آسمان پر جہاز ڈھونڈنے والے بچوں کے سوال


روزشام ڈھلے، چھت پرکھلے آسما ن کے نیچے لیٹنا اور ستا رے د یکھنا اور آسما ن میں جہاز تلا ش کر نا، اور جیسے ہی جہاز نظر آ جا ئے تو ایک دو سر ے کو بتانے اور دکھانے کی وہ پیاری سی خوشی! گھرمیں مو جود آدھے درجن بچے، ہر روز میر ے ساتھ اس مشغلے میں شامل ہو تے ہیں۔ وبا کے یہ دن اپنے سا تھ کچھ خو بصورت پل بھی لائے ہیں، بے فکراور بے غرض ورنہ آسما ن کے نیچے گھنٹوں لیٹ کر ٹھنڈی ہوا اورچاندنی رات کا لطف اٹھانا تو جیسے ایک خواب و خیال کی با ت ہو گئی تھی کیو نکہ فارغ و قت میں موبائل کی اسکرین ہی وا حد تفر یح ہو تی تھی، لگتا ا یسا ہے کہ اس طرح تفر یح، ذہنی ارتکا ز اور سکون ملتا ہے لیکن درحقیقت میرا مشاہدہ ہے کہ مو بائل کے ذریعے سوشل میڈیا کی د نیا میں زیادہ وقت گزارنا، ہمیں ذہنی طو ر پر تھکا د یتا ہے۔

کھلی ٖفضا، آ سما ن اور قد رت کے نظا ر ے مجھے ا نسا نو ں کے قر یب کر تے ہیں اور قدرت سے محبت سکھا تے ہیں اور یہی میں اپنے گھر کے بچو ں کو سکھا نا چاہتی ہوں۔ بچوں کی معصومانہ با تیں، سوالا ت اور اپنے خیا لا ت کا بے دھڑک اظہار مجھے محظوظ کر دیتا ہے، ان کے ساتھ با تیں کرنا اور بغیر کسی مصرف کے وقت گزا رنا کتنا ا چھا لگتا ہے۔ زند گی کی یہ چھوٹی چھو ٹی با تیں کتنی با معنی ہیں اور ان کا کتنا اثر ہے! بچو ں کی محبت کتنی لطیف ہے، جب وہ بغیرکسی غرض کے چو متے ہیں، پاس آتے ہیں اور مدد کے لئے دیکھتے ہیں تو کائنات کتنی خو بصورت لگنے لگتی ہے۔ ہر روز شام میں آسمان کو د یکھتے د یکھتے بچو ں سے با تیں کر نا مجھے زیا دہ بہتر لگتا ہے، ان جعلی دانشو روں کے گفتگوسے جو مکر، فریب، چغلی اور تعصب میں لپٹی سروپا با تیں کرتے ہیں۔

کل شام جب حسب معمو ل ہم آسما ن کو تک ر ہے تھے کے وہ دور ٹمٹما تا ہوا نکتہ کوئی ستارہ ہے یا کوئی جہاز، میر ے پا نچ سالہ بھتیجا جو میرے با زو کے تکیے پر سر رکھ کرمیرے ساتھ لیٹا تھا، اس نے بڑی عجیب با ت کہی، کہنے لگا، یہ جو جہاز آ رہا ہے، اس میں آگ تو نہیں لگی ہوئی؟ اس پر میری سات سالہ بھتیجی بولی، ”ہا ں اگر اس میں آگ لگی ہو گی ت وجہاز ہمارے اوپر گر جائے گا، اور ہم سب مرجا ئیں گے“ کیا ہم مر جا ئیں گے اگر جہاز کو آگ لگی تو؟ ننھے بچے نے مجھ سے سوال کیا اور میر ے پاس بچوں کو جھوٹی سچی تسلی دینے اور ان کا خو ف دور کرنے کے لئے الفاظ تلا ش کرنا مشکل ہو گیا۔

مجھے نہیں معلوم، ایئر ٹریفک کنٹرولر جمعے کی نماز پڑھنے چلا گیا تھا یا جہاز کا پا ئلٹ روزے سے تھا، مجھے معلو م نہیں کر نا کہ قومی ایرلائن میں غیر ضرو ری عملہ سفارشی ہے یا ادارے کا سربراہ ڈبل ڈیوٹی کر ر ہا ہے۔

مجھے کوئی غرض نہیں، سیکیو رٹی ہوا بازی اور کمرشل ہوابازی کو ایک ہی لا ٹھی سے ہانکنے والے کیا افلاطونی بہانے گھڑ ر ہے ہیں۔

مجھے پا ئیلٹوں کی تنظیم اور ایئر لائن یونین کی سیا ست یا مصلحت، مجبو ری یا بیچارگی کے چکروں کو نہیں سمجھنا۔

نہ ہی مجھے سروکا ر ہے کہ پا کستا ن کی قو می ایئرلائن کا خسارہ املاک بیچ کر پو را ہو یا غیر ضروری اسٹاف کو نکال کر ادارہ ترقی کر ے گا۔

سیاسی جما عتو ں کی چاپلو سی کی جا ئے یا طا قت کے غیر سیاسی مر کز کی چمچہ گیر ی کی جا ئے تو ادار ہ چلے گا۔

مجھے نہیں معلو م کرنا کہ ہوابازی کی د نیا میں دوسر ی بدترین، نا قابل بھروسا ایرلائن کا قو می اعزاز حا صل کر کے ادا رے کے کرتا دھرتا وں کو کیسا لگ ر ہا ہے۔ کم از کم فلا ئیٹ 8030 کے انجام کے بعد جو سوالا ت ا ٹھا ئے جا رہے ہیں، ہمیں یقین د لایا جا ئے کہ یہ سوالا ت د یوارو ں سے نہیں، ادارو ں سے کیے جا ر ہے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments