فواد چوہدری اور ادھر کا اشارہ


آج پاکستان میں سب سے اہم سوال یہی ہے: کیا نا اہلیت کرپشن سے زیادہ نقصان دہ ہے؟ اس واقعہ میں آپ کو اس سوال کا جواب سمجھنے میں آسانی ہو جائیگی۔ امریکہ میں مقیم ایک کنبے کی پاکستان میں تین ٹیکسٹائل ملیں ہیں۔ ایک ہی شخص ان تینوں کا جنرل منیجر ہے۔ وہ ملز کے ہر گاہک سے 0.50 فیصد کمیشن وصولتا ہے۔ ملز مالکان کے ایک قریبی عزیز کو اس کمیشن کی بہت تکلیف تھی۔ ایک مرتبہ مالکان امریکہ سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔وہ شخص مال خریدنے مل پہنچاتو مالکان کو دیکھ کر جذباتی سا ہو گیا۔ وہ انہیں ایک ہی سانس میں اپنی شکایات دہرانے لگا۔ بولا۔آج میں نے آپ کے جنرل منیجر کو دو لاکھ روپیہ کمیشن دینی ہے۔ آپ کے پاس سنہری موقع ہے اسے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا۔وہ بولے۔ آپ اطمینان رکھیں، سکون سے رہیں ، جتنی وہ کمیشن لیتا ہے اسے ادا کریں۔ واپسی پر ہمیں ضرور مل کر جائیں۔ اس کا سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا۔

واپسی پر اسے سمجھایا گیا۔” یہ صاحب پوری ہنرمندی سے ملوں کو چلاتے ہیں۔ دس برس میں ہماری ایک مل سے تین ہو گئی ہیں۔ بینکوں کے سارے معاملات کلیئر ہیں۔ لیبر کنٹرول میں ہے۔ پروڈکشن پوری ہے۔ یہ سب کچھ اس کرپٹ بندے کی دن رات جان توڑ محنت کا نتیجہ ہے۔ اگریہ فروخت کے ساتھ خرید پر بھی کمیشن کماتا ہے تو ہمیں کیا؟ ہم نے ایساایماندار بندہ رکھ کر کیا کرنا ہے جو ملوں کو احسن طریقے سے چلا ہی نہ سکے اور ہمارا سارا کاروبار تباہ ہو جائے “۔

آج پاکستان کے عوام جب کاروبارحکومت دیکھتے ہیں تو انہیں ن لیگ کی مبینہ کرپشن بے معنی لگتی ہے اور عمران خان کی دیانت بھی لاحاصل۔ پھر تحریک انصاف کے پارٹی فنڈنگ کیس میں تاخیری حربے بھی اس ایمانداری پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ آج ہماری ملکی معیشت تباہ حال ہے۔ شرح نمو منفی میں چلی گئی ہے۔ ترقیاتی فنڈ بند ہیں۔ بجٹ خسارے میں ہے۔ کوئی نیا منصوبہ زیر غور نہیں۔ سردست بہتری کی کوئی امید بھی نہیں۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں تحریک انصاف کاجماعتی ورک صرف ضلعی افسروں کی حمایت میں بینر لگوانے تک محدود ہے۔ شاید پاکستانی روپیہ کی قیمت گرنے کے باعث دفاعی بجٹ میں 11.5اضافہ کرنا پڑا ہو۔ لیکن کوئی حکومتی وضاحت نہ ہونے کے باعث عوام اور طرح سے سوچ رہے ہیں۔شاعر رحمان فارس نے بجٹ میں دفاع اور صحت کیلئے مختص رقم لکھ کرعمران خان تک اپنا یہ پیغام بھجوایا ہے۔

میں یاد دلا دوں تو اگر بھول گیا ہے

درپیش ابھی جنگ نہیں عہد وبا ہے

عمران خان کیلئے ایک پیغام اور بھی ہے۔ ان کے ایک مداح کا کہنا ہے کہ جب انہیں پٹرول کی قیمت بڑھنے کا پتہ چلا تو وہ ضرور کوئی فوری اقدام کریں گے۔تو لیجئے ! خان صاحب پٹرول بہت مہنگا کر دیا گیا ہے۔ کرونا کاٹتی ہے یا کاٹتا ہے ؟ کرونا کی انیس اقسام ہیں یا اس سے زیادہ ؟ انہیں چھوڑیں۔ لیکن جب بھی میاں شہباز شریف اور عثمان بزدار میں تقابل کیاجاتا ہے تو عمران خان کی ایمانداری پر ایمان رکھنے والوں کو بھی بہت تکلیف ہوتی ہے۔ عثمان بزدار پنجاب کے تمام اضلاع اور اپنے سارے وزیروں کے ناموں تک سے بے خبر ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک زندہ دل کارکن نے ہنستے ہوئے بتایا۔ ہماری حکومتی کارکردگی صفر کے برابر ہے۔ کرونا کے ماسک نے لوگوں سے ہمارے منہ چھپانے کا بندوبست کر دیا ہے۔ ماسک ، دوائیاں، سینی ٹائزر کی قیمتوں پر کوئی حکومتی کنٹرول نہیں۔ آج یہ زندگی میں آٹے جتنے ہی اہم ہیں۔

ادھر باخبری کا یہ عالم تھا کہ 2013کے الیکشن میں گوجرانوالہ شہر سے ایک صوبائی حلقہ سے کالم نگار کوتحریک انصاف کا انتخابی ٹکٹ مل گیا تھا۔ اس حلقہ کے اوپر ایم این اے کی سیٹ پر تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر بیرسٹر علی اشرف مغل تھے۔ دوسری جانب اسی حلقہ میں ن لیگ کے امیدوار کالم نگار کے چچا بیرسٹر عثمان ابراہیم تھے۔ ہمارے ملک میں الیکشنوں میں برادریوں کا عنصر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔پھر اس حلقہ میں کمبوہ ووٹروں کی موثر تعداد کے باعث بیرسٹر علی اشرف کیلئے کالم نگار کی بجائے کوئی کمبوہ امیدوار نسبتاً زیادہ موزوں تھا۔ سووہ عمران خان کویہ نکتہ سمجھانے میں کامیاب رہے اور کالم نگار کا ٹکٹ واپس ہو گیا۔ یہ فیصلہ رات گئے ہوا۔ علی الصبح ہیلی کاپٹر پر بیٹھتے ہوئے میاں شہباز شریف نے اس زمانے کے انفارمیشن سیکرٹری شعیب بن عزیز کو بتایا کہ رات تمہارے دوست سے ٹکٹ لے لیا گیا ہے۔ کالم نگار ابھی اس فیصلہ سے بے خبر تھا۔ میاں شہباز شریف کو صرف جالب کی شاعری ہی ازبر نہیں تھی ، ان کی تمام اردو انگریزی کالموں پر بھی نظر رہتی۔ پھر اس سلسلہ میں وہ فوری مناسب احکامات بھی جاری کرتے رہتے۔

صدیوں پہلے دریائے جہلم کے کنارے جنگ میں فتح پانے کے بعد سکندر اعظم نے ہارے ہوئے لشکر کے راجہ پورس سے پوچھا تھا :بتاﺅ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟پورس کے تاریخی جواب سے سبھی آگاہ ہیں۔ یہ جواب متانت ، ذہانت اور شجاعت سے لبریز تھا۔ جہلم ہی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر فواد چوہدری کے تازہ انٹر ویو میں بھی اتنی ہی جرات ، دانش اور معاملہ فہمی موجود ہے۔ انہوں نے عمران خان کی ناکامی کے تمام اسباب وضاحت سے بتا دیئے ہیں۔ فواد چوہدری کا تعلق عسکری بیلٹ کے ضلع جہلم سے ہے۔ ان کے ایک چچا گورنر پنجاب اور دوسرے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ رہے ہیں۔ کئی بار اسمبلی کی ممبریاں بھی ان کے خاندان کا اعزاز رہیں۔ ایسا کامیاب سیاسی خاندانی شخص خود کشی کر لے، سو کر لے ، سیاسی خود کشی ہرگز نہیں کر سکتا۔سو اس جرات رندانہ میں زیادہ کمال ادھر کے اشارے کا گمان پڑتا ہے۔ دیکھئے مرزا اسد اللہ خان غالب بھی اسی خیال کے حامی ہیں۔

چاک مت کر جیب بے ایام گل

کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments