ریاست کے لئے صرف ایک ستون کافی نہیں


اگست 1990 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت گرادی گئی، جسے بارہ سال کے مارشل لائی دور کے بعد جمہوری طریقے سے ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بنایاگیا۔ محض 20 ماہ کی سرکار ہٹانا شاید اس عمل کا آغاز تھا، جس کا تسلسل اب تک برقرار ہے، اس مجھے صحافت میں قدم رکھے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا، ہمیں نیوز روم میں کام کے ساتھ رپورٹنگ اور فیچر رائٹنگ، کالم نویسی بھی سکھائی جاتی تھی، میں نے حکومت کی برطرفی پر لکھا کہ مقتدر قوتوں نے اب تک جو کچھ جمہوری اداروں کے ساتھ کیا ہے، کیا انہیں بھی کٹہرے میں لائے جائے گا؟

کوئی ایسا نظام لایا جائے کہ عدالتیں خودمختار ہوکر ان اداروں کو جوابدہ بنائیں، ماضی میں بنائے کمیشن کی رپورٹ بھی منظر عام لائی جائے ”۔ میرے ایڈیٹر نے اسے پڑھنے کے بعد قینچی سے اسے کاٹ دیا، میں جوان تھا اور جذباتی بھی، استفسار کیا کہ ایسی باتیں انگریزی اخبار اور جرائد میں چل جاتی ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ عام لوگوں کی اکثریت نے اسے نہیں پڑھنا ہوتا اسی لئے جن کے خلاف ہوتا ہے، وہ برداشت کرلیتے ہیں، قومی یا علاقائی زبانوں میں ایسا کرنا مشکل میں ڈال دیتا ہے۔

بظاہر جواب سمجھ میں آ گیا لیکن دل بھی نہیں مانا، میں نے اتنا ہی حصہ معروف انگریزی میگزین میں لیٹر ٹو ایڈیٹر میں ارسال کر دیا، انہوں نے اسے اچھا کرکے نمایاں طور پر لگادیا۔ ایک تو میری حوصلہ افزائی ہوئی، دوسرے میرا مقصد پورا ہوگیا کہ موقف شائع ہوگیا۔ میں اپنے استاد کو دکھایا انہوں نے پھروہی جواب دیا کہ تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتا کہ یہ قابل قبول ہے، اسے کوئی نہیں پوچھے گا، چاہے تم انہیں گالی بھی دے دو۔

یہ تو تیس سال پہلے کی بات ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے غیر جمہوری اقدامات اور خاص طور پر حکومت اور پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت پر سوالات اردو صحافت میں بھی اٹھائے جانے لگے، یہ شاید جنرل ضیاء الحق کے دور کی تلخیوں کو کم کرنے اور آزادی اظہار کا تاثر قائم کرنے کی طرف قدم تھا۔

کوئی بھی قبول نہیں کرتا کہ اس کے خلاف بہت زیادہ کہا جائے، وہ درست بھی ہو تو تسلیم نہیں کرتا، جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے دور میں پابندیاں لگائیں پھر کچھ آزادی دی لیکن آخری ایام میں اپنی آمرانہ سوچ کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ یہ سوچ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف میں بھی تھی، اپنے مخالفین خاص طور پر صحافت سے وابستہ لوگوں کو ٹف ٹائم دیا، بے نظیر بھی ناگواری کا اظہار کرجاتی تھیں۔ حالیہ دور ففتھ جنریشن کا کہلایا جاتا ہے جس میں ایسی ان دیکھی سنسرشپ کی گئی کہ سوشل میڈیا نے کچھ ذمہ داری سنبھال لی، اس میں ایک قباحت یہ ہے کہ وہاں خبر کے مستند ہونے کا شک رہتا ہے، ادھر، ادھر سے پکڑی اطلاعات سنسنی پھیلادیتی ہیں، سب سے بڑھ کر مخالف پر بآسانی کیچڑ اچھال دیا جاتا ہے، اور یہ سب کون کر رہا ہوتا ہے ملک کے ذمہ دار سیاستدان، صحافی، تجزیہ کار، ماہرین، ان کا مقصد اپنے ذاتی موقف کو نہ صرف دوسروں تک پہنچانا بلکہ اسے سچ ثابت کرنا بھی ہوتا ہے۔ جس کے فالورز زیادہ ہوتے ہیں، اسے درست ماننے کا ٹھپہ بھی لگ جاتا ہے۔

عالمی طور پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کسی بھی حکومتی نمائندے، سیاستدان، یا وزارت کی ترجمانی کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ ہمارے ریاستی ادارے اس شعبے میں بھی سبقت لینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہوتے، انہوں نے ہر معاملے پر اپنا تبصرہ ضرور کرنا ہوتا ہے، تاثر یہی ملتا ہے کہ ان کی نظروں سے کچھ اوجھل نہیں ہے۔

ملک میں جمہوری اداروں سے لے کر سماج کے مختلف طبقات اور مذہبی حلقوں کے معاملات ان کی دسترس سے باہر نہیں ہوتے، کچھ تو اس کو باعث عزت وافتخار جانتے ہیں کہ مقتدر حلقے ان کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ تنقید انہیں بھی نہیں پسند اور کون کرتا ہے، سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل بنے ہیں، جنہوں نے فوری ردعمل دینا ہوتا ہے، اکثر جلد بازی میں کچھ غلط بھی ہوجاتا ہے، لیکن کئی بار زیادہ تاخیر سے یہ کام کرنے کی صورت میں ہزیمت اٹھانا پڑ جاتی ہے۔

ملک کی جمہوری قوتیں اب کہاں ہیں، انہیں منتخب عوامی نمائندے کہہ سکتے ہیں، کیونکہ عساکر نے جمہور پر اتنا غلبہ پایا ہے کہ جمہوریت نام کی رہ گئی ہے، صرف عسکریت ہی بچی ہے، وہ چاہے سوچ کی عسکریت پسندی ہو۔ ریاستی اداروں پر بین السطور میں انگلی اٹھانا یا اشارے کرنا، یہ سوشل میڈیا تک ہوتا ہے اگر سیاسی حلقے ایسا کرتے بھی ہیں تو صرف بتانے کے لئے ”ہمیں چھیڑنا نہیں“ یا ”ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں“ ۔ شاید اس سے زیادہ مقصد اور ہمت بھی نہیں ہوتی، کیونکہ اقتدار کی خواہش کسے نہیں ہوتی، جسے ہاتھ سے گنوانے کی غلطی کوئی نہیں کر سکتا۔

میاں نواز شریف کی پاناما کیس میں برطرفی کے بعد اس سوچ میں شدت آ گئی اب ان کی پارٹی سے زیادہ حقیقی جمہوری قوتیں مزاحمت کررہی ہیں، وہ آج سے نہیں ہمیشہ اس موقف پر قائم رہی ہیں کہ عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے اور انہیں ہی ہٹانے کا اختیار ہونا چاہیے۔

کوئی ادارہ اپنی مرضی سے حکومت بنائے اور پھر پسند نہ آنے یا کسی اختلاف کے باعث اسے ہٹا دے۔ یہ عوام کے مینڈیٹ یعنی ان کے حق کہ کسے حکومت کرنی چاہیے، اس کی کھلم کھلا توہین ہے، اور انہیں یہ احساس بھی دلاتی رہتی ہے کہ طاقت کا مرکز عوام، پارلیمنٹ، جمہوری قوتیں ہرگز نہیں، حتیٰ کہ فیصلہ سازی بھی کسی اور کی صوابدید ہے۔

جب لوگوں کی اکثریت اس بات کو سمجھ لیتی ہے پھر بھی ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ قومی نظریے اور سوچ کی نفی کی جارہی ہے، معاملات سے توجہ ہٹانے کے لئے میڈیا پر نت نئے ایشو کھڑے کردیئے جاتے ہیں تاکہ مسئلہ دبا رہے، عوام کو حاکمیت دیے بغیر نہ ملک ترقی کرتے ہیں، اور نہ ہی جمہوری سوچ پنپ سکتی ہے، یہاں بسنے والوں کی ایک قوم بننے کی خواہش بھی معدوم پڑ جاتی ہے۔ اگر سوچ کی آزادی نہ ہوگی، جمہوری حق نہیں ملے گا، آواز دبا دی جائے گی تو ریاست کے تمام ستون کمزور پڑجائیں گے، انہیں کسی ایک ستون پر کھڑا کرنے کی خواہش بہت بڑی غلطی ہوگی، ایسی عمارت کبھی مضبوط نہیں ہو سکتی جسے کسی ایک یا دو ستون کا سہارا حاصل ہو۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments