کیا سب MIZARU بن جائیں


کبھی وہ دور تھا کہ اطلاع، خبر، اور معلومات، سر توڑ کوشش کے بعد حاصل ہوتی تھی اور اب، سوشل میڈیا کے متعارف ہونے کے بعد، عالم یہ ہے کہ یہ خود بہ خود آپ کے دسترس میں چلی آتی ہے۔ یہ ہی نہیں، یہ خود، آپ پر با آسانی، حملہ آور ہوتی ہے اور ہوئے چلی جاتی ہے۔ ان حالات میں، اب نہ صرف رائی کا پہاڑ بنانا آسان ہے، بلکہ اگر کوئی چاہے تو پہاڑ کو رائی بھی کر سکتا ہے۔

آج اگر Joseph Goebbels زندہ ہوتا تو اس کا کام اس قدر آسان ہو چکا ہوتا کہ اس کا جو جی چاہتا اور جب چاہتا، اپنی ”تخلیقی“ ٹیم سے مطلوبہ پیغام لمحوں میں وائرل کراتا اور یوں اسے اپنے استاد سے، دستی داد بھی وصول ہو جاتی۔ اس بے چارے کو وہ پاپڑ نہ بیلنے پڑتے، جو اس غریب نے ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنے ”تخریبی“ فرائض کی انجام دہی کے لئے بیلے ہوں گے۔ شاید سوشل میڈیا کی غیر معمولی کردار کی وجہ سے، بات اس کی خود کشی تک بھی نہ آتی۔

سو یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ان دنوں مسئلہ ٔ، اطلاعات اور معلومات حاصل کرنے کا نہیں بلکہ اس کو جانچنے اور پرکھنے کا ہے۔ ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب سوشل میڈیا پر موجود ہے، مگر اس کا پس منظر، اس کی تشہیر کے وجہ، اس کے کم یا زیادہ اجاگر کیے جانے کا مقصد، اس کو نمایاں کیے جانے کا وقت، اس مخصوص عمل میں شامل کردار، یہ وہ پہلو ہیں، جن کے جوابات ڈونڈھنے سے، کسی قدر ( انفرادی شعور کی سطح تک ) اس اطلاع یا خبر کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے مگر، بھیڑ چال کے اس معاشرے میں کون اتنا جتن کرے۔ اس لئے اس سمت میں کام کرنے والے، عاملوں کا کام اور سہل ہو چکا ہے۔

آج کل جو کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے یا جیسے دکھایا جا رہا ہے، جو کچھ بتایا جا رہا ہے، جو کچھ نہیں بتایا جا رہا ہے، جو منظر سجایا جا رہا ہے، جو منظر ہٹایا جا رہا ہے۔ سلجھانے والی چیزوں کو الجھایا جا رہا ہے۔ الجھی ہوئی چیزوں کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اس سے دیکھنے والوں کے لئے ایسی الجھن جنم لے رہی ہے جو مزید الجھنوں کو جنم دے گی اور یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔

خود رو صورت حال میں، تخم ریزی سے پیدا ہونے والی فصل کیا صورت اختیار کرے، یہ قیاس کرنا مشکل ہوتا ہے، یہ اندازوں سے مخالف بھی ہو سکتی ہے۔

یہ درست ہے کہ، چیزوں کو camouflage کر کے کچھ فوری اہداف تو حاصل کیے جا سکتے ہیں، مگر اس سے پیدا ہونے والا مستقل دھند لکا، ہمیں کہیں سے کہیں لے جا سکتا ہے۔ دھندلے راستے کا سفر، کس سطح کے ابہام کو جنم دے سکتا ہے، اس کی کیا وضاحت کی جائے۔

اس ساری صورت حال میں، یہ ہی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ دانش مند بندروں کی تقلید کرتے ہوئے سب MIZARU بن جائیں اور وہ دیکھنے سے انکاری ہو جائیں، جو حقیقتاً دکھائی دے رہا ہے۔ منظر سے چشم پوشی، بصارت سے انحراف سہی، صداقت کے اعتراف اور تائید کے لئے، یہ کنارہ کشی تو اختیار کی جا سکتی ہے۔ یہ طرز عمل کہاں تک اور کب تک ساتھ دے سکتا ہے، یہ قیاس کرنا شاید مشکل ہو۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ، فرار کا ایک اور گوشہ اور بھی موجود ہے کہ دانشمندی کے دوسرے مرحلے کو اختیار کرتے ہوئے سب KIKAZARU بن جائیں اور کانوں پر ہاتھ رکھ لیں تا کہ، نہ کچھ سنائی دے، نہ دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش ہو۔ یہاں بھی سماعت سے انکار، انسانی حس کو آزمائش میں ڈالنے کے مترادف ہے، مگر کیا کیجے کہ آزمائش میں آزمائش نہیں، تو اور کیا مقابل ہو۔

دل شکستگی اور دل گرفتگی کی اس حالت میں، اظہار کی بھی کیا ضرورت ہے، جبکہ اظہار برائی میں شمار ہوتا ہو، سو یہاں دانش مندی کا تیسرا اصول، معاونت اور رہنمائی کے لئے موجود ہے کہ سب IWAZARU بن جائیں۔ گویا، گویائی سے کام لینا چھوڑ دیں۔

ہوتا ہو گا لب کشائی، حیوان ناطق کا امتیاز، مگر اور کون سے ایسے امتیازات میسر ہیں کہ اس پہ ضد کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments