انڈیا چین سرحدی کشیدگی میں روس آخر کس کا ساتھ دے گا؟


انڈیا چین اور روس

انڈین وزیر اعظم مودی چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر پوتن کے ساتھ

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ روس کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ اس دوران وہ روسی فوجی عہدیداروں سے بات چیت کریں گے اور دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کے خلاف سوویت فتح کی 75 ویں برسی کی یاد میں ایک عظیم فوجی پریڈ میں بھی شرکت کریں گے۔

کووڈ 19 کی وبا اور چار ماہ کی سفری پابندی کے بعد کسی سینیئر مرکزی وزیر کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا یہ دورۂ روس ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب لداخ میں چین کے ساتھ انڈیا کا تعطل جاری ہے۔

راج ناتھ سنگھ نے پیر کو ماسکو روانگی سے قبل ایک ٹویٹ کیا۔

انھوں نے لکھا: ‘میں ماسکو کے لیے تین روزہ دورے پر روانہ ہورہا ہوں۔ یہ دورہ انڈیا روس کی دفاعی اور سٹریٹجک شراکت داری کو مستحکم کرنے کے لیے بات چیت کا ایک موقع فراہم کرے گا۔’

یہ بھی پڑھیے

’انڈیا دنیا کی چوتھی بڑی جنگی طاقت بن گیا‘

’چین انڈیا کی این ایس جی کی رکنیت پر بات کرنے پر رضامند’

انڈیا اور چین: ایشیا کی دو بڑی طاقتیں خطے میں کہاں کہاں الجھی ہوئی ہیں؟

انڈین وزارت دفاع کے سینیئر عہدے داروں کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ سرحد پر تناؤ کے باوجود وزیر دفاع نے دورۂ روس ملتوی نہیں کیا کیوںکہ انڈیا کے روس کے ساتھ کئی دہائیوں سے فوجی تعلقات ہیں اور وزیر دفاع روس کے اعلی عہدیداروں کے ساتھ دونوں ممالک کے مابین فوجی تعاون بڑھانے کے لیے مختلف ملاقاتیں کرنے والے ہیں۔

وزیر دفاع کے اس دورے کو انڈین میڈیا میں انڈیا کی فوجی صلاحیت بڑھانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بہت سے اخبارات نے لکھا ہے کہ ‘لداخ میں ایل اے سی پر چین کے ساتھ جاری کشیدگی کے درمیان انڈیا کے وزیر دفاع اپنے ہتھیاروں کو مکمل طور پر مؤثر بنانے اور اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے روس گئے ہیں تاکہ چین کو ڈرایا جاسکے۔’

لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ‘انڈین حکومت دیر سے بیدار ہوئی ہے اور کووڈ 19 وبا کی وجہ سے اب روس سے انڈیا کو اسلحہ اور دفاعی نظام حاصل کرنے میں مزید وقت لگے گا لیکن وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اس کی جلد از جلد حصولیابی کے لیے روس پر زور ڈالیں گے۔

روس سے دفاعی سودے میں تاخیر

ماسکو میں موجود سینیئر صحافی ونے شکلا نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘انڈیا ایک طویل عرصے سے بہت سارے اہم دفاعی سودوں سے گریز کر رہا ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ پیسہ نہیں ہے، کبھی کوئی دوسری وجہ بتائی جاتی ہے۔ جیسا کہ ملٹی یوٹیلٹی ہیلی کاپٹروں کے معاملے میں ہوا۔ روس نے کہا کہ 60 ہیلی کاپٹرز تیار ہیں لے لیجیے اورباقی 140 ہیلی کاپٹرز انڈیا میں بنا کر دیں گے۔

لیکن انڈین بیورو کریٹس سودے بازی میں لگ گئے، کہنے لگے کہ صرف 40 ہیلی کاپٹر ہی لیں گے، پھر قیمتوں سے متعلق بات چلتی رہی اور سنہ 2014 سے اب تک اس سے متعلق فیصلہ نہ ہو سکا۔’

وینے شکلا کے مطابق ‘اگر انڈیا کے پاس یہ (ایمبولینس) ہیلی کاپٹر ہوتے تو گلوان وادی میں طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہونے والے فوجیوں کو آسانی سے بچایا جاسکتا تھا۔’

انھوں نے بتایا ‘صرف ہیلی کاپٹر واحد دفاعی سودا نہیں ہے، روس کے ساتھ رائفل بنانے کا معاہدہ ہوا تو روس نے فوری طور پر جوائنٹ وینچر کی کارروائی مکمل کی۔ امیٹھی کے پاس ایک فیکٹری بھی بنائی لیکن وہ بھی بیوروکریسی میں پھنس گئی۔ سکھوئی اور مگ طیارے انڈین فضائیہ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کے خریدنے کا عمل بھی رکا ہوا ہے اور جب تک مصیبت نہیں آتی ہے وہ پھنسی ہی رہتی ہیں۔ لہذا جو سرمایہ کاری کر رہا ہے اپنی تکنیک دے رہا ہے اس کی قدر نہیں کی جاتی ہے۔ یہ معاملہ روس کی جانب سے انڈیا کی موجودہ حکومت کے سامنے رکھا گیا ہے اور سرمایہ کاروں نے بھی حکومت کی سنجیدگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ لہذا تاخیر حکومت ہند کی وجہ سے ہے۔’

ایس 400

روس کا دفاعی نظام ایس 400 زمین سے فضا میں مار کرنے والا اعلی ترین نظام ہے

روس کا ایس-400 دفاعی نظام

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے روس روانہ ہونے کے بعد سے ہی، ایس-400 دفاعی نظام سے متعلق بات چیت ہو رہی ہے۔

کچھ میڈیا رپورٹس میں دعوی کیا گیا ہے کہ روس نے اس دفاعی نظام کی فراہمی کی تاریخ کو آگے بڑھا دیا ہے جو کہ انڈیا کے لیے باعث تشویش ہے۔

انڈیا روس میں تعمیر کیے جانے والے ‘ایس-400: لانگ رینج زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل سسٹم’ خریدنا چاہتا ہے۔ ایس-400 کو دنیا کا سب سے مؤثر فضائی دفاعی نظام سمجھا جاتا ہے۔ اس میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ مثال کے طور پر یہ بیک وقت 36 مقامات پر نشانہ لگا سکتا ہے۔

چین کے پاس یہ دفاعی نظام پہلے سے ہی موجود ہے جو اس نے خود روس سے حاصل کیا ہے۔

لیکن انڈیا کو یہ دفاعی نظام حاصل کرنے میں تاخیر کا سامنا کیوں ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وینے شکلا نے کہا: ‘امریکہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر انڈیا نے روس سے یہ سسٹم خرید لیا تو وہ انڈیا پر پابندی لگائے گا۔ اس سے انڈین بینک ڈر گئے، خاص طور پر وہ بینک جن کا پیسہ امریکہ کے ساتھ تجارت میں لگا ہوا ہے۔ اس لیے ان انڈین بینکوں سے بات کرنا پڑی جنھیں امریکہ سے خطرہ نہیں۔ اس نے وقت کو برباد کیا اور ایس-400 کی پیشگی ادائیگی میں تاخیر ہوئی۔ حالانکہ روس کہہ رہا ہے کہ وہ جلد از جلد اسے انڈیا کو فراہم کرانے کی کوشش کرے گا۔’

شکلا نے بتایا کہ ‘چین سے پہلے روس نے انڈیا کو طویل فاصلے تک مار کرنے والا ایس-400 سسٹم پیش کیا تھا لیکن انڈیا اسے تب ہی خریدنے پر راضی ہوا جب چین نے اسے خرید لیا۔ چین کا اسلحے کے معاملے میں روس پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ چین نے روس میں بنائے جانے والے لڑاکا طیاروں کے انجن کی کاپی کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ روسیوں کے بنائے ہوئے جہازوں کی طرح نہیں بن سکے۔ چنانچہ چین کو اس کا لائسنس لینا پڑتا ہے اور روس اس کا کنٹرول ہمیشہ اپنے ہاتھوں میں رکھے گا۔’

‘مثال کے طور پر روس نے چین کو ایس 400 سسٹم تو دیا ہے لیکن یہ وہ نظام نہیں ہے جو وہ انڈیا کو دینے والا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ اس نے ایس-400 چین کو امریکہ سے اپنی حفاظت کے لیے دیا ہے۔ ان کی رینج کم ہے لیکن انڈیا کو وہ ایس-400 کی زیادہ لمبی رینج والے میزائل دے گا۔’

توقع کی جارہی ہے کہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے اس دورے کے اختتام پر ‘انڈیا کو ایس-400 دفاعی نظام دیے جانے’ کے بارے میں باضابطہ معلومات دی جائیں گی۔

انڈیا اور روس

انڈیا اور روس کے درمیان روایتی بہتر تعلقات رہے ہیں لیکن اس میں گذشتہ دو دہائیوں میں کمی واقع ہوئی ہے

انڈیا اور روس کے تعلقات

انڈین وزارت دفاع کے اعلی عہدیداروں کے مطابق ‘وزیر دفاع کا یہ دورہ انڈیا روس دفاعی شراکت کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین سٹریٹجک شراکت داری کو مستحکم کرنے کا بھی موقع ہے۔’

انڈیا میں روس کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ایک عام سمجھ یہ ہے کہ ‘دونوں ممالک کے مابین تاریخی تعلقات ہیں اور اگر انڈیا کا کسی بھی ملک سے جھگڑا ہوا تو روس انڈیا کی مدد کرنے آئے گا۔’

لیکن بین الاقوامی امور کے ماہر اور آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سٹریٹجک سٹڈی پروگرام کے سربراہ پروفیسر ہرش پنت کے مطابق چیزیں اتنی سہل نہیں ہیں۔

پروفیسر ہرش کا کہنا ہے کہ ‘روس کو اچھی طرح سمجھ ہے کہ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے جب کہ چین ایک طرح کی آمریت والا ملک ہے۔ اس لیے انڈیا کے ساتھ روس اپنے تعلقات کو زیادہ دوستانہ مانتا ہے اور پرانے قریبی تعلقات کی بنیاد پر یہی بات انڈیا اور روس کے ساتھ ہے۔ لیکن پچھلی دہائی میں صورتحال بدلی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ چین کے ساتھ روس کے تعلقات مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘روس کے لیے بھی صورتحال کم چیلنجنگ نہیں۔ آبادی پاکستان سے کم ہے اور اس کا رقبہ بہت زیادہ ہے جو یورپ سے ایشیا تک پھیلا ہوا ہے۔ امریکہ تو دنیا بھر میں اپنے اڈے بنا لیتا ہے لیکن روس کے لیے یہ چیلنج ہے کہ اسے ٹیکنالوجی کی مدد سے اتنے بڑے علاقے کو بچانا ہے اس لیے وہ اپنی سرحدوں کے آس پاس دشمنی کی فضا کو برداشت نہیں کرسکتا۔ روس کی مشرقی سرحد جو چین سے ملتی ہے وہان وہ کشیدگی بالکل نہیں چاہتا اور چین اسکا فائدہ اٹھاتا ہے۔ دوسری طرف روس کی امریکہ اور اس کے کچھ یورپی اتحادیوں سے بھی رسہ کشی ہے۔ ایسی صورتحال میں روس کے پاس بھی محدود آپشنز بچتے ہیں۔

‘یہاں انڈیا یہ کوشش کر رہا ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات میں نئی جہتیں لائے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اب صرف دفاع تک ہی محدود رہ گئے ہیں۔ دوسری جگہوں پر دونوں ممالک کے درمیان زیادہ اختلافات ہیں، جیسے انڈو پیسفک کی حکمت عملی پر چین اور روس ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا اور روس کے مابین مذاکرات بہت اہم ہیں۔ انڈیا چاہے گا کہ روس چین پر قدرے دباؤ ڈالے تاکہ لداخ میں چین پرسکون رہے۔’

ماسکو میں موجود انڈین سفیر نے بھی کچھ عرصہ قبل روس کے سامنے انڈیا کے خدشات رکھے تھے اور روس نے پوری یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر چین کے ساتھ انڈیا کا تنازع بڑھتا ہے تو اسے پرامن طریقے سے حل کرنے کی تمام کوششیں کی جائیں گی۔

شی جن پنگ اور صدر ولادیمیر پوتن

روس اور چین کے تعلقات روایتی طور پر حریفانہ رہے ہیں لیکن گذشتہ دنوں دونوں ممالک قریب آئے ہیں

چین اور روس کے مابین تعلقات کیسے ہیں؟

سینیئر صحافی وینے شکلا کا کہنا ہے کہ ‘روس کا کثیر قطبی دنیا کا تصور رہا ہے لیکن اس معاملے میں چین کا روس سے قدیم نظریاتی اختلاف ہے اور چین کہیں کہیں روس کو انڈیا کے زیادہ قریب سمجھتا ہے۔ اسی کے ساتھ اگر چین اور انڈیا کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو روس کی بین الاقوامی صورتحال بھی متاثر ہوگی اور یہ بات روس سمجھتا ہے۔ روس میں اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات واضح ہے کہ جس دن انڈیا ٹوٹتا ہے اس دن روس کو چین سے سب سے زیادہ پریشانی ہوگی کیونکہ وسطی ایشیا جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھا وہاں رفتہ رفتہ چین حاوی ہو رہا ہے۔

پروفیسر ہرش کے مطابق اب یہ نوبت آچکی ہے کہ ‘آج جب روس اور چین ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں تو روس کا قد چھوٹا نظر آتا ہے۔’

وہ کہتے ہیں: ‘دونوں ممالک کے مابین اب بہت ساری تجارت ہورہی ہے لیکن آج دونوں کے درمیان تعلقات ایسے ہیں کہ روس نمبر 2 یا چھوٹے شراکت دار کی حیثیت سے بھی چین کے ساتھ بخوشی کھڑا ہونے کے لیے تیار ہے۔ اس سے روس کو بھی اعتراض نہیں کیونکہ وہ امریکہ کو بڑی پریشانی سمجھتا ہے اور اس کے انتظام کے لیے چین کی مدد لینے پر بھی راضی ہے۔ لیکن انڈیا کے لیے پریشانی کچھ الگ قسم کی ہے کیونکہ چین سے نوک جھونک کے بعد روس کی مدد سے انڈیا تینوں ممالک کے درمیان ایک توازن بنانا چاہتا ہے۔’

وینے شکلا کے مطابق روس اور انڈیا کے درمیان ہونے والے معاہدوں میں ایک نکتہ یہ موجود ہے کہ اگر دونوں ممالک کی سلامتی کے سامنے کوئی چیلنج آتا ہے تو دونوں ممالک ایک دوسرے سے مشاورت کریں گے۔ وزیر دفاع کے دورہ روس کو بھی اس تناظر سے دیکھا جاسکتا ہے۔

کیا روس انڈیا کے لیے چین پر دباؤ ڈال سکتا ہے؟

سوشل میڈیا پر ایک گروپ کا خیال ہے کہ انڈیا کے کہنے پر روس چین کو ‘دھمکی’ دے سکتا ہے اور اسے کنٹرول کرسکتا ہے لیکن پروفیسر ہرش اس سے متفق نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘روس ایک کمزور طاقت ہے، جسے کھڑے ہونے کے لیے چین کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ روس کی معاشی حالت خراب ہے اور اسے چین کی مدد کی ضرورت ہے۔ ایسی صورتحال میں انڈیا کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے کہ انڈیا روس کے لیے بھلے ہی ایک اہم شراکت دار ہے لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ یکطرفہ طور پر انڈیا کی حمایت کرے۔’

ان کا کہنا ہے کہ ‘روس بھی دوسرے ممالک کی طرح سفارتی زبان کا استعمال کرے گا۔’

ہرش پنت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‘اگر انڈیا اور چین کے مابین تناؤ بڑھا یا معمولی جنگ ہوتی ہے تو روس کی افادیت بہت زیادہ ہوگی کیونکہ انڈیا کے پاس روسی ہتھیاروں اور مشینوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور اس کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے انڈیا کو روس کی بہت زیادہ ضرورت ہوگی۔ اس لیے انڈیا کے پاس روس کو ناراض کرنے کا آپشن نہیں ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp