وبا کے دنوں میں تعصب


دنیا گذشتہ کئی مہینوں سے عالمی وبا کوویڈ 19 سے نبردآزما ہے. لوگوں کی صحت اور زندگی کو انتہائی خطرے کا سامنا ہے۔ بلا شبہ اس وبا نے دنیا کے لئےانتہائی مشکل صورتِ حال پیدا کر دی ہے لیکن اگرکوشش کی جائے تو مشکلات کو مواقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہےاور بحران سے نئے اور مثبت اقدامات ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں۔ اس وبا ہی کی مثال لے لیجیے، جہاں اس نے ایک طرف انسانی زندگی اور صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے، وہیں دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلی پر اس کے مثبت اثرات نظر آئے۔ مزید برآں دنیا میں تباہی پھیلانے کے علاوہ اس وائرس نے دو بہت اہم حقائق ہم پر دوبارہ واضع کیے،اول یہ کہ ہم سب کسی نہ کسی طرح آپس میں ربط رکھتے ہیں اور دوم کہ فطرت کسی بھی بنا پر انسانوں میں امتیاز نہیں کرتی۔

ریاستِ پاکستان، یقیناً کوویڈ 19 وبا کے باعث پیدا ہونے والی صورتِ حال کومعاشرے سےامتیازی سلوک کے خاتمےاور شہریوں کے مابین برابری اور مساوات کو پروان چڑھانے کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ اس وبا کے باعث پیدا ہونے والے بحران میں دنیا کی ہر ریاست کو پہلے سے کہیں زیادہ انسانی حقوق کی پاسداری کرنے کی ضرورت ہے اور ریاستِ پاکستان اس سے مبرا نہیں۔ کیونکہ بہر صورت شہریوں کے حقوق کے احترام، حفاظت اور تکمیل کی حتمی ذمہ داری ریاست ہی پرعائد ہوتی ہےاور اب جبکہ کوویڈ 19 کے باعث ملک کی موجودہ صورتحال میں عوام خوف ، غصے اور عدم تحفظ کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہیں ، ریاست کا لائحہ عمل اس کیفیت میں اضافے یا کمی کا باعث بن سکتا ہے۔

بلا شبہ یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے اور ریاستیں کوویڈ 19 کے لئے ذمہ دار نہیں، مگر وہ اس وبا سے موثر طور پر نپٹنے اور اس کے خلاف موثر حکمتِ عملی تشکیل دینے کی ذمہ دار ضرور ہیں، اسی لیے بطورِ خاص وبا کے دنوں میں انسانی حقوق کی پاسداری انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ مثال کے طور پر ، اگر ریاست کی پالیسیاں اور وبا کے دوران ہونے والے اقدامات ، شہریوں کے حقوق اور آزادی پر بے جا طور پر اثر انداز ہوتے ہیں تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اوراگرریاست وبا کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے عوام کو مؤثر طریقے سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ بھی انسانی حقوق ہی کی پامالی ہے ۔

اس وبائی مرض کے دوران ہر کوئی کسی نہ کسی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے ، لیکن پسماندہ اور کمزورطبقات مقابلتاً زیادہ مشکلات کا شکار ہیں اور اگر یہ پسماندہ افراد ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتی برادریوں بطورِ خاص کسی مذہبی اقلیت سےہوں توان کی تکالیف اور مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں، گذشتہ دو ماہ کے دوران مختلف با وثوق ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ اشیائے خوردونوش (فوڈ پیکیج) کی تقسیم سے متعلق امدادی سرگرمیوں کے دوران مذہبی اقلیتوں سےتعلق رکھنے والے مستحق افراد کوامتیازی سلوک کا نشانہ بنایاگیا اوراُنہیں راشن دینے سے انکار کردیا گیا۔ بیک وقت ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جہاں مسلمان برادری سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں نے اشیائے خوردونوش (فوڈپیکیج) کی فراہمی کے ذریعے مذہبی اقلیتی برادری کے لوگوں کی مدد کی۔ رواں ماہ مختلف اخباری ذرائع نے رپورٹ کیا کہ کوویڈ ۔ 19 سے شفا یاب ہونے والے ایک شخص نے اسی مرض کی وجہ سے تشویش ناک حالت میں مبتلا ایک فرد کو اپنا پلازمہ عطیہ کرنے سے صرف اس بنا پر انکار کر دیا کہ مریض کا تعلق شیعہ برادری سے تھا۔ حال ہی میں ایک عزیز نے بتایا کہ اُن کے دوست کے والد کو ایک ڈونر نے پلازمہ محض اس لیے عطیہ نہیں کیا کیونکہ وہ مسیحی ہیں اور اُن کے والد تشویش ناک حالت کے باعث خداوند میں سو گئے۔

مذکورہ بالا واقعات کی روشنی میں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بد قسمتی سے ہمارے سیاق و سباق میں بلا امتیاز ضرورت مند افراد کی امدادکسی شخص یا تنظیم کی ذاتی صوابدید پر منحصر ہے اور امتیازی سلوک کی جوابدہی شاذونادر ہی ہوتی ہے۔ اگرچہ متعدد غیر سرکاری تنظیمیں اور اقلیتی برادریوں کے افراد اس وبا کے دوران اپنی برادری کے مستحق افراد کی مدد کی ہر ممکن کو شش کر رہے ہیں، تاہم حتمی ذمہ داری حکومت ہی پرعائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے مستحق افراد کے لیے سطح پر سہولیات کی بلا امتیاز فراہمی یقینی بنائے ۔

آئینِ پاکستان اورانسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے شہریوں میں غیر امتیازی سلوک اور مساوات کو یقینی بناناریاستِ پاکستان کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 20 ، 25 ، 26 اور 36 بالترتیب مذہبی آزادی، شہریوں کے مابین مساوات،عوامی مقامات تک بلا امتیازرسائی اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دیتےہیں۔ پاکستان کی جانب سے توثیق کئے گئے انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدات میں بھی یہ دفعات شامل ہیں اور ریاستِ پاکستان ان کی پاسداری اور ان پر عملدرآمد کروانے کی پابند ہے۔ بطورِ خاص شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کا آرٹیکل 2 ، معاشی ،معاشرتی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کا آرٹیکل 2 (2) اور ہر قسم کے نسلی امتیازات کے خاتمے کا بین الاقوامی معاہدہ ریاستی پارٹیوں کوپابند کرتے ہیں کہ وہ اپنی جغرافیائی حدود میں کسی بھی بنیاد پر کئے جانے والے امتیازی سلوک کا خاتمہ کریں نیز اپنےشہریوں کے مابین مساوات کو یقینی بنائیں۔ اس کے علاوہ ، انسانی حقوق کا عالمی منشور (اعلامیہ) ، اقلیتوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کا اعلامیہ نیزعدم برداشت اور مذہب یا عقیدے پر مبنی امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کا معاہدہ بھی شہریوں کے مابین برابری اور عدم امتیاز کو یقینی بنانے پر زور دیتا ہے ۔

کوویڈ ۔ 19 کی وبا دنیا کے ہر ملک بشمول پاکستان کے لئے معاشرےمیں مساوات اور عدم امتیاز کے تصورات کو پروان چڑھانے اور مستحکم کرنے کا ایک موقع لے کر آئی ہے ۔ وبا کے دنوں میں اس کام کو سرانجام دینے کے لیے مختلف اقدامات کئے جا سکتے ہیں، مثلاًحکومت کو متعدد میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعہ کوویڈ 19 کے دوران صحت و صفائی، تعلیم،انتظامیہ، امدادی سرگرمیوں اور دیگر شعبوں میں اقلیتوں کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے منظرِعام پر لانا چاہیے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد اور تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کے کام کے لئے سازگار ماحول پیدا کرے۔ مزید برآں حکومت وسیع پیمانے پرتشہیر کرے اور یقینی بنائے کہ کوویڈ ۔ 19کے تناظر میں دی جانے والی تمام سرکاری اور غیر سرکاری امداد میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والےمستحق اور پسماندہ افراد کو بھی شامل کیا جائے، نیز کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کی صورت میں سخت کاروائی عمل میں لائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو بروئے کار لائے اور ان اقدامات کی تشہیر کے لیے موئژ اور جامع مہم چلائے۔

بالآخر ریاستِ پاکستان کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہر قسم کےامتیازی سلوک کے خاتمےکے لئے ملک میں قانونی، انتظامی اور پالیسی کی سطح پر موثر اور جامع إصلاحات متعارف کروائے نیز سیاسی، سماجی،شہری، معاشی اور ثقافتی حقوق کی فراہمی کے تناظر میں شہریوں کے مابین مساوات اور عدم امتیاز کو یقینی بنائے۔

نعمانہ سلیمان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمانہ سلیمان

نعمانہ سلیمان انسانی حقوق سے متعلق تحقیق اور تربیت کا کام کرتی ہیں۔وہ مئینارٹی رائٹس گروپ انٹرنیشنل کے ساتھ وابستہ ہیں اور اُن سے درج ذیل ٹویئٹراکاونٹ کے ذریعے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ @NaumanaSuleman

naumana-suleman has 6 posts and counting.See all posts by naumana-suleman

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments