کیا ”برداشت“ نامی کوئی جنس، ہمارے ملک میں دستیاب ہے؟


ایک وہ دور تھا جب ہم پاکستان میں تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے تھے اور ایسے ایسے اساتذہ ہمیں پڑھاتے تھے جن کے نظریات ایک دوسرے سے بے شک ایک سو اسی درجے پر ہوتے تھے مگر ہم تھے کہ سب کو احترام سے سنتے اور ان کی بات جیسے سمجھ آتی، اچھی لگتی تو اپنا لیتے ورنہ خاموش رہتے۔ طلبا یونین بھی تھیں آپس میں لڑائی بھڑائی بھی تھی مگر پھر بھی قوت برداشت اتنی تھی کہ مختلف طلباء تنظیمیں ایک ہی کالج یا یونیورسٹی میں متوازی موجود ہوتیں اور ایک دوسرے کو کسی نہ کسی سطح پر برداشت کرتیں۔

سوائے چند تعلیمی اداروں کے جہاں ملائیت، لسانیت وغیرہ نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور مخالف نظریات کا گلا گھونٹ کر زبردستی راج کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں سے اس زمانے میں سرخے اور آج کے دور میں ترقی پسند یا لبرل اساتذہ کو بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا۔ اور پھر جنرل ضیاء صاحب مرحوم نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے وہ کھلواڑ کیا کہ تنگ نظروں، متعصب، اور نفرت کا درس دینے والے حکومت کے تھنک ٹینک بنے جنہوں نے جنوں سے بجلی تیار کرنے جیسے شاہکار مشوروں سے لے کر مذہبی رواداری، برداشت، اور مخالف سوچ کو گناہ کبیرہ قرار دے کر فوراً سزائے موت تک تجویز کر دی۔ ایک بزرگ خاتون کو اس لیے گرفتار کر لیا گیا کہ اس نے ایک کم تولنے والے بے ایمان مگر باریش دکاندار کو لعن طعن کر دی تھی کہ وہ اتنی لمبی داڑھی رکھ کر بھی بددیانتی سے باز نہیں آتا۔ اسی دور میں ایک نابینا لڑکی کو اس وجہ سے کوڑے مارے گئے کہ وہ اپنے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کی نہ تو شناخت کر سکی تھی نہ چار گواہ لاسکی تھی۔

پھر ہماری نوجوان نسل کو افغان جنگ میں جھونک کر انسانوں کو بے رحمی سے مارنے کا طریقہ بھی سکھا دیا گیا۔ اور اس ”لائسنس ٹو کل“ کے ساتھ ساتھ یہ اختیار بھی دے دیا گیا کہ جہاں بھی کسی کو اپنے تئیں لگے کہ کوئی اس کے فرقے کی توہین کر رہا ہے تو اسے واصل جہنم کرنے میں دیر نہیں کرنی ورنہ یہ اعزاز کوئی اور بھی لے سکتا ہے۔ کیونکہ جنت کا راستہ اس سے زیادہ شارٹ کٹ اور ہو ہی نہیں سکتا کہ قتل کر کے غازی اور دنیا کی نعمتیں الگ اور اگر مزار بھی بنے تو گھر والوں کی روٹیوں کا بندوبست الگ۔

مگر وہ کالج، یونیورسٹیز، جہاں ہمارے اساتذہ کھل کر مذہب سے لے کر سیاست تک اپنی رائے دیتے ہوئے نظر آتے وہیں فارغ اوقات میں ہم کلاس فیلوز، جنت دوزخ، مولویوں، سکھوں کے لطیفے، ایک دوسرے سنا کر اپنا رانجھا راضی کرتے۔ مگر پھر وقت تیزی سے بدلتا گیا۔ انتہا پسندی کی پنیری مختلف زہر آلود پھلوں کے ساتھ قد آور درختوں میں تبدیل ہوتی گئی۔ اور آہستہ آہستہ، چند برسوں کے دوران ہی نفرت و تعصب کے بونے، علم کے قد آور درختوں کو گرا کر ہر طرف خود رو بوٹیوں کی طرح یا جسم میں کینسر کی طرح تیزی سے پھیلتے ہوئے نظر آنے لگے۔ جس میں سب سے زیادہ بڑھوتری توہین مذہب کے درخت کی ہوئی کہ آپ جس پر چاہیں، اپنی ذاتی پرخاش کو مذہب کا ٹانکا لگا کر توہین کا الزام لگا کر، پھر اسے جیسے چاہیں اذیتیں دے دے کر قتل کریں کوئی آپ کو پوچھنے والا نہ ہو گا بلکہ آپ اپنے مخالف کو جتنی اذیتیں دیں گے اتنی ہی آپ اپنے ہم خیال لوگوں کو خوش کریں گے۔

پچھلی صدی کے آخر تک بھی کسی نہ کسی طرح صورت حال قابو میں تھی کہ میں خود بچوں سے کلاس روم سے کہتا کہ بیٹا سب کچھ بن جانا پر انتہا پسند مولوی نہ بننا بلکہ انسان ہی رہنا۔ اور پھر ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ کیسے مذہبی گروہوں کے ساتھ ساتھ دیگر لسانی، صوبائی، نیشنلسٹ عفریتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیات اور مقتدر اداروں کے خلاف بولنا بھی گناہ کبیرہ اور جرم عظیم قرار پانا شروع ہو گیا۔ اور میرا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب میں نے اس دور میں اسٹاف روم میں اساتذہ کو جنت کے بارے لطیفہ سنایا کہ جہاں ایک جوڑا جو دنیا میں شادی نہ کر سکا اور انہیں جنت میں نکاح خواں کی ضرورت تھی اور وہ بلاوجہ لیٹ ہو رہے تھے اور فرشتے انہیں تسلی دیتے ہیں کہ کسی نکاح خواں کو آ لینے دیں پھر ان کا نکاح پڑھا دیا جائے گا۔

ابھی میں یہ لطیفہ سنا ہی رہا تھا کہ میرے ایک ساتھی استاد اٹھ کر چلے گئے۔ کہ جنت کی توہین ہو رہی ہے۔ میں نے بعد میں بہت سمجھایا کہ قبلہ، یہ دنیا میں عام مولوی کے کردار پر ہلکا پھلکا مزاح تھا مگر وہ تھے کہ کوئی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ اسی طرح میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس نے ایک کلچرل نائٹ میں کچھ مولویوں کی حوروں سے ممکنہ دراز دستی کا لطیفہ سنایا تو بظاہر عام سے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے کہ انہوں نے آج پہلی دفعہ مذہبی ہستیوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی توہین بھی سن اور دیکھ لی۔

پہلے تو میرا دوست سٹپٹا گیا اور بولا کہ جناب انسان کی کیا اوقات کہ خدا کی توہین کرسکے۔ اور پھر یہ تو لطیفہ تو ہمارے مذہبی لوگوں کی منافقت آشکار کرتی ہے۔ اور خدا کیا اتنا ہی بے بس ہے کہ اسے آپ لوگوں کی محتاجی ہو ؟ مگر مجمع تھا کہ مزید بپھر گیا اور اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی اور خدائی فوجدار اپنی میان سے تلواریں نکالتے۔ میرے دوست کو تجدید ایمان کر کے دوبارہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو نا پڑا اور ساتھ سب کے سامنے توبہ کرنا پڑی۔ مگر جان پھر بھی نہ چھوٹی کہ اسے نوکری سے استعفیٰ دینا پڑا۔

اور اب دیکھ لیں پروفیسر جنید جیل میں ہے اور وہ لاکھ کہے کہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی پھر بھی اسے کوئی نہیں چھوڑے گا نہ ججز کی جرات ہے کہ اس کا کیس سنیں یا کوئی وکیل ہی اس کا کیس لے کر اپنی موت کو دعوت دے کہ ایک وکیل پہلے ہی اس کی پیروی پر قتل ہو چکا ہے۔ اب تو اساتذہ اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ وہ وہی پڑھا رہے ہیں جو سلیبس میں لکھا ہے کیونکہ ان کو علم ہے کہ اگر انہوں نے سلیبس سے ہٹ کر کوئی بات کہہ دی تو کوئی بھی نام نہاد عاشق مذہب، حوروں کا رسیا، اس کی بات کو توہین مذہب قرار دے کر اسی وقت اپنے ذہن میں فیصلہ کر کے خود ہی اسے قتل بھی کردے۔ آپ یہ دیکھ لیں کہ ابھی حال ہی میں، خیر پور میں پروفیسر ساجد سومرو کو توہین مذہب میں گرفتار کیا گیا ہے جس کا پرچہ اے ایس آئی نے خود دیا ہے کہ وہ اکثر مذہب کے خلاف بولتا تھا اور تو اور مدرسے کی بھی توہین کرتا تھا۔ مذہب تو دور اب تو کسی ادارے کے بارے بات کرو تو گمشدہ افراد میں شامل ہو جاؤ، کسی نسل پرست کے خلاف یا لسانی رہنما کے خلاف بات کرنے پر بوری بند لاشیں یا بے گناہ مزدوروں کا قتل عام تو ہم کئی برس سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔

میں تو اس وقت بھی شرم سے پانی پانی ہو گیا تھا جب پروفیسر ہود بھائی جیسے قابل انسان کو دو بزعم عقل کل نام نہاد مذہبی اینکر اور جرنلسٹ، جاہل قرار دے رہے تھے۔ بلکہ ایک اور پروگرام میں ابھی پروفیسر صاحب بولے بھی نہیں تھے تو مقابل مذہبی اسکالر نے ان کا نقطہ نظر بھی خود ہی بیان کر کے خود سے ہی ان کو لتاڑنا شروع کر دیا۔ پروفیسر صاحب نے جب کہا کہ ابھی تو میں نے کچھ کہا بھی نہی تو وہ مذہبی اسکالر کہنے لگے کہ نہیں بھی کہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ آپ نے کیا کہنا ہے۔ پروفیسر مبارک حیدر نے ”تہذیبی نرگسیت“ کیا لکھی ان کو قادیانی قرار دے کر ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی وہ تو شکر ہے کہ وہ آج کل امریکہ میں مقیم ہیں ورنہ ان کو کس نے موقع دینا تھا کہ وہ قادیانی ہیں بھی کہ نہیں۔

جبران ناصر نے الیکشن لڑنے کی کوشش کی تو ہر کارنر میٹنگ میں اسے اپنا فرقہ واضح کرنے کا کہا گیا۔ اور حالیہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پروفیسر عمار علی جان، محمد حنیف اور پروفیسر ہود بھائی پر تعلیمی اداروں میں پابندی اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اب وہ معاشرہ نہیں رہا جہاں ایک دوسرے کی جان کے دشمنوں میں بھی کچھ نہ کچھ رکھ رکھاؤ ہو تا تھا۔ مگر اب تو ہم اندر سے اتنے انتہا پسند ہو چکے ہیں کہ پیٹھ پیچھے نہیں بلکہ سامنے، ڈنکے کی چوٹ پر نعرہ تکبیر لگا کر اپنے مخالف کو فوراً قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے اور قاتل پھر تھانے سے لے کر انصاف کے کٹہرے تک اپنے فرقے کے افراد سے داد تحسین حاصل کریں گے بلکہ ان کے ہاتھ بھی چومے جائیں گے۔ برطانیہ میں مقیم میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ بھائی پاکستان میں جب بھی جانا ہو تا ہے تو میں ایک نابینا اور گونگے کی طرح دن گزارتا ہوں کہ مجھے جہاں عزیز و اقارب بازو پکڑ کر جہاں لے جاتے ہیں، میں بلا چون و چرا چل پڑتا ہوں اور اپنے منہ پر ورچوئل چھکو چڑھا کر رکھتا ہوں۔ کہ کہیں کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکل جائے کہ کوئی اپنا ہی نہ جان سے مار دے۔

اور واقعی اس گھٹن زدہ معاشرے اور وحشت ناک ماحول میں معدودے چند لوگوں کا آواز حق اٹھانا بہت دل گردے کا کام ہے۔ اس صورت حال میں واقعی اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ پاکستان میں ہر قسم کی دولت سے مالدار ہو سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ ”برداشت“ نامی جنس کب کی معدوم ہو چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments