قرضے، حکومت اور عوام: چند مغالطے


ہمارے ملک میں اس وقت یہ بیانیہ عام ہے کہ ہمیں قرضوں نے کنگال کر دیا ہے۔ یہ آدھا سچ ہے۔ بعض اوقات آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ذرا غور کیجئے۔ آج سے چالیس سال پہلے جنرل ضیا الحق کی ولولہ انگیز قیادت نے ہمیں امریکی سرپرستی میں ایک عالمی ‘جہاد’ کے معرکہ میں داخل کر دیا۔ ہم امریکی محاز کی صف اوّل میں شامل ہو گئے۔ چین اس وقت امریکہ کے مخالف کیمپ کا حصہ تھا۔ ہمارا اور چین کا پڑوسی ملک بھارت روس کے قریبی اتحادیوں میں تھا۔ اس کا روس سے دفاعی معاہدہ بھی تھا۔ ہم اگلے چالیس سال ایک سلسلہ وار جہاد میں مصروف رہے۔ اور چین امریکی سرمائے کی مدد سے ایک اکنامک سپر پاور بن گیا۔ ہندستان امریکی سرمائے کی مدد سے ایک علاقائی طاقت بن گیا ہے۔ ہمارے جہادی رفیق سعودی عرب نے بھی ہندستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ہم اپنے ‘ دوستوں’ کے قرضوں کا سود ادا کرنے کے بھی قابل نہیں اور ان کے مخالف ان کی مدد سے ان کے ہم پلہ ہونے جا رہے ہیں۔ وجہ سادہ ہے، ہم نے اپنے ملک کو چالیس سال تک میدان جنگ بنائے رکھا۔ یہاں کوئی ایک دھیلہ بھی لگانے کو کیسے تیار ہوتا۔ ہم نے ستر ہزار لوگ قربان کئے۔ امریکہ کے لئے روس اور مشرقی یورپ کی مارکیٹ کھول دی اور چین اور ہندستان کے لئے امریکی اور یورپی مال کی منڈیاں۔ ہمارے کنگال ہونے کا تعلق میدان جنگ بننے سے ہے یا قرضے لینے سے۔ باہر کا سرمایہ نہیں آئے گا تو قرضہ ہی آئےگا۔

اب قرضوں اور سرمایہ کاری کے فیصلوں کو لیجئے۔ ان پر پارلیمنٹ میں پوری بحث نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ بجٹ کا بہت بڑا حصہ قومی ‘راز’ میں شمار کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ روس کے امریکہ سے سرد جنگ کے عروج کے دنوں میں روسی انٹیلی جنس 75 فیصد معلومات ذرائع عامہ سے حاصل کرتی تھی اس کے باوجود امریکی حکومت نے حساس معلومات کا جواز بنا کر خبروں اور مکالمے پر پابندی نہیں لگائی تھی۔ یہاں تک کہ ایک انڈر گریجویٹ طالبعلم نے لائبریری میں مطالعہ کر کے ہاتھ سے چلنے والے ایٹم بم بنانے کا طریقہ معلوم کر لیا تھا۔ جولین اسانجے، ایڈورڈ سنوڈن اور پانامہ لیک کے زمانے میں کوئی راز قومی راز نہیں۔ قومی راز لوگوں کو الو بنانے کا فارمولا ہے۔ ہم سرمایہ کاری کے لئے ملک نہیں کھولیں گے۔ اور بجٹ پر بحث مباحثہ نہیں کھولیں گے تو قرضے نہیں اتریں گے۔ ٹیکس نہیں ملے گا۔ فلاحی ریاست نہیں بنے گی۔ بھتہ خوروں اور قبضہ گروپوں نے ٹیکس نہیں دینا۔ لوٹے ہوئے مال کو واپس لانے کیلئے اصل مال سے زیادہ خرچ ہو جائے تو ایسے ہی ہے کہ ایک شخص نے مکان سے قبضہ چھڑانے کے لئے وکیل کیا۔ مکان تو واپس مل گیا لیکن وکیل کی فیس میں پورا مکان اسے دے دیا۔ قرضے اتارنے کا طریقہ امن اور سپیشل اکنامک زون ہیں جہاں سرمایہ آئے، کاروبار بڑھے، نوکریاں ملیں۔

قرضوں کے بعد دوسرا مغالطہ یہ ہیےکہ حکومت کی طاقت سے سب کام ہو سکتے ہیں۔ پچھلے دو سال میں یہ مغالطہ سب پہ ظاہر ہو گیا ہے۔ لیکن اس کی وضاحت ضروری ہے۔ حکومت سرکاری افسران اور سیاستدان چلاتے ہیں۔ سرکاری افسران دو طرح کے کام عوامی خدمت کے لئے کرتے ہیں۔ انفرا سٹرکچر بنانا اور اس کے ذریعے لوگوں کو روز مرہ کی سروسز مہیا کرنا۔ انفرا سٹرکچر بنانے کے لئے سب سے بنیادی ضرورت نقشہ ہے۔ پاکستان کی کسی شہری حکومت کے پاس اپنے شہر کا مکمل اور تازہ نقشہ موجود نہیں ہے۔ سب انجنیئر اپنے کمرے میں بیٹھ کر تخمینے لگاتے ہیں۔ ایک کتاب میں ڈیزائن کی بنی بنائی تفصیلات ہوتی ہیں اور بلیو بک میں قیمتیں۔ اس لئے اکثر سکیمیں بننے کے بعد چلتی نہیں۔ اس کا تفصیلی ذکر آئندہ نشست میں کروں گا۔ مزید وجوہات بھی بتاؤں گا۔ اس وقت اتنا بتانا کافی ہے کہ ہمارے ملک میں چار ہزار کے لگ بھک پانی کی سکیمیں بند پڑی ہیں جو اربوں روپے کے خرچ سے بنی ہیں۔ ان پیسوں کو واپس کون لائے گا؟ پانی کی سکیمیں بنانے کے تین طریقے ہیں۔ فیصلہ سیاستدان کے ہاتھ میں ہو تو وہ اپنے ووٹروں کے دھڑے کے علاقے میں سکیمیں لگواتے ہیں۔ ایک شہر جہاں چار سکیموں کی ضرورت تھی وہاں پنتالیس سکیموں کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔

افسران اس جگہ سکیمیں لگواتے ہیں جہاں بجٹ زیادہ خرچ ہو۔ عوام نے فیصلہ کرنا ہو تو وہ ضرورت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ سول حکومت ہو تو سیاستدان فیصلہ کرتے ہیں۔ فوجی حکومت ہو تو افسر فیصلہ کرتے ہیں۔ قرضے کا پروجیکٹ ہو تو کبھی کبھار لوگوں سے بھی پوچھ لیتے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی شہری حکومت کے پاس کوئی نقشے نہیں لیکن سروے آف پاکستان کے پاس تمام نقشے ہیں۔ لیکن انہیں قومی اہمیت کا ‘راز’ سمجھ کر غیر ذمہ دار شہری حکومتوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ روس، ہندستان، فرانس، امریکہ، برطانیہ تمام ملکوں کے سیٹلائٹ وینڈرز کے پاس ہمارے ملک کے چپے چپے کے نقشے موجود ہیں۔ ہمارے مسئلوں کا حل ڈنڈے کی طاقت میں نہیں، اخلاقیات اور عقل کی طاقت میں ہے۔

اب آئیے تیسرے معاملے کی طرف۔ جب حکومتی ناکامیوں کی ذمہ داری ڈالنی ہو تو اس کا آسان بیانیہ یہ ہے کہ عوام جاہل ہیں۔ یہ ایک نہایت بودی اور بے سوچی سمجھی دلیل ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ علم کا مطلب حرف شناسی نہیں، حق شناسی اور حقیقت شناسی ہے۔ زندگی حقیقت ہے، لفظ اس کاعکس ہوتے ہیں۔ زندگی کی سوجھ بوجھ رکھنے والا عکس کو پہچاننے والے سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کے ‘ جاہل’ عوام کو 75 فیصد نوکریاں انفارمل سیکٹر نے دی ہیں۔ انفارمل سیکٹر کے تمام کاروبار، گھر، سکول، شفاخانے، پانی، سینی ٹیشن اور ٹرانسپورٹ کے نظام لوگوں نے اپنے سرمائے، مہارت، تجربے اور مہارت کی بنیاد پر بنائے ہیں۔ ان میں پڑھے لکھے لوگوں کا کوئی ہاتھ نہیں۔ کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں لیا۔ وہ ضرورت کی تمام اشیا خریدنے پر ان ڈائریکٹ ٹیکس بھی دیتے ہیں۔ بھتہ بھی دیتے ہیں۔ کمرشل اور سرکاری بنکوں سے قرضہ بھی نہیں لے سکتے۔ اور پھر بھی اپنی ضرورتیں خود پوری کرتے ہیں۔ ان کے پاس جو علم ہے وہ پڑھے لکھوں سے بڑھ کر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments