چمن کے دو صحافیوں کی ایف سی کے ہاتھوں گرفتاری، مچھ جیل میں مبینہ تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام


‘معلوم نہیں ہم نے کون سا جرم کیا جس کے باعث نہ صرف ہمیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ مچھ جیل میں ان تنگ و تاریک کمروں میں دھکیل دیا گیا جہاں انگریز ان لوگوں کو رکھتے تھے جو ان کی بات نہیں مانتے تھے۔’

یہ کہنا ہے افغانستان سے متصل پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے سرحدی شہر چمن سے تعلق رکھنے والے صحافی سعید علی اچکزئی کا جنھیں ایک اور صحافی سمیت چمن سے سکیورٹی حکام نے حراست میں لینے کے بعد تاریخی مچھ منتقل کیا اور مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔

سعید علی چمن میں ملک کے نجی چینل سما ٹی وی کے نمائندے ہیں جبکہ ان کے ساتھ گرفتار ہونے والے دوسرے صحافی عبد المتین اچکزئی خیبر ٹی وی کے لیے کام کرتے ہیں۔

بی بی سی نے جب ان دعوؤں کے حوالے سے مقامی حکام سے رابطہ کیا تو ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ صحافیوں کے اس واقعے سے متعلق جو تحفظات ہیں اس حوالے سے انکوائری کمیٹی بنا کر تحقیقات کی جائے گی۔

گرفتاری کیوں ہوئی؟

سعید علی اچکزئی نے بتایا کہ انھیں اب تک کسی نے وضاحت نہیں دی کہ ان کو کیوں گرفتار کیا گیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کو دھمکی آمیز کالوں کا سلسلہ چمن میں قائم قرنطینہ مرکز کے حوالے سے رپورٹنگ کے بعد شروع ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

سویڈن میں لاپتہ صحافی ساجد حسین کی لاش کی شناخت ہو گئی

’ریاستی اداروں‘ کے خلاف ٹویٹس کرنے پر صحافی گرفتار

’میں آپ کے ماتھے پر چار گولیاں مار کر قتل کرسکتا ہوں‘

ان کا کہنا تھا کہ چمن میں افغانستان سے آنے والے لوگوں کے لیے جو قرنطینہ مرکز قائم کیا گیا تھا وہاں قیام پذیر افراد سہولیات کے حوالے سے شکایات کرتے تھے اوراس حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی آرہی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ قرنطینہ مرکز میں آنے والے افراد نہ صرف پانی کی عدم دستیابی، ٹوائیلٹس کی خراب صورتحال سے شاکی تھے بلکہ ان کا یہ بھی الزام تھا کہ انھیں جو کھانا فراہم کیا جاتا ہے وہ بھی ناقص معیار کا ہے۔

چمن

انھوں نے کہا کہ ایک موقع پر قرنطینہ مرکز میں عدم سہولیات کے خلاف اس میں موجود 250 کے قریب افرادگیٹ توڑ کر چلے بھی گئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اس واقعے کے علاوہ چمن شہر میں بد امنی کے واقعات کی بھی ہم لوگوں نے رپورٹنگ کی جو کہ شاید حکام کی ناراضگی کی وجہ بنی ہوں۔’

سعید علی اچکزئی نے بتایا کہ دھمکی آمیز کالز آنے کے بعد انھوں نے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا۔

‘ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں ملاقات کا وقت دیا جائے۔ ان معاملات پر بیٹھ کر بات کریں گے۔ اگر ہماری کوئی غلطی ہوئی تو ہم اس کو دور کریں گے۔اگر کسی اہلکار کی کوئی کوتاہی ہوئی تو وہ اپنی اصلاح کرے لیکن ہمیں ملاقات کا موقع نہیں دیا گیا۔’

گرفتاری کیسے عمل میں آئی؟

سعید علی اچکزئی کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھی رپورٹر متین اچکزئی کو مبینہ طور پر فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار کا فون آیا کہ قلعہ آ کر صوبیدار میجر سے ملیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگرچہ فون متین کو آیا تھا لیکن میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اکیلے جانے کے بجائے میں بھی ان کے ساتھ جاﺅں۔ اس لیے ہم دونوں 20 منٹ کے اندر اندر شام سات بجے کے قریب افغانستان کے سرحد پر قائم باب دوستی کے ساتھ واقع فرنٹیئر کور کے قلعہ گئے۔’

انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘جیسے ہی ہم قلعہ پہنچے تو ایف سی کے اہلکاروں نے ہمارے موبائل فون اور دیگر اشیا ہم سے لے لی اور اس کے ساتھ آنکھوں پر پٹی باندھنے کے علاوہ ہمارے ہاتھوں کو پیچھے سے باندھ دیا۔’

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ‘ایف سی اہلکاروں نے ہمیں ایک گاڑی میں بٹھاکر چمن کے قریب گڑنگ چیک پوسٹ پر لیویز فورس کے کیو آر ایف کے اہلکاروں کے حوالے کیا۔جہاں ان اہلکاروں نے ہمیں ایک اور گاڑی میں دھکیلا اور ہمیں تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔’

سعید علی اچکزئی کے مطابق ‘سفر کے دوران جب ہم ایک علاقے میں پہنچے تو مجھے کوئلے کی بو محسوس ہوئی جس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ لوگ ہمیں مچھ لیکر آئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی رکی تو ہمیں ایک تھانے کے حوالے کیا گیا۔’

چمن

ان کا کہنا تھا ‘ہمیں جس تھانے کے حوالے کیا گیا وہ لیویز فورس مچھ کا تھا اور حوالگی کے وقت رات کے تین بج رہے تھے۔ صبح کو مچھ لیویز فورس کے اہلکاروں نے ہمیں مچھ جیل کے حکام کے حوالے کیا۔’

جیل میں کوٹھی نمبر نو

سعید علی اچکزئی نے بتایا کہ مچھ جیل کے اہلکاروں نے انھیں کوٹھی نمبر نو میں بند کر دیا جو انتہائی تنگ و تاریک کمرے تھے اور جہاں نہ کوئی واش روم تھا اور نہ کوئی اور سہولت۔

انھوں نے بتایا کہ مچھ جیل کی کوٹھی نمبر نو کی ایک تاریخ ہے۔

سعید علی اچکزئی کے مطابق انگریزوں کے دور میں کوٹھی نمبر نو کے نام سے منسوب کمروں میں ان لوگوں کو رکھا جاتا تھا جو حکم عدولی کرتے تھے اور پھر بعد میں انگریزوں کے جانے کے بعد ان جیلوں میں خطرناک مجرموں کو رکھا جاتا ہے۔

‘فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا’

سعید علی اچکزئی کہتے ہیں کہ ‘ہمیں معلوم نہیں کہ ہم نے ایسا کون سا جرم کیا جس کے باعث انھوں نے ہمیں ان کمروں میں بند رکھا حالانکہ ہمارے خلاف جو مقدمہ قائم کیا گیا ہے وہ تین ایم پی او (نقص امن) کا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ موبائل فون لیے جانے کے باعث دیگر ساتھی صحافیوں اور اہلخانہ کو اس بارے میں پتہ چلنے میں تاخیر ہوئی۔

‘ہمارے صحافی ساتھیوں نے ہماری گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے کے علاوہ ملک بھر کی صحافتی تنظیموں سے بھی رابطہ کیا۔ صحافیوں کے احتجاج کے بعد ہمارے خلاف مقدمے کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ ہمیں مشروط طور پر رہا کر کے فورتھ شیڈول میں رکھا گیا ہے۔’

سعید کا کہنا تھا کہ فورتھ شیڈول کے تحت وہ اسسٹنٹ کمشنر چمن کے سامنے پیش ہوتے رہیں گے اور وہ ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کریں گے۔

سعید علی اچکزئی نے بتایا کہ زیادہ تشدد کے باعث متین اچکزئی کی طبیعت خراب ہے۔

صحافییوں پر تشدد

حکام کا ان الزامات پر کیا موقف ہے؟

اس واقعے کے حوالے سے بی بی سی نے فرنٹئیر کور کا موقف معلوم کرنے کے لیے کوئٹہ میں ایف سی حکام سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کا تعلق سویلین انتظامیہ سے ہے۔

ایف سی حکام کے مطابق چونکہ دونوں افراد کے خلاف مقدمہ تھا اس لیے سویلین انتظامیہ نے ایف سی کوگرفتاری میں مدد کی درخواست کی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ جس علاقے سے دونوں افراد کو گرفتار کیا گیا اس علاقے میں چونکہ لیویز فورس یا پولیس کا کوئی اہلکار نہیں ہوتا ہے اس لیے انتظامیہ نے ایف سی کے اہلکاروں سے گرفتاری کی درخواست کی اور ایف سی کے اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد دونوں افراد کو سویلین انتظامیہ کے حوالے کیا۔

جب اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر قلعہ عبد اللہ بشیر احمد بڑیچ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے اس واقعے سے متعلق جو تحفظات ہیں اس حوالے سے انکوائری کمیٹی بنا کر تحقیقات کی جائے گی۔

صحافیوں کا بلوچستان اسمبلی کے باہر مظاہرہ

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام اس واقعہ کے خلاف نہ صرف صحافیوں نے بلوچستان اسمبلی کے پریس گیلری سے واک آﺅٹ کیا بلکہ بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔

صحافیوں نے اس واقعے کی مذمت کی اور صحافیوں کی مبینہ بلاجواز گرفتاری اور ان پر تشدد کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔

احتجاج کرنے والے صحافیوں سے بلوچستان کے وزیرداخلہ میر ضیا اللہ لانگو اور رکن اسمبلی اصغر خان اچکزئی نے مذاکرات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے اس واقعے کا نوٹس لیا ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ نے صحافیوں کو یقین دہانی کرائی کہ چمن کے صحافیوں کی گرفتاری اور ان پر تشدد کی تحقیقات کروائی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp