یورپ کی ترقی اور چند تاریخی ٓحقائق


ایک قوم کیوں ترقی کرتی ہے اور پھر کیوں ایک جگہ پر پہنچ کر اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے؟ عروج و زوال کے پیچھے اہم محرکات کیا ہیں؟

ہم تاریخ کے درست تجزیے کی بدولت کسی قوم کا مجموعی رویہ، سوچ اور نظریہ سمجھ سکتے ہیں۔ ابن خلدون، اشپنیگلر اورٹوائن بی، ان مفکرین میں سے ہیں جنھوں نے قوموں کی حالتوں اور ان کے مجموعی کردار پر زیادہ بات کی ہے۔ دراصل ترقی کے لیے کسی بھی معاشرے میں ضروری عنصر فکری تبدیلی اور نظریات کے ارتقاء کا ہے۔ کچھ معاشرے ایسے ہیں جو فکری تبدیلی کے عمل کی مزاحمت کرتے ہیں۔ لیکن جہان اس عمل کو قبول کر لیا جائے وہاں معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔

بعض مورخین نے کچھ علاقوں کی ترقی اور خوشحالی کی وجہ وہاں کی آب وہوا اور افراد کی نسلی برتری بتائی ہے۔ ڈیوڈ۔ ایس۔ لانڈس اپنی کتاب ”قوموں کی دولت اور غربت“ میں کہتا ہے کہ آب و ہوا سرد ہو تو لوگ ذہین اور چست پیدا ہوتے ہیں۔ وہ یورپی اقوام کی برتری پر دلائل دیتے ہوئے ان کی موسمی اور نسلی خوبیوں کو بنیاد بناتا ہے۔

اس کے برعکس ابن خلدون کا کہنا ہے کہ معتدل آب و ہوا والے لوگ محنتی اور باصلاحیت ہوتے ہیں۔ اور دوسری اقوام سے برتر ہوتے ہیں۔ یورپ کی ترقی پر بات کرتے ہوئے اکثر مورخین نے ایشیا کا مسخ شدہ چہرہ پیش کیا ہے۔ لانڈس کہتا ہے کہ اشیا کی نسبت یورپ کی آبادی سست روی سے بڑھی ہے۔ ایشیا کی آبادی زیادہ تھی لہذا یہاں کے حکمرانوں نے لاکھوں افراد سے جبری مشقت کروا کر شاندار عمارتیں تعمیر کروائیں۔ جبکہ یورپ نے احرام جیسی عمارتیں قائم نہیں کروائیں اور خود کو مشرق سے علیحدہ رکھا۔

مورخین میں بلاٹ نے یوپ کی ترقی پر مدلل جوابات پیش کیے۔ اور یورپ کی فسانوی برتری کو چیلنج کیا۔ درحقیقت فسانوی تجزیوں نے یورپ کی مادی ترقی کے نہایت اہم محرکات کو نہ صرف چھپایا ہے بلکہ استعماریت کے پیچھے چھپی تاریخی ریاضت سے بھی توجہ ہٹائی ہے۔ یورپ میں اگرچہ فکری تبدیلی کے لیے ماحول دیگر خطوں کی نسبت زیادہ سازگار رہا ہے۔ سماجی قانون اور ضابطے لچکدار رہے جن کا سلسلہ ”لکرگس“ یا ”سولن“ کے قوانین سے جڑا ہوا ہے۔ ایک اور اہم بات یورپ میں افراد کی آزادی اور کسانوں کی بغاوتوں کی تحریکیں ہیں جن کا کامیاب تریں مظاہرہ فرانسیسی انقلاب میں ”حقوق انسانی کا اعلامیہ“ ہے۔ اس حوالے سے 1376 میں لولارڈز اور 1514 میں لوتھر اور کالون کی تحریکیں قابل ذکر ہیں۔

یورپ کی ترقی کے حوالے سے ”فرنانڈ بروڈل“ کا کہنا ہے کہ یورپ نے اپنی فتوحات سے مادی ترقی میں مدد لی۔ خصوصاً ”نورس“ کے حملوں کے بعد اپنی بحری طاقت کو بڑھایا۔ مورخین کی اکثریت کے مطابق 1492 کو یورپ کی تاریخ کا اہم تریں سال قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس سال امریکہ کی دریافت ہوئی۔ اس دریافت نے یورپ کو سرمائے کی طاقت دی اور جاگیردانہ نظام ختم ہوا۔ امریکہ میں وسائل اور زمینوں پر قبضہ کرنے میں یورپی اس لیے کامیاب رہے کیونکہ ان کی ٹینکنالوجی باقی باشندوں کے مقابلے میں بہتر تھی۔ لہذا ان کے خلاف مزاحمت کم ہوئی۔ اس کے علاوہ یورپیوں نے مقامی باشندوں میں بیماریوں کو پھلایا جس سے ان کی آبادی کو گھٹا دیا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سولھویں صدی میں میکسکو کی آبادی گھٹ کر صرف 10 فیصد رہ گئی تھی۔ اسی وجہ سے یورپی ان کی زمینوں پر قابض ہو گئے تھے۔

یورپ کی ترقی میں امریکہ نے اس طرح بھی اہم کردار ادا کیا کہ امریکہ کی کانوں سے سونا چاندی اور دوسری معدنیات یورپ آ رہی تھیں۔ آمدنی کا دوسرا ذریعہ ”جزائر الہند“ میں پلانٹیشن کے ذریعے زرعی پیداوار بنی۔ خاص طور پر شکر، جس کی پیداوار کے لیے افریقہ سے غلاموں کو لایا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 1646 میں 180 ٹن سونا اور 1700 ٹن چاندی امریکہ سے یورپ لائی گئی تھی۔ 1580 تک 85 فیصد چاندی امریکہ سے آئی ہوئی تھی۔

اس کی بدولت یورپی اس قابل ہو گئے تھے کہ زمینیں خرید سکیں اور تنخواہیں ادا کر سکیں۔ اسی وجہ سے انھوں نے بین الاقوامی تجارت کو کنٹرول کیا۔ اس وقت کے بحری مراکز جیسے سوفالا، کالی کٹ اور ملاکان ان کے قبضے میں آگئے۔ یورپ کی مادی ترقی میں جارحانہ قبضے اور استعماریت کا پہلو بلاٹ نے کھول کر بیان کیا۔ اس نے یورپ کی مرکزیت کے تصور کو پاش پاش کیا ہے۔ ان حقائق کی بدولت ہمیں یورپ کے مجموعی رویے کو زیادہ بہتر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ جو جدید دنیا میں اپنا خاصہ اثرورسوخ رکھتا ہے۔

سید بابر علی زیدی
Latest posts by سید بابر علی زیدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments