انگریز کی وفادار کون تھی؟ کانگرس یا مسلم لیگ


مہاتما گاندھی، سردار پٹیل اور مولانا آزاد

جب ہم بچے تھے تو امیر حمزہ اور عمرو عیار کی کہانیاں پڑھتے تھے۔ جب ذرا بڑے ہوئے تو ہمیں ”مطالعہ پاکستان“ پڑھایا گیا۔ جب انٹرنیٹ کا دور آیا تو ”مطالعہ پاکستان“ کے سحر سے نکلے۔ ہمیں تاریخ کا تجزیہ کرنے کی بجائے اسے رٹنے کی عادت تھی۔ چنانچہ کسی نے تو اس خلا کو پر کرنا تھا۔ اب بر صغیر کی تاریخ کے حوالے سے پاکستان میں بھانت بھانت کے نظریات داخل ہو رہے ہیں۔

لیکن سابقہ تجربات کی بنا پر مناسب ہوگا کہ اب کسی نظریہ کو عقیدت مندی سے قبول کرنے سے پہلے حقائق کا جائزہ لیا جائے۔ اس کے بعد ہر کوئی اپنی آزادانہ رائے قائم کر سکتا ہے۔ اب کچھ نظریات ہماری مشرقی سرحد سے بھی داخل ہو رہے ہیں۔ ہم کئی کتب اور مضامین میں یہ کہانی لکھی ہوئی پڑھتے ہیں۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ملک سے باہر جائیں اور بھارت سے کوئی صاحب مل جائیں تو وہ برصغیر کی تاریخ کا خلاصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔

”بھائی! ہمارے دیش کی کہانی سنو۔ انگریز کے آنے سے قبل یہاں چپے چپے پر ہریالی تھی اور قدم قدم پر خوش حالی تھی۔ مسلمان اور ہندو بھائی بھائی کی طرح رہتے تھے۔ اچانک ایک روز یہ ملعون انگریز آ گیا اور ہمارے مہا دیش پر قبضہ کر لیا۔ ہم نے کانگرس بنائی تاکہ کان سے پکڑ کر اس ملعون کو اپنے دیش سے دفعان کریں۔

ہم کامیابی کے قریب پہنچ چکے تھے کہ انگریز نے یہ چال چلی کہ کسی طرح ہندو اور مسلمانوں کو لڑایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے وفادار مسلمان جاگیر داروں کو کچھ دے دلا کر مسلم لیگ بنائی اور دیش میں پھوٹ ڈال دی تاکہ اپنا الو سیدھا کرے۔ [پھر کان سے قریب منہ لا کر کہتے ہیں ] آپ تو جانتے ہیں کہ مسلم لیگ والے انگریز کے ایجنٹ تھے۔ آزادی کے دن لیٹ ہوئے اور جب آزادی ملی تو اس ملعون نے دیش تقسیم کر دیا۔ ورنہ ہم دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہوتے۔ امریکہ ہم سے ہتھیار خریدتا۔ چین ہم سے قرضہ مانگتا۔ یورپ کے لوگ یہاں نوکری کے لئے منتیں کرتے۔ وغیرہ وغیرہ ”

مناسب ہوگا کہ کوئی رائے قائم کرنے سے قبل حقائق کا کچھ جائزہ لے لیا جائے۔ انڈین نیشنل کانگرس 1885 میں قائم کی گئی اور مسلم لیگ کی بنیاد 1906 میں رکھی گئی۔ یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ مسلم لیگ کے قیام تک برطانوی حکومت کے بارے میں کانگرس کے کیا نظریات تھے؟ اور اس کالم میں کانگرس کے اپنے شائع کردہ ریکارڈ سے صرف چند جھلکیاں پیش کی جائیں گی۔

حقیقت یہ ہے کہ کانگرس کو خود برطانوی حکمرانوں میں سے ایک طبقہ نے قائم کیا تھا۔ اور اس کو پروان چڑھانے میں تاج برطانیہ کے افسروں کا نمایاں کردار تھا۔ کانگرس کو بنانے میں سب سے اہم کردار اے او ہیوم کا تھا۔ یہ ہندوستان میں برطانوی ملازم تھے اور 1857 کی جنگ کے دوران اتر پردیش میں انہوں نے بغاوت کرنے والے سپاہیوں کے خلاف ایک فوجی دستے کی قیادت بھی کی تھی۔ ہیوم کئی سال کانگرس کے سیکریٹری جنرل کے فرائض ادا کرتے رہے۔

کانگرس کو بنانے والوں میں سے ایک اور برطانوی جارج یول تھے۔ وہ قیام کے تین سال بعد کانگرس کے صدر بھی بنے۔ کانگرس کے بانیوں میں ایک اور برطانوی سر ولیم ویڈر برن بھی تھے۔ ان کے بڑے بھائی 1857 کی جنگ میں سپاہیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔ سر ولیم ویڈر برن ہندوستان میں انگریزوں کی سول سروس سے وابستہ رہے اور بعد میں برطانیہ میں ممبر پارلیمنٹ بھی بنے۔ وہ 1889 اور 1904 میں کانگرس کے صدر منتخب ہوئے۔

1894 میں آئر لینڈ کے الفریڈ ویب کو کانگرس کا صدر بنایا گیا۔ 1904 میں ایک اور برطانوی سر ہنری کاٹن کو کانگرس کا صدر منتخب کیا گیا۔ وہ بھی برطانوی سول سروس سے وابستہ تھے اور آسام کے چیف کمشنر بھی رہے اور بعد میں برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بھی بنے۔ ایسا بھی ہوا جب کانگرس میں اختلافات پیدا ہوئے تو صدر کے لئے کسی برطانوی کا انتخاب کیا گیا۔ اس کے برعکس مسلم لیگ کے بانیوں یا صدروں یا سیکرٹریوں میں کوئی برطانوی شامل نہیں تھا۔

اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کانگرس کے پلیٹ فارم سے کیا اعلانات ہو رہے تھے۔ 1908 میں کانگرس نے قرارداد منظور کی کہ ہندوستان میں تشدد کے کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ ہم برطانوی بادشاہ کی وفادار رعایا ہیں اور ان واقعات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 1896 میں کانگرس کے خطبہ صدارت میں مسٹر سیانی نے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ ہم برطانوی گورنمنٹ کے خلاف ہیں۔ میں نے تو 1857 کی جنگ میں برطانوی حکومت کا ساتھ دے کر اپنی وفاداری ثابت کی ہے۔ اور انہوں نے ممبران کانگرس کو نصیحت کی کہ اپنے دلوں میں برطانیہ سے وفاداری پیدا کرو اور اپنے حکمرانوں پر اعتماد کرو۔

1895 میں کانگرس کے صدر سریندرا ناتھ بینر جی نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد اور سلطنت برطانیہ سے غیر متزلزل وفاداری کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ 1893 میں دادابھائی نوروجی نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ ہمیں اتحاد، اعتدال پسندی اور سلطنت برطانیہ کے ساتھ وفاداری کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔ یہ اجلاس پنجاب میں ہو رہا تھا۔ اس لئے انہوں نے اعلان کیا کہ پنجاب سلطنت برطانیہ سے وفاداری دکھاتے ہوئے اپنا آخری آدمی تک قربان کر دے گا۔ کانگرس کے اجلاسوں میں برطانوی حکومت کی برکات پر طویل تقاریر ہوتی تھیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب کانگرس اس طرح وفاداری دکھا رہی تھی تو انگریزوں کو کیا ضرورت تھی کہ وہ ان کے خلاف مسلم لیگ کو کھڑا کرتے۔

1891 میں کانگرس کے صدر نے اعلان کیا کہ ہم تو اپنی ملکہ کی خاطر برطانوی جھنڈے کے تحت رضاکارانہ طور پر لڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن حکومت رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ 1902 کے اجلاس میں کانگرس نے اس بات پر اظہار اطمینان کیا کہ ہندوستان سے باہر ہندوستان کے فوجیوں نے بہت اچھی خدمات سر انجام دی ہیں۔ اب حکومت کو چاہیے کہ اپنی فوج میں اچھے خاندانوں کے افسر بھرتی کرے تاکہ انہیں سلطنت برطانیہ کی خدمت کا موقع ملے۔

اس نہایت مختصر خلاصے سے ہم کیا نتیجہ نکال سکتے ہیں؟ کانگرس کے لیڈر انگریز کے ایجنٹ اور چمچے تھے۔ وہ ہندوستان کو ہمیشہ غلام رکھنا چاہتے تھے۔ وہ بکے ہوئے تھے۔ میرے خیال میں یہ درست نتیجہ نہیں ہوگا۔ کانگرس کے ان لیڈروں نے اپنے ہم وطنوں کی بہت خدمت کی۔ انہوں نے ہندوستان میں با اختیار حکومت قائم کرنے کے لئے مسلسل جد و جہد کی۔ انہوں نے ہندوستانیوں کے مسائل حکومت کو پیش کیے۔ انہوں نے ہندوستانیوں کے مالی حالت بہتر کرنے کے لئے آواز اٹھائی۔ اور وقت کے لحاظ سے جو راستہ انہیں مناسب لگا انہوں نے اختیار کیا۔ لیکن ان حقائق کے موجودگی میں مسلم لیگ کو برطانوی ایجنٹ قرار دینا ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے۔

مسلم لیگ کے قیام تک کانگرس یہ کوشش تو کر رہی تھی مقامی طور پر ایسی حکومتیں قائم ہوں جو کسی حد تک با اختیار ہوں۔ وائسرائے کی کابینہ میں تین وزیر ہندوستانیوں میں سے لئے جائیں اور باقی بے شک برطانیہ سے ہوں۔ برطانوی فوج میں ہندوستانی افسر بھرتی ہوں۔ اور یہ کوشش بھی کی جا رہی تھی کہ ہندوستان کے ہر صوبے سے دو دو ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوں جو کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اپنے صوبے کی نمائندگی کریں۔ لیکن اس وقت تک کانگرس نے سلطنت برطانیہ سے مکمل علیحدگی کا کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا تھا۔

سیاسی اختلاف کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن اختلاف تہذیب کے دائرے میں رہ کر بھی ہو سکتا ہے۔

تفصیلات کے لئے ملاحظہ کریں
The Indian National Congress. Containing an account of its origin and growth published by G. A. Natesan & Co. Madras


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments