نازیہ نام کی لڑکی


نازیہ میری بہن کی جیٹھانی باجی خوشنود کے گھر کی ملازمہ تھی۔ عمر کوئی چودہ یا پندرہ سال کی ہوگی۔ دبلی پتلی، گہرے سانولی رنگت والی، صاف ستھری سی، بیچ مانگ، دو چھوٹی چٹیا بنائے جو کبھی شانوں پر پڑی ہوتیں۔ نازیہ کسی سکول کی آٹھویں نویں جماعت کی طالبہ لگتی تھی، ابھی اسے کسی سکول میں ہونا چاہیے تھا۔

یہ لڑکی میرے ذہن کے پردے میں کہیں بہت پیچھے رہ جاتی جیسے زندگی میں لوگ آتے ہیں آپ سے ملتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ کہیں گم ہو جاتے ہیں، مگر نازیہ کی تصویر میرے ذہن کی سطح پر بعض اوقات بہت واضح اور شدت سے ابھرتی ہے۔ شاید نازیہ کا خاکہ لکھ دینے سے اس شدت میں کچھ کمی واقع ہو جائے جیسے کسی تکلیف دہ جذبے کا کتھارسس کر لینے سے وقتی طور پر انسان طمانیت محسوس کرتا ہے۔

نازیہ کی نمکین سے چہرے پر اس کے دانتوں کا ابھار بہت نمایاں تھا۔ باجی خوشنود کے گھر آنے والے ریگولر مہمانوں سے وہ واقف تھی۔ وہ دروازے پر آئے ہوئے مہمان کو خوش آمدید کہتی تو اس کی مسکراہٹ سے اس کے ابھرے دانت مزید باہر کو نکل آتے، اور اسے اس بات کا اندازہ تھا۔ وہ ایک مسکراتا چہرہ تھی۔ وہ بات کرتے مسکراتی، دانت اندر کرتی، پھر کسی بات کا جواب دینا ہوتا تو اسی عمل سے اسے ہر بار گزرنا ہوتا۔

میں مہینے میں دو ایک بار باجی کی طرف چکر لگا آتا تھا۔ باجی کی بیٹیاں یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں پڑھ رہی تھیں اور بیٹا امریکہ ایم بی اے کرنے چلا گیا تھا۔ گھر والے نازیہ کو ایک فیملی ممبر ہی سمجھتے تھے۔ باجی خوشنود کی لڑکیوں کی صحبت میں رہتے رہتے نازیہ نے انگریزی زبان کے چند الفاظ اور جملے سیکھ لئے تھے۔ جب وہ دوران گفتگو ان کو استعمال کرتی تو مجھے بہت اچھا لگتا۔

باجی خوشنود کی طرف جانے میں میرے لئے ایک ”اٹریکشن“ نازیہ سے مل کر اس کا حال احوال دریافت کرنا بھی ہوتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اسے یہاں میرے خالو کے بھائی ڈاکٹر سلیم کی بیگم آنٹی کلثوم نے لگوایا تھا۔ اس کا گھر ملتان روڈ پر واقع ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے بات کرتی، اس کے دانت نمایاں ہوتے اور وہ شرما کر اپنا منہ بند کر لیتی۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ میں باجی کی طرف ملنے گیا اور باجی اور ان کے شوہر علی حسین گھر سے باہر گئے ہوتے تو دروازہ کھول کے مسکراتے ہوئے کہتی ”وہ آ جائیں گے تھوڑی دیر میں آپ آ کر بیٹھ جائیں“ ۔

میں دوبارہ آنے کا کہتا تو وہ پھر اصرار کرتی کہ گھر میں سائرہ اور تحسین باجی ہیں۔ جب میں اندر آتا تو سیون اپ یا چائے کا پوچھتی، جب میں شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتا کہ میں کھا پی کر آیا ہوں تو وہ شرماتے، مسکراتے ہوئے اصرار کرتی۔ مجھے اس کا اصرار کرنا بہت پیارا لگتا تھا اور میں جان بوجھ کر اس کی تواضع کی فرمائش کو ”نا نا“ کر کے ٹالتا رہتا تھا۔ بالآخر وہ موسم کی مناسبت سے میرے لئے ٹھنڈا یا گرم لے کر آتی، اس کے بعد وہ گھر کے کسی کام میں مشغول ہو جاتی تھی یا پھر سرونٹ روم میں چلی جاتی۔

وقت گزرتا گیا اور میں کینیڈا چلا گیا۔ جب میں تین سال کے بعد وطن واپس آیا تو گھر والوں کو کینیڈا میں اپنے شب و روز کی مصروفیت سنائی اور والدہ سے عزیز، رشتے داروں، دوست و احباب اور پاس پڑوس کے لوگوں کا حال احوال دریافت کیا۔ والدہ نے سب کی خیریت سے مطلع کیا۔ ایک شام ہم میز پر بیٹھے روایتی طور پر چائے پی رہے تھے اور ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے کہ میری والدہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے نازیہ یاد ہے۔ میری نظروں کے سامنے دبلی پتلی، آبنوسی رنگت والی، مسکراتی دانت نکالے، دانت چھپائے، شرماتی، لہک لہک کر بولنے والی لڑکی آ کھڑی ہوئی۔

میں نے والدہ استفسار میں جواب دیا تو بولیں اس کی میرے جانے کے بعد شادی ہو گئی تھی۔ میں نے کہا یہ تو بہت اچھا ہوا۔ کہاں ہوئی شادی؟ بے ساختگی میں میں نے یہ بات ایسے پوچھ ڈالی جیسے میں اس کے پورے خاندان کو جانتا تھا۔ ”خاک اچھا ہوا، ایک سال کے اندر اندر بیوہ ہو گئی، اور خاوند کی موت کے بعد اسے ایک لڑکا ہوا“ ۔ امی کے منہ سے یہ بات سن کر میرے دل میں درد کی ایک ٹیس اٹھی۔ میں نے چائے کے کپ کو میز پر رکھ دیا اور کھڑکی کی جانب باہر گلی کی طرف دیکھنا شروع کر دیا سڑک پر کبھی کوئی شخص گزر جاتا تو کبھی کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل سوار۔ میری نظروں کے سامنے جیسے اس کا ہیولا آکر کھڑا ہو گیا۔

کچھ دنوں کے بعد میں واپس کینیڈا چلا گیا۔ اگلی بار چار سال کے بعد پاکستان آنا ہوا۔ ان سالوں میں میرے والد کی صحت تیزی سے گر رہی تھی۔ میں ائر پورٹ سے گھر پہنچا تو والدہ سے بغلگیر ہونے کے بعد سیدھا والد کے کمرے میں پہنچا، دیکھا تو کمرہ خالی ہے اور والد صاحب کے پلنگ پر ان کا بستر رول کیے دہرا ہے، جیسے اس کمرے میں کوئی نہ رہتا ہو۔ میں نے باہر آ کر امی سے ڈیڈی کے بارے میں دریافت کیا کہ کہاں ہیں وہ بولیں کہ ان کو سی ایم ایچ میں داخل کروایا ہے کہ ان کی طبیعت اچانک بہت بگڑ گئی تھی۔

میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھے اسی وقت سی ایم ایچ لے چلے کہ میں اپنے والد سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں سی ایم ایم اچ کے افسر ز فیملی آئی سی یو میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پہاڑ جیسا وجود رکھنے والا میرا باپ ہسپتال کے بستر پر غنودگی کے علم پر پڑا ہوا اور جا بجا اس کے ہاتھوں اور بازوؤں پر ٹیوبز لگی ہیں۔ میرا دل ایک لحظہ کو سینے میں ڈوب سا گیا۔ میں اپنے سانسوں کی آواز سنتا ہوا ہولے ہولے قدموں سے ان کی طرف بڑھا۔

ان کے قریب آ کر اپنا ہاتھ میں نے ان کے ماتھے پر رکھا اور ان کے سر پر پھیرنے لگا، ان کے گھنے بال اس وقت بھی سر پر نہایت آرام سے جمے ہوئے تھے جیسے انہوں نے ابھی تازہ تازہ کنگھی کی ہو۔ ان کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے مجھے دیکھا، مسکرائے اور بولے ”حیدر“ ۔ میرا ضبط ٹوٹ گیا اور میں نے اپنے دونوں بازو ان کے گلے میں ڈال دیے اور زار و قطار رونے لگا۔ وہ تھکاوٹ کے ساتھ مسکرا کر سرگوشی میں بولے ”ارے روتا کیوں ہے“ ۔

ڈیڈی وقتی طور پر ریکور کر گئے میرے تایا کا نواسہ خرم جو ان دنوں گاؤں سے ڈیڈی کے کیئر گیور کے فرائض ادا کرنے آیا ہوا تھا کہنے لگا کہ میرے واپس آ جانے سے ڈیڈی کے بدن میں جان واپس آ گئی ہے۔ ڈیڈی گھر آ گئے مگر وہ اب زیادہ تر وقت غنودگی میں ہی رہتے تھے۔ میں ان کے بیڈروم میں رکھے صوفے پر بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھتا اور وقتاً فوقتاً کتاب پر سے نظر اٹھا کر ان کو تکتا رہتا تھا، وہ ایک چھوٹے سے بچے کی طرح سوتے ہوئے بہت معصوم دکھائی دیتے۔

میں اپنے آپ سے کہتا کہ یہ ٹائٹینک اب زیادہ عرصہ سطح آب پر نہیں دکھے گا۔ ان کے کھانے کے وقت امی انہیں جگانے آتیں، انہیں آواز دیتیں مگر وہ ایک ضدی بچے کی طرح آنکھیں بند کیے سوتے رہتے۔ ایسے میں میں ان کے سرہانے بیٹھ کر وقفے وقف سے ان کے شانے ہلاتا۔ وہ بہت مشکل سے بیدار ہوتے اور جو لیکویڈ خوراک ان کو دی جاتی وہ کھانے کے بعد میں انہیں باتھ روم لے جاتا اور واپس لا کر بستر پر لیٹا دیتا، وہ واپس گہری نیند میں چلے جاتے۔ مجھے لگتا جیسے ان کی نیند اب ان کی بہترین ساتھی اور جائے پناہ بن چکی ہے اور وہ مستقل طور پر اس کے بازوؤں میں چلے جانا چاہتے ہیں۔

ایسے ہی ایک سہ پہر جب میں ان کے کمرے میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا کہ دروازہ پر گھنٹی بجی تھوڑی دیر کے بعد امی دروازہ میں آئیں اور کہنے لگیں کہ نازیہ آئی ہے۔ ”نازیہ؟“ میرے ذہن سے نام اتر چکا تھا۔ ”خوشنود کی ملازمہ۔“ امی نے یاد دلایا۔ ”اوہ ہاں“ مجھے فوراً ایک دبلی پتلی، دو چھوٹی چٹیا کی ہوئی، اپنے لمبے دانتوں کو جابجا مسکراہٹ میں چھپاتی ہوئی آبنوسی رنگت والی نازیہ یاد آ گئی۔ ”کہاں ہے؟“ کتاب بند کرتے ہوئے میں نے پوچھا۔ ”ڈرائینگ روم میں بیٹھی ہے۔“ انہوں نے بتایا۔

میں ڈرائینگ روم میں آیا تو وہ مجھے آتے دیکھ کر اپنی نشست سے کھڑی ہو گئی۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ”بیٹھو“ ، میں نے کہا۔ اور ہم دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ آج اس نے اپنے وجود کو سفید چادر سے ڈھانپا ہوا تھا۔ اس کی دبلی پتلی آبنوسی کلائیاں سنسان تھیں۔ میرے سامنے انیس بیس برس کی ایک مرجھائی ہوئی بیوہ بیٹھی تھی۔ ”آنٹی نے بتایا تھا کہ آپ آئے ہوئے ہیں میں نے سوچا آپ سے ملتی جاؤں۔“ اس کے چہرے پر لمبے دانتوں کو چھپانے والی مسکراہٹ پھر نمودار ہوئی۔

آنٹی وہ باجی خوشنود کو کہتی تھی۔ ”تم نے بہت اچھا کیا، بہت شکریہ نازیہ“ ۔ میں نے جواب۔ ”جی شکریہ کی کیا بات ہے۔“ وہ بولی۔ ایک خاموشی کا وقفہ آیا۔ اس بیچ امی کچھ کھانے پینے کا سامان لے کر آئیں۔ ہم دونوں اٹھے کہ امی کے ہاتھ سے ٹرے پکڑ لیں مگر میں نے اس پر سبقت لیتے ہوئے امی کے ہاتھ سے ٹرے تھام لی۔ ”بیٹھو آرام سے، دونوں میں کچن میں کام کر رہی ہوں۔“ امی یہ کہہ کر واپس چلی گئیں۔ ہم دونوں بیٹھ گئے۔ میں نے اسے چائے کا کپ دیا اور اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے میز پر اپنے سامنے کے سرے پر رکھ دیا۔

”انکل کی طبیعت اب کیسی ہے؟ سنا تھا ہسپتال رہ کر آئے ہیں“ ۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی آ گئی۔ ”بس ویسے ہی ہیں، دعا کرو ان کے لئے۔“ میں نے جواب دیا۔ ”جی میں تو ہمیشہ آپ سب کے لئے دعا کرتی ہوں۔“ ”بہت شکریہ تمھارا۔“ اس نے میز سے اپنے چائے کا کپ اٹھایا اور ایک عدد بسکٹ۔ ”کیسا ہے بیٹا تمھارا؟“ میں نے پوچھا۔ ”اچھا ہے جی“ ۔ وہ اداسی سے مسکرائی۔ ”ساتھ لائی نہیں اسے؟“ میں نے پوچھا۔ ”نہیں جی، اپنی امی کے پاس چھوڑ کے آئی ہوں۔

” اس نے جواب دیا۔“ کتنے سال کا ہے؟ ”“ پانچ کا ہو جائے گا خیر سے جی مارچ میں۔ ”اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔“ تمھیں تنگ تو نہیں کرتا؟ ”میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ وہ ایک دم تازہ دم ہو کر اپنے بیٹے کو کور کرنے آ گئی اور پہلی بار اس کے ابھرے دانتوں کو کور کرنے والی مسکراہٹ جیسے انہیں کور کرنا بھول گئی۔“ نہیں نہیں جی، وہ تو بہت خیال رکھتا ہے میرا۔ ”مجھے لگا جیسے میں نے یہ سوال پوچھ کر غلطی کی۔

”چائے پیو“ ۔ اس نے جیسے میری حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے چائے کا ایک گھونٹ حلق سے اتارا۔ اپنے ایک ہاتھ سے اپنے ہونٹ پونچھنے کے بعد اس نے میری طرف دیکھا۔ ہم دونوں کے بیچ میں پھر خاموشی کا ایک وقفہ آ گیا۔ کچن میں امی کے ہانڈی میں چمچ چلانے اور ویکیوم فین کی آواز ہماری خاموشی پر طاری ہو رہی تھی۔ اپنے چائے کے مگ کو میز پر رکھ کر اس نے اپنی بیوگی کی علامت سفید چادر کو سر پر درست کیا۔ ہم دونوں نے پھر ایک دوسرے کی جانب بے اختیار دیکھا۔

”وہ جی، اس نے چوہے مار گولیاں کھا لی تھیں“ ۔ اس نے یہ بات کچھ ایسے انداز سے کہی جیسے ملزم تھانے میں اعتراف واردات کرتا ہے۔ مجھے لگا جیسے اس کے چہرے کو درد کے شکنجے نے جکڑ لیا ہے۔ مجھے اپنی دھڑکن کانوں پر کسی میدان جنگ میں برسنے والے گولوں کی طرح گھن گھن سنائی دینے۔ ایک شکستہ انسان کی طرح میں نازیہ کی طرف اداس ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا۔ ”میں اسے اچھی نہیں لگتی تھی جی، اس سے زبردستی شادی کروائی گئی تھی۔“

وہ اب دھیمی آواز میں اپنا اعتراف جرم کیے جا رہی تھی۔ ”وہ کسی اور کو پسند کرتا تھا، وہ بہت خوبصورت ہے۔“ میرے سینے میں آنسوؤں کا سیلاب اٹھنا شروع ہوا۔ ”وہ بہت اداس رہنے لگا تھا۔ کسی سے کچھ نہ کہتا، چپ چاپ۔ شادی کے چار مہینے بعد وہ زہر کھا کے مر گیا۔“ آخری جملے کو اس طرح اس نے ادا کیا جیسے کوئی اپنے آپ کو سرنڈر کرتا ہے۔ وہ شدید ذہنی کرب میں تھی۔ اپنے کو ضبط میں رکھنے کے لئے اس نے اپنے دونوں گھٹنوں کو جوڑ لیا اور دونوں بازوؤں کو پیٹ پر باندھ لیا تھا۔

”کوئی ایسے بھی کرتا ہے، میں پسند نہ تھی تو کون سی بڑی بات تھی۔ مجھے کہتا تو، دیکھتا کیسے اس سے اس کی شادی نہ کروا دیتی۔“ میری آنکھیں آنسوؤں کی جلن سے سرخ انگارے بن چکی تھیں۔ اور دو موٹے موٹے آنسو میرے گالوں پر سے ہوتے ہوئے گر کر میری قمیض میں جذب ہو گئے۔ میں نظریں نیچے کیے ہوئے قالین کو دیکھتا رہا۔ ”میں اب یہی سوچتی رہتی ہوں سارا دن ساری رات، میں اپنے کمرے سے باہر اب کم کم ہی آتی ہوں جی۔ میرا بیٹا میری بہت خدمت کرتا ہے۔“

اعتراف ختم ہو چکا تھا۔ خاموشی پھر آ گئی جس کو ماحول سے برآمد ہوتی ہوئی آوازیں مزید نمایاں کر رہی تھیں۔ ”میں ابھی آتا ہوں“ ، میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آیا اور بٹوے سے کچھ نوٹ نکالے۔ ڈرائنگ روم میں جو آیا تو دیکھا وہ جانے کو کھڑی ہو چکی تھی۔ ”کہاں؟“ میں نے کہا، ”بس جی بہت دیر ہو گئی جی۔ اب چلتی ہوں۔“ اس نے اپنی چادر درست کرتے ہوئے کہا۔ ”یہ رکھ لو۔“ میں نے اس کے ہاتھ میں پیسے دیتے ہوئے کہا۔ ”نہیں جی میں یہ نہیں لے سکتی۔“

” یہ تمھارے لئے تو نہیں، تمھارے بیٹے کی منہ دکھائی ہے جسے تم نے دکھایا ہی نہیں“ ۔ میں نے ویسے ہی مذاق کرنے کی کوشش کی جیسے کہ میں اس سے شروع شروع میں کرتا تھا۔ وہ شرما گئی اور پھر اپنے ابھرے دانتوں کو اپنے ہونٹوں کے پیچھے چھپا لیا۔ وہ مجھے خدا حافظ کہہ کر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں سوچتا رہ گیا کہ ایک انسان کے لئے یہ کتنا بڑا دکھ اور زندگی بھر کا روگ ہے کہ اس کا جیون ساتھی اسے اس لیے مسترد کر دے کہ وہ اس کی پسند نہیں تھا بلکہ خاندان کی دھونس اور زبردستی کے کارن وہ کسی دوسرے کے گلے میں باندھا گیا۔ زور زبردستی کی شادی سے ایک شخص اپنی زندگی سے گیا اور پیچھے رہ جانے والے کی زندگی اجڑ گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments