انسداد وبا کے لیے چین کی اسمارٹ حکمت عملی


عالمگیر وبائی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو چین کا شہر ووہان سب سے پہلے دنیا کی نظروں میں آیا جہاں متاثرہ افراد کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی اور عالمی توجہ کا نکتہ یہی موضوع رہا کہ چین ووہان میں وائرس پر کیسے قابو پاتا ہے۔ اس وقت کووڈ۔ 19 سے متعلق محدود معلومات اورکمیاب طبی وسائل کی بناء پر چینی حکومت نے لاک ڈاؤن جیسے مضبوط ترین اقدامات اپنائے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں وبا پر موئثر طور پر قابو پا لیا گیا اور آج ووہان شہر کی تمام رونقیں بحال ہو چکی ہیں۔

ووہان اور صوبہ حوبے میں چین کی حاصل کردہ کامیابیوں اور تجربات کی عملی جھلک اس وقت بیجنگ میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں ایک ہول سیل مارکیٹ شن فادی سے سامنے آنے والے چند نئے کیسز کے باعث جنگی بنیادوں پر انسداد وبا کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بیجنگ میں چینی حکومت کی جانب سے وبا کی روک تھام و کنٹرول کے لیے اس مرتبہ اسمارٹ حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔ سادہ الفاظ میں اگر چین کی اسمارٹ اپروچ کو بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انسداد وبا کے حالیہ اقدامات کے باعث شہریوں کے معمولات زندگی متاثر نہیں ہوئے ہیں، بیجنگ کے شہریوں کو لاک ڈاؤن جیسے مسائل کا سامنا نہیں ہے، شہر کے زیادہ تر علاقوں میں دفاتر، کاروباری مراکز، دکانیں، ریستوران اور اشیائے ضروریہ فراہم کرنے والے مراکز بدستور کھلے ہیں اور شہریوں کی اندرون شہر نقل و حرکت بھی جاری ہے۔

چینی حکومت کی جانب سے دو نکاتی حکمت عملی پر توجہ دی جا رہی ہے۔ پہلا نکتہ ”ٹیسٹنگ“ اور دوسرا ”ٹریسنگ“ مطلب وائرس سے متاثرہ کوئی ایک بھی فرد نظر انداز نہ ہو سکے۔ وائرس کی ٹریسنگ کے لیے شہر میں ایک مہم شروع کی گئی جس میں تیس مئی کے بعد شن فادی مارکیٹ جانے والوں کی کھوج کے لیے گھر گھر جا کر پوچھ گچھ، ٹیلی فون کالز، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، بگ ڈیٹا اور دیگر تمام ذرائع کا انتہائی موئثر استعمال کیا گیا۔ شہر میں یومیہ نیو کلک ایسڈ ٹیسٹنگ کی صلاحیت کو اس وقت تین لاکھ تک بڑھا دیا گیا ہے جبکہ ملک بھر میں یومیہ ٹیسٹ کی صلاحیت تقریباً اڑتیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے جس میں مارچ کی نسبت دو سو گنا اضافہ ہوا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین بھر میں اب تک نو کروڑ سے زائد لوگوں کے نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ کیے گئے ہیں جبکہ حیران کن طور پر بارہ جون سے اب تک بیجنگ میں بھی تیئیس لاکھ سے زائد لوگوں کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ اس ضمن میں لازمی نیو کلک ایسڈ ٹیسٹنگ کے لیے لوگوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ٹیسٹنگ کے عمل میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا ہے جنہوں نے یا تو شن فادی مارکیٹ کا دورہ کیا تھا یا پھر مارکیٹ میں کام کرنے والے افراد سے رابطے میں آئے ہیں۔

اسی طرح وہ لوگ جو ریستوران، کینٹین، فوڈ ڈیلیوری یا لاجسٹک وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح بلند اور درمیانے خطرے والے علاقے کے رہائشیوں، طبی عملے، فرنٹ لائن میں موجود اہلکاروں سمیت خدمات کے شعبے مثلاً ٹرانسپورٹ، سپر مارکیٹس، بینکنگ اور مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں کے نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ لوگوں کی سہولت کی خاطر ٹیسٹنگ کے لیے بھی مخصوص مقامات کا تعین کیا گیا ہے۔ آغاز میں ایسے مراکز کی تعداد اٹھانوے تھی جسے اب بڑھا کر ایک سو اٹھائیس کر دیا گیا ہے۔

ان اداروں میں بیس امراض کنٹرول کے مراکز، تہتر اسپتال اور اکتیس میڈیکل لیبارٹریز بھی شامل ہیں۔ اس ضمن میں ایک حالیہ پیش رفت یہ بھی ہوئی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک موبائل لیبارٹری بھی کووڈ۔ 19 ٹیسٹ کے لیے فعال ہو چکی ہے۔ اس موبائل لیبارٹری کی مدد سے یومیہ تیس ہزار نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ کیے جا سکیں گے جبکہ ملک بھر سے ایک سو سے زائد ماہرین اس موبائل لیبارٹری میں تعینات کیے گئے ہیں تاکہ تیز رفتار موئثر ٹیسٹنگ کو آگے بڑھایا جا سکے۔

بیجنگ انتظامیہ کی جانب سے مزید احتیاطی تدابیر کی خاطر درمیانے اور بلند خطرے والے علاقے کے رہائشیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ فی الحال ہوٹلز اور تفریحی مقامات کا رخ نہ کریں۔ چین میں روایتی تہوار ڈریگن بوٹ فیسٹول کی تین روزہ تعطیلات کے دوران بھی فیسٹول کی آن لائن سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔ اس ضمن میں شہریوں کی تفریح کی خاطر کلاؤڈ فیسٹول ترتیب دیا گیا جس میں بتیس ویب سائٹس شریک ہوئیں جبکہ رواں برس ڈریگن بوٹ فیسٹول کی سرگرمیوں کا مرکزی موضوع بھی ”صحت“ رہا۔

آن لائن تفریحی سرگرمیوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بیجنگ کے شہری غیر ضروری سفری سرگرمیوں سے اجتناب کریں لیکن ایسے افراد جن کا شہر سے باہر جانا لازم ہے انہیں اپنے منفی نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ پیش کرنا ہو گا۔ بیجنگ میں اسمارٹ اپروچ کی بدولت اس وقت نئے کیسز کی تعداد بھی نمایاں طور پر کم ہو چکی ہے۔ بیجنگ انتظامیہ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وائرس کا پھیلاؤ اگرچہ پیچیدہ تو ہے لیکن اس کا پیمانہ نسبتاً محدود ہے جس پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے جبکہ اس وقت بھی صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے۔

گزشتہ چھ ماہ کے دوران چین کی انسداد وبا میں حاصل شدہ کامیابیوں کی روشنی میں اس مرتبہ بیجنگ میں نگرانی اور تشخیص کا جامع نظام انتہائی فعال ثابت ہو رہا ہے۔ رہائشی آبادیوں میں عملہ چوبیس گھنٹے نگرانی کے لیے موجود ہے، شہریوں کے ہیلتھ کوڈز کی تصدیق کی جاتی ہے، جسمانی درجہ حرارت کی پیمائش لازم ہے، عوامی مقامات پر ماسک کی پابندی ضروری ہے، شہری بھی سوشل ڈسٹنسنگ کی اہمیت کو جان چکے ہیں لہذا وہ خود بھی دوسرے افراد سے فاصلہ رکھتے ہیں، حفظان صحت کے بنیادی اصولوں پر شہری عمل پیرا ہیں جبکہ رہائشی آبادیوں میں رضاکار، کمیونٹی اہلکار اور حکومتی نمائندے دن رات مصروف ہیں۔

بیجنگ انتظامیہ کے مطابق اگرچہ وبا کے بادل چھٹ رہے ہیں لیکن نئے کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی کے باوجود انسداد وباکے امور میں کسی قسم کی نرمی یا کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔ اگلے مرحلے میں اسپتالوں، اسکولوں اور ریستوران پر توجہ دی جائے گی۔ شن فادی مارکیٹ سے وائرس کے نئے کیسز سامنے آنے کے بعد بیجنگ شہر میں فوڈ سیکیورٹی کو مضبوط بنایا جائے گا اور نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ کی صلاحیت کو مزید بلند کیا جائے گا۔

بیجنگ ایک بڑا شہر ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جبکہ یہاں چین بھر سے ستر لاکھ سے زائد تارک وطن روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ اسی طرح یہاں بسنے والے غیر ملکیوں کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد ہے جبکہ بیرونی ممالک کے تیس ہزار سے زائد یونیورسٹی طلباء بھی شہر میں موجود ہیں۔ اپنے عوام سمیت یہاں بسنے والے غیرملکیوں کا تحفظ چینی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اس سارے عمل میں وائرس پھیلاؤ کے ”بنیادی اسباب“ کا کنٹرول کلید ہے۔ اگر ترسیل کی چین کو منقطع کر دیا جائے تو وائرس کا راستہ کامیابی سے روکا جا سکتا ہے۔ بیجنگ کی جانب سے بروقت ”ٹارگٹڈ“ حکمت عملی کی بدولت وبا کے آگے ایک مضبوط بند باندھ دیا گیا ہے جو چین کے دانشمندانہ اور ٹھوس عملی اقدامات کا واضح مظہر اور دنیا کے لیے ”اسمارٹ اپروچ“ کی بہترین مثال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments