہیں‘ ۔

مغل فلم کارپوریشن کے فلمساز حسن شاہ اور ہدایتکار حسن طارق کی فلم ”ثریا بھوپالی“ ( 1976 ) کے تمام گیت سیف الدین سیفؔ نے قلم بند کیے : ’جس طرف آنکھ اٹھاؤں تیری تصویراں ہے، نہیں معلوم یہ خواباں ہیں کہ تعبیراں ہیں‘ آواز ناہید اختر، قوالی کی طرز کا گیت ’تھا یقین کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز ناہید اختر۔

ظفر آرٹس پروڈکشنز کے فلمساز و ہدایتکار ظفر شباب کی پلاٹینم جوبلی فلم ”آواز“ ( 1978 ) کی کہانی شبابؔ کیرانوی نے جبکہ مکالمے ریاض الرحمن ساغر نے لکھے۔ اس فلم کا ایک گیت بے حد مقبول ہوا: ’تو میرے پیار کا گیت ہے تو میرے دل کی آواز ہے، میرے ہونٹوں پہ نغمے تیرے میرے نغموں کا تو ساز ہے‘ گیت نگار شبابؔ کیرانوی، ۔ یہ گیت فلم میں 3 جگہ تین مختلف آوازوں میں ہے : مہدی حسن، ناہید اختر اور اسد امانت علی خان۔ عوام اور ریڈیو پر یہ تینوں ہی گیت یکساں مقبول رہے۔

حسین پکچرز کے فلمساز خالد حسین اور ہدایتکار خالد خورشید کی فلم ”نیا انداز“ ( 1979 ) کے کچھ گیت تو اپنے وقت کے مقبول ترین گیت تھے : ’دے رہی ہے مزا بے رخی آپ کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز نورجہاں، ’ضد نہ کر اس قدر جان جان، جو مزہ مسکرانے میں ہے وہ مزہ روٹھنے میں کہاں‘ ، آواز اے نیر۔ میرے مطابق یہ گیت اے نیر کے کامیاب ترین گیتوں میں سے پہلے تین میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس فلم کے تمام گیت قتیلؔ شفائی نے لکھے۔

فلمساز اے مجید اور ہدایتکار حسن طارق کی سلور جوبلی فلم ”وطن“ ( 1981 ) کے گیت مقبول نہ ہو سکے۔ ایور نیو پکچرز کے فلمساز ایس اے گل اور ہدایتکار حسن طارق کی سپر ہٹ ڈائمنڈ جوبلی فلم ”سنگدل“ ( 1982 ) کے نغمات بھی مقبولیت نہ حاصل کر سکے۔ فلمساز ایس اے گل اور خاتون ہدایتکار وحیدہ خان کی فلم ”کرائے کے گوریلے“ ( 1984 ) کے گیت بھی مشہور نہ ہو سکے۔ فلمساز و ہدایتکار ظفر شباب کی سلور جوبلی فلم ”مہک“ ( 1985 ) کے گیتوں کے ساتھ بھی یہ ہی کچھ ہوا۔ فلمساز اور ہدایتکار شریف نیر کی فلم ”جھومر چور“ ( 1986 ) کے گیت سیف الدین سیفؔ نے لکھے لیکن افسوس ہے کہ یہ عوامی مقبولیت حاصل نہ کر سکے۔

قیصر پروڈکشنز کی پاکستان، بنگلہ دیش اور برطانیہ کی مشترکہ فلم کی جانب سے فلمساز حسن شاہ اور ہدایتکار ایس سلیمان کی سلور جوبلی فلم ”لو ان لنڈن“ ( 1987 ) کے گیت وہ پذیرائی حاصل نہ کر سکے جو اے حمید کے گیتوں نے 1970 کی دہائی میں پائی تھی۔ فلمساز و ہدایتکار جعفر علی شاہ بخاری کی فلم ”ڈسکو د یوانے“ ( 1988 ) موسیقار اے حمید کی (غالباً ) آخری فلم ہے۔ یہ فلم اور اس کے گانے مشہور نہ ہو سکے۔ لگتا ہے اس پس منظر میں وہ سنجیدگی سے لاہور چھوڑنے کا سوچنے لگے۔

موسیقار اے حمید کو فلم ”دوستی“ ( 1971 ) کے گیت : ’چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے، حال میرے دل کا تمام لکھ دے‘ پر سال کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔

موسیقار اے حمید نے تقریباً سب ہی نامور فلمساز اور ہدایتکاروں کے ساتھ کام کیا۔ جیسے : جعفر بخاری، ایس ایم یوسف، خا لد خورشید، ایس سلیمان، اقبال شہزاد، نورالدین کیسٹ، ایف ایم سردار، راشد مختار، ایس اے حافظ، نذیر اجمیری، قدیر ملک، حسن طارق، شریف نیر، ریاض شاہد، مسعود پرویز، ظفر شباب، فرید احمد، حسن شاہ، بیگم احد ملک، فیاض شیخ، ناصر بخاری اور دوسرے۔

اے حمید نے جن گیت نگاروں کے ساتھ زیادہ کام کیا وہ یہ ہیں : سیف الدین سیفؔ، مشیرؔ کاظمی، جناب ساغر ؔصدیقی، قتیل ؔشفائی، فیاضؔ ہاشمی، حمایت ؔ علی شاعر، کلیمؔ عثمانی، حضرت تنویرؔ نقوی، احمدؔ راہی، حبیب جالبؔاور شباب ؔ کیرانوی۔

موسیقار اے حمید 80 19 کے آخر میں پاکستانی فلمی دنیا کے مرکز لاہور چھوڑ کر راولپنڈی میں نیشنل کونسل آف آرٹس، ا سلام آباد سے منسلک ہو گئے۔ اس وقت یہاں خالد سعید بٹ ہوا کرتے تھے۔ سلامت بھائی بھی ایک عرصہ اس ادارے سے وابستہ رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسیقار اے حمید یہاں بہت لگن سے موسیقی سکھاتے تھے۔ میں ( راقم) اس زمانے میں کرپی ٹی وی کراچی مرکز میں تھا۔ میں اپنے پی ٹی وی کے زمانے کے بیچ فیلو پروڈیوسر شاکر عزیر سے ملنے دو تین مرتبہ پاکستان ٹیلی وژن اسلام آباد مرکز گیا۔ میں نے ان سے موسیقار اے حمید سے ملاقات کی خوہش بھی ظاہر کی لیکن کسی نہ کسی وجہ سے یہ ملاقات نہ ہوسکی۔ البتہ لوک گلوکار طفیل نیازی ( 1916 سے 1990 ) سے ملاقات ہو گئی۔

پاکستانی فلموں کے سنہری دور کا یہ دمکتا تارا 20 مئی 1991 کو راولپنڈی کے ڈھوک کھبہ قبرستان میں غروب ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments