حکومت سنڈیکیٹ ایکٹ پاس کرانے میں بےبس یا بےچین ؟


وہ دن اور یہ دن، حکومت جب سینٹ میں کم حکومتی اراکین ہونے کے باوجود 2019 میں جیت گئی اور اکثریت سے مالامال اپوزیشن شکست سے دوچار ہوئی تب سے “فتح” سے ہمارا پیار کا رشتہ ہے۔ ہر کام میں بےشک حکومت دیر کر دے، ہم پھر بھی سمجھتے ہیں کہ آخری فتح حکومت ہی کی ہے۔ نیب سے استفادہ کرنا ہو، کورونا سے لڑائی، سندھ کو سبق سکھانا ہو یا برے بجٹ پر بھی واہ واہ کرانا ہو، بہرصورت فتح حکومت ہی کا نصیب ہے۔ وہ الگ بات کہ “کٹے” کھلتے رہتے ہیں، کبھی اپوزیشن اور کبھی حکومت کی طرف سے لیکن جیت حکومتی کٹے ہی کی ہوتی ہے۔ یہ “طے” ہے۔

یہ ” کٹا کھلنا” پنجابی محاورہ ہے۔ سب جانتے ہیں کٹا بھینس کا مرد بچہ ہے، جی وہی بھینس جس کے آگے بین بجانے کا شوق اکثر دانشوروں کو ہے، دانشور سولہویں صدی کے ہوں یا اکیسویں کے۔ بہرحال علماء کے نزدیک کٹا کھلنے کا یہی مطلب ہے، کام اجاڑ پجاڑ دینا۔ پچھلے دنوں وزراء، بیوروکریٹس اور وائس چانسلرز کی مشترکہ پیشکش سے پنجاب میں ایک نیا کٹا کھلا ہے جس کی بازگشت تمام صوبوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ تفصیلات میں بھی جاتے ہیں لیکن میں حیران اس بات پر ہوں، کہ کیسا عجیب احساس ہے کہ اختیارات کے نشہ میں لوگ اپنی بےبسی کا غل غپاڑہ کرتے ہیں!

 وزراء کہتے ہیں ہمارے ہاں اختیارات کی کمی ہے، اختیارات نہ ہوئے آئیوڈین ہوگئی، بیوروکریٹس کو نگر نگر بڑھتی یونی ورسٹیاں اور وائس چانسلرز کے اختیارات دیکھ کر احساس ہونے لگا ہے کہ جامعات پر ان کی دسترس میں کمی ہے کہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہو جیسے۔ کل کا پروفیسر آج کا وائس چانسلر بنتا ہے تو پرانی فرسٹریشن کو تیغ صفت جنبش قلم سے لمحوں میں ختم کرنے کے درپے ہوتا ہے، نہیں دیکھتا کہ شباب ڈھل چکا اور وی سی بھی کبھی پروفیسر تھا۔

 “پیار” آرہا ہے تینوں پر کہ تینوں کمر کس چکے “دیانتداری” سے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی، اور “جائز” حصہ لینے کی۔ یہ وزراء، بیوروکریٹس اور وائس چانسلرز قوم کی جند جان ہی تو ہیں! یہ ایسے ہی پریشان ہوگئے، انہی کا راج رہنا ہے عوام طاقت کا سرچشمہ تو محض سیاسی نعروں میں ہیں۔

 پیالی میں طوفان کچھ یوں اٹھا کہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ایک سمارٹ سیکرٹری قبلہ و کعبہ محترم نبیل اعوان صاحب نے ایک “ماڈل یونیورسٹی ایکٹ” ریلیز کردیا یا میڈیا سے کرا دیا۔ اس میں کچھ باتیں بہرحال اچھی تھیں مگر یہ “ستم” بھی تھا کہ وائس چانسلرز کا سنڈیکیٹ کو ہیڈ کرنے کا اختیار کسی سابق جج یا سابق بیوروکریٹ یا سابق وی سی کو دے دیا جائے۔

ہم اس حد تک تو مان لیتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں تین تین ایکٹ اور رول آف بزنس میں پیچیدگیاں ہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ بیوروکریٹس گر کہیں کہ وائس چانسلرز ریسرچ کلچر اور درس و تدریس کا ماحول گلوبل امرجنگ ٹرینڈ کے مطابق نہیں دے پا رہے۔ یہ بھی مانا کہ ایک وائس چانسلر سمجھتا ہے کہ پرو وائس چانسلر “شریکا” تو دے سکتا ہے معاونت نہیں جو اپنی جگہ درست نہیں۔ ہم بیوروکریسی کی یہ مان لیتے ہیں سلیکشن بورڈ میں گڑبڑ ہوتی ہے۔ چلئے یہ بھی مانا کہ، اکیڈمک کونسل اور بورڈ آف سٹڈیز میں بھی کچھ “وی سی سرور” اسپیشل سروسز کی انتہا کرجاتے ہیں لیکن ہم یہ ماننے کیلئے قطعی تیار نہیں کہ کوئی ریٹائرڈ جج یا ریٹائرڈ جرنیل یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا ریٹائرڈ وی سی سنڈیکیٹ کی چئیرمینی میں “باکمال لوگ لاجواب سروس” کے مصداق ہوگا۔ ورنہ سارا ملک جنت الفردوس ہوتا، سکول و کالج اور بورڈز اے ون ہوتے۔ اور جمہوریت کے پاس بھی نومن تیل ہوتا اور “رادھا کی طرح” ناچ رہی ہوتی۔ لے دے کے موٹروے کا معاملہ درست ہے، تو کیا موٹروے کے آئی جی کو یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ کا چئرمین لگا دیں؟ مگر اسے بھی پرفارمنس کیلئے پہلے موٹروے دینی پڑے گی! آپس کی بات ہے موٹروے پولیس ہی کے آئی جی کے پاس ہائی ویز بھی ہے۔ کیا ہائی ویز بھی آئیڈیل ہیں؟ اگر ماضی میں چند کیسوں میں واجب الاحترام عدلیہ کی طرف سے وی سی حضرات کو مقدس گائے سمجھ کر ڈائریکشنز کے بجائے فیصلوں سے نوازا جاتا اور چند ایک وی سی کے لاڈ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور چانسلر آفس نہیں دیکھتا تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہی ناں۔

کاش وی سی حضرات گلوبل ولج میں ایجوکیشنل لیڈر بن کر پی وی سی برائے فیکلٹی افئیرز تراش پاتے جو جاکر فیکلٹی میں وی سی کے خلاف بگاڑ نہیں، بناؤ تراشتا۔ کاش ہم آج ہی ایسوسی ایٹ ڈینز برائے ریسرچ دریافت کرسکیں اور ہر پروڈکٹو ڈیپارٹمنٹ کو ایک ڈپٹی چیئرمین برائے ریسرچ دے سکیں اور یہ سب کنسورشیم، انڈسٹریل لنک، انٹرپرنیورشپ، کمیونٹی سنٹرز، اپلائیڈ نصاب سازی، مارکیٹنگ اور مطلوب بلینڈڈ طریقہ تدریس کو تقویت بخشتے !

 کاش کوئی یونیورسٹی لا کالج سنڈیکیٹ امور پر کوئی ریسرچ پیپر چھاپتے، کاش کوئی ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ یا ڈیپارٹمنٹ سلیکشن بورڈ، سرچ کمیٹیز اور حکومتی رہنمائی کیلئے ریسرچ پیپر مارکیٹ میں لاتے۔ یونیورسٹی کا فرض ہے وہ سرکار کو تحقیقی قوت سے نوازے تاکہ سرکار پھر سب بروئے کار لاکر توازن پیدا کرے۔ کتنے سوشیالوجی اور سائیکالوجی کے محققین نے مروجہ بیوروکریسی پر تھیسس لکھے؟ کہ، بس پلیجرزم زندہ باد؟

واضح رہے کہ سنڈیکیٹ یونیورسٹیوں کی کمپیٹنٹ اتھارٹی ہوتی ہے اور وی سی بطور افسر مجاز۔ سنڈیکیٹ سرکاری ایجوکیشن و لاء و فنانس، اساتذہ، مقامی سیاسی اور سماجی افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو فیصلوں کو جمہوری اور کمیونٹی پیرہن دیتا ہے۔ یہ بھی زیر غور کہ، وی سی کو سول سرونٹ کی طرز میں لایا جائے۔ تنخواہ بھی اسی کے مطابق تاہم زیادہ دینے کی صورت میں ایک باقاعدہ کمیٹی اپنی سفارشات منظر عام پر لاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں وائس چانسلرز کی کی کارکردگی کا جائزہ صوبائی ایچ ای سی لیا کرے گی۔ لو جی، وائس چانسلرز سیخ پا، کہ ہماری تو لٹیا ڈوب گئی، ہماری کون مانے گا؟ جامعہ کی ایسوسی ایشنز ہمیں نہیں چھوڑیں گی۔ بات تو ٹھیک ہے جن وائس چانسلرز کیلئے پرو وی سی ناقابلِ برداشت ہو وہ بےچارے کسی اور کو سنڈیکیٹ کا سربراہ کیسے مان لیں؟ اور پروفیسرز بلا سوچے سمجھے الگ آپے سے باہر، جی یونیورسٹیوں کی خود مختاری گئی تیل لینے۔ ہم دو دن تیل اور تیل کی دھار دیکھتے رہے وائس چانسلرز دوست کہیں، جی بیوروکریسی یہ، حکومت وہ۔ بیوروکریٹس دوست فرمائیں کہ خود مختاری اور شہنشاہت میں یہ فرق تو وہ فرق، معاملہ گورنس کی گراریوں کو گریس اور تیل دینے کا ہے، کسی اختیار پر ڈاکہ نہیں۔ رہی بات سنڈیکیٹ کو ہیڈ کرنے کی تو تمام ترقی یافتہ ممالک میں بورڈ آف گورنرز کا چئرمین ہی گورننگ باڈی یا سنڈیکیٹ کو ہیڈ کرتا ہے وی سی نہیں!

اِدھر اُدھر کی سن کر راقم نے پنجاب کے وزیر تعلیم سے رابطہ کیا کہ حضور معاملہ کیا ہے؟ کھلا یہ راز کہ اس مسودے کا تعلق پنجاب ایچ ای ڈی سے ہے ہی نہیں، راجہ یاسر ہمایوں کو معلوم نہ چئرمین صوبائی ایچ ای سی کو پتا۔ ہم نے کہا وزیر محترم زمانہ کہتا ہے آپ نے تو وزیراعظم کو بھی اعتماد میں لے لیا۔ صاحب کا جواب تھا کہ بات اس کے برعکس ہے۔ میں نے وزیر اعظم کے سامنے ماڈل ایکٹ کے تحفظات اور “یونیفارم ایکٹ” کے معاملات رکھے ہیں جس پر 75 فی صد کام ہوچکا۔ یہ سنتے ہی ہم نے اپنا جنگ کالم ” بات سنڈیکیٹ کی مخالفت کی نہیں، افادیت کی ہے”( 25 اگست2019) پیش کیا :

 “(1) جب وائس چانسلر نے تقرریاں بغیر اشتہار یا اقرباپروری کی بنیاد پر کی ہوں یا بجٹ اور ترقیوں میں میرٹ کو سبوتاژ کیا ہو، تو کیا وہ سنڈیکیٹ کی سربراہی کا حق رکھتا ہے؟

 (2) جو ممبر ایجنڈا پڑھ اور سمجھ نہ سکتا ہو اس کا سنڈیکیٹ میں کوڑھ کی کاشت کے سوا کام کیا ہے ؟ یہ بحث ابھی باقی ہے تاہم سنڈیکیٹ اور “کرائم سنڈیکیٹ” میں فرق سمجھنا گورنمنٹ کا کام ہے! “

المختصر، ضرورت اس امر کی ہے، تین چار قسم کے رائج ایکٹ کو ملک بھر میں یکساں کیا جائے۔ وی سی اخلاقی طور اپنے خلاف بات پر ہاؤس کو ہیڈ نہ کریں مگر ریٹائرڈ بیوروکریٹس یا ججز کو سربراہ بنانا بھی مناسب نہیں۔ ہاؤس میں سے ایک سال کیلئے ہیڈ الیکٹ یا سیلیکٹ کرلیاجائے۔ پرانی یونیورسٹیوں کی طرز پر سینٹ بنا دیجئے مگر سمارٹ جو 50 افراد پر مشتمل ہو۔ لیکچرار، اے پی، ایسوسی ایٹ اور پروفیسر اساتذہ کے منتخب نمائندے شامل ہوں۔ میرٹ کی بنیاد پر ایک طالب علم بھی۔ گورنس بہتر کرنا جرم نہیں تاہم یونیورسٹی کی خودمختاری ختم کرنا جرم ہوگا۔ راج دلاری بیوروکریسی جامعات کا حال بےجان کالجوں اور اسکولوں ہی کی طرح کردے گی! پبلک و پرائیویٹ و فیڈرل سب کیمپسز کے یونیفارمٹی کا کیا کرنا ہے؟ اور دریا یہ بھی کہ صرف وی سی حضرات کو رگڑا دینا کافی نہیں، وی سرچ کمیٹی، چانسلر اور پروچانسلر بھی باہمی اور خوداحتسابی کو روح بخشیں گر تعلیم سے محبت ہے۔ معاملہ وی سی کی تند کا نہیں چین ریکشن کی تانی کا ہے۔ معاملہمحض اکاؤنٹیبلٹی ہی کا بھی نہیں “فزیبلٹی” کا بھی ہے۔۔۔۔۔ خیر :

 ویسے اسمبلی میں اتنی حکومتی اکثریت ہے کہ یونیفارم ایکٹ پاس ہوسکے یا “فتح” سے اپنا پیار امر ہوگا، کوئی جلدی ہے یا بےچینی؟

 بہرحال ایکٹ یا ایکشن وہ، جو پیا من بھائے !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments