کیا گوگل، بائیو میٹرک، جی پی ایس اور الگورتھم کی دنیا میں ہماری انفرادی شناخت گم ہو جائے گی؟  


جو عمل ادویات کے شعبہ میں پہلے ہی شروع ہوچکا ہے اب وہی عمل زیادہ سے زیادہ شعبوں میں شروع ہونے والا ہے۔ سب سے اہم ایجاد بائیو میٹرک سینسر ہے جسے لوگ اپنے جسم کے اوپر یا اندر لگا سکتے ہیں اور جو بیالوجیکل عمل کو الیکٹرانک معلومات میں تبدیل کرتا ہے۔ جس کو کمپیوٹر اپنے پاس محفوظ بھی رکھ سکتا ہے اور اس کا تجزیہ بھی کر سکتا ہے۔ جب کمپیوٹر کے پاس آپ سے متعلق کافی زیادہ بائیومیٹرک ڈیٹا اور کمپیوٹنگ کی بہت ساری طاقت ہوگی تو یہ بیرونی ڈیٹا پراسسنگ سسٹم آپ کی تمام تر خواہشات، فیصلوں اور آرا کو ہیک کر سکتا ہے۔ کمپیوٹر آپ کے بارے میں بہتر جان سکے گا کہ آپ کون ہیں؟

زیادہ تر لوگ خود کے بارے میں اچھے سے نہیں جانتے ہیں۔ جب میں اکیس سال کا تھا، تب کئی سال انکار کی زندگی گزارنے کے بعد آخر کار مجھے احساس ہوا کہ میں ہم جنس پرست ہوں۔ یہ شاید غیر معمولی ہے۔ بہت سارے ہم جنس پرست مرد اپنی ابتدائی ٹین ایج کو اپنی جنسیت سے متعلق غیر یقینی طور پر گزارتے ہیں۔ اب 2050 کی صورتحال کا اندازہ کریں جب الگورتھم کسی بھی نوجوان کو بالکل یہ بتا سکتا ہے کہ وہ ہم جنس پرست ہے۔ شاید الگورتھم آپ کو پرکشش مردوں اور عورتوں کی تصاویر یا ویڈیوز دکھائے اور آپ کی آنکھوں کی نقل و حرکت، بلڈ پریشر اور دماغی سرگرمی کا سراغ لگائے اور پانچ منٹ کے اندر اس سے متعلق اپنے اعداد و شمار پیش کردے۔

یہ مجھے کئی سالوں کی مایوسی سے بچا سکتا تھا۔ شاید آپ ذاتی طور پر اس طرز کا ٹیسٹ کروانا نہیں چاہیں گے، لیکن اگر آپ دوست کی سالگرہ کی پارٹی میں دوستوں کے ایک گروپ میں سے کوئی آپ کو مشورہ دیتا ہے کہ اس زبردست الگورتھم پر اپنے آپ کی جانچ پڑتال کریں (یعنی ایسی صورتحال پیدا ہو جائے کہ سبھی لوگ آس پاس کھڑے ہوں اور نتائج دیکھ کر تبصرے کر رہے ہوں ) کیا آپ وہ محفل چھوڑ کر باہر نکل جائیں گے؟

حتی کہ اگر آپ اسے اپنے آپ اور اپنے ہم جماعتوں سے چھپاتے رہتے ہیں تو پھر بھی آپ اس حقیقت کو ایمیزون، علی بابا یا پھر خفیہ پولیس سے نہیں چھپا سکیں گے۔ کیونکہ جونہی آپ ویب سرفنگ کرتے ہیں، یو ٹیوب دیکھتے ہیں یا پھر اپنی سوشل میڈیا فیڈ کو پڑھتے ہیں تو الگورتھم بڑی ہوشیاری سے آپ کی نگرانی کرے گا اور آپ کا تجزیہ کرے گا اور کوکا کولا کمپنی کو بتائے گا کہ وہ آپ کو ٹھنڈی کولڈ ڈرنکس بیچنا چاہتا ہے تو اسے آدھے کپڑے پہنے ہوئے لڑکیوں کی بجائے، آدھے کپڑے پہنے لڑکوں کے اشتہارات دکھانا چاہیں۔ اس کڑی نگرانی کے عمل کا آپ کو بالکل بھی پتہ نہیں چل پائے گا، لیکن الگورتھم سب جان لے گا اور ایسی معلومات اربوں ڈالر کی ہوں گی۔

اور پھر شاید یہ سب کچھ کھل کر سامنے آ جائے گا اور بہتر تجاویز کے حصول کے لیے لوگ الگورتھم سے فیصلے کروانے کے لیے خوشی خوشی اپنی معلومات شیئر کریں گے۔ اس عمل کی شروعات عام سی چیزوں سے ہوتی ہے، جیسا کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کون سی فلم دیکھی جائے۔ جب آپ دوستوں کے گروپ کے ساتھ ایک آرام دہ شام گزارنے کے لیے بیٹھتے ہیں تو پہلے آپ کو انتخاب کرنا ہوگا کہ اس شام کون سی فلم دیکھنی ہے۔ پچاس سال پہلے آپ کے پاس آپشن نہیں ہوتا تھا۔

لیکن آج ہزاروں آپشنز دستیاب ہیں۔ سب دوستوں کا کسی ایک رائے پر متفق ہونا کافی مشکل ہے، کیونکہ آپ کو ذاتی طور پر سائنس فکشن تھرلر پسند ہیں، آپ کا ایک دوست مزاح نگاری کو ترجیح دیتا ہے، جبکہ دوسرا فرانسیسی فلموں کی حمایت کرتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ سبھی لوگ بالآخر ایک بی کلاس فلم پر سمجھوتہ کر لیں جو آپ سب کو مایوس کردے۔ لیکن یہاں پر ایک الگورتھم مد د کر سکتا ہے۔ آپ میں سے ہر کوئی اسے بتا سکتا ہے کہ دیکھی گئی فلموں میں سے کون سی کسے پسند ہے اور پھر اس بڑے پیمانے پر تیار شدہ شماریاتی ڈیٹا بیس کی مدد سے الگورتھم آپ دوستوں کے لیے بہترین انتخاب پر مشتمل فلموں کی فہرست بنادے گا۔

بدقسمتی سے اس قسم کے خام الگورتھم کو آسانی سے گمراہ کیا جا سکتاہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اپنے بارے میں سچ سچ بتانا ایک ناقابل اعتبار پیمانہ ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم بہت سارے لوگوں کو کسی فلم کے شاہکار ہونے سے متعلق بات کرتے ہوئے سنتے ہیں۔ یہ عمل ہمیں مجبور کردیتا ہے کہ ہم یہ فلم دیکھیں۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ فلم کے درمیان میں ہی ہم سوجاتے ہیں، جبکہ خود کو فلسطینیوں کی طرح بیچارے ظاہر کرنے سے بچنے کے لیے ہم سب کو بتاتے ہیں فلم بہت حیرت انگیز تھی۔ اگرہم الگورتھم کو رئیل ٹائم ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت دے دیں تو رئیل ٹائم ڈیٹا اس طرح کے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔

یہ ان فلموں کے ریکارڈ پر مشتمل ہوگا جو ہم سچ میں دیکھتے ہیں۔ ابتدا میں الگورتھم ہماری نگرانی کر سکتاہے کہ ہم کون سی فلم مکمل دیکھتے ہیں اور کون سی درمیان میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم پوری دنیا کو بھی یہ بتا دیں کہ ”گون ودھ دی ونڈ“ اب تک کی بہترین فلم ہے تو پھر بھی الگورتھم کو خبر ہو جائے گی کہ ہم نے اس فلم کو پہلے آدھے گھنٹے میں بھی نہیں دیکھا اور ہم نے کبھی بھی اٹلانٹا جلتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔

اس لیے الگورتھم زیادہ گہرائی میں جا کر اندازہ لگا سکتا ہے۔ انجنئیر اس وقت ایسا سافٹ وئیر بنارہے ہیں جو ہماری آنکھوں اور چہرے کے پٹھوں کی حرکت سے ہمارے جذبات کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ ٹیلی ویژن کے اندر ایک اچھی قسم کا کیمرہ شامل کرکے یہ سافٹ وئیر پتہ چلا لے گا کہ کون سے مناظر نے ہمیں ہنسایا، کس منظر نے ہمیں افسردہ کر دیا اور ہماری اکتاہٹ کا سبب کون سے مناظر بنے۔ اس سے اگلا قدم یہ ہوگا کہ الگورتھم کو بائیو میٹرک سینسر کے ساتھ جوڑ دیا جائے، جس سے الگورتھم جان لے گا کہ ہر ایک منظر کس طرح ہمارے دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور دماغی سرگرمی پر اثر انداز ہوا۔

ٹیلی ویژن کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ ”ٹیلی“ سے آیا ہے جس کا مطلب ہے ”دور“ اور لاطینی لفظ ”ویژیو“ کا مطلب ہے ”نظر“ ۔ دراصل یہ آلہ اس سوچ کے ساتھ بنایا گیا تھا کہ یہ ہمیں دور سے دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ ہمیں دور سے ہی دیکھے جانے کی اجازت بھی دے سکتا ہے۔ جیسا کہ جارج آر ویل نے انیس سو چوراسی میں تصور دیا تھا کہ ٹیلی ویژن ہمیں دیکھتا رہے گا، جب ہم اسے دیکھ رہے ہوں گے۔ جب ہم ”ٹرنٹینو“ مکمل دیکھ چکے ہوں گے، شاید اس میں سے بیشتر کو بھول بھی گئے ہوں لیکن نیٹ فیلکس یا ایمیزون یا جو بھی ٹی وی الگورتھم کا مالک ہوگا، وہ ہماری شخصیت کے بارے میں جان جائے گا۔

جس سے اسے پتہ چل جائے گا کہ کس طرح سے ہمارے جذباتی بٹنوں کو استعمال کرنا ہے اور یوں یہ ڈیٹا نیٹ فلیکس اور ایمیزون کو اس قابل بنادے گا کہ ہمارے لیے انتہائی رازدرانہ انداز میں بالکل درست فلموں کا انتخاب کردے گا، لیکن یہی ڈیٹا انہیں ہماری زندگیوں کے سب سے اہم فیصلے (جیسا کہ کیا پڑھنا چاہیے؟ ، کہاں کام کرنا ہے؟ اور کس سے شادی کرنی ہے؟ ) کرنے کے قابل بھی بنادے گا۔

یقیناً ایمیزون ہر وقت درست نہیں ہوگا۔ یہ ناممکن ہے۔ ناکافی ڈیٹا، ناقص پروگرامنگ، مقصد کی غیر واضح تعریفیں اور زندگی کی انتشار انگیز نوعیت کی بنا پر الگورتھم بار بارغلطیاں کرے گا۔ لیکن ایمیزون کو کامل درست ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کو تو صرف ہم انسانوں سے قدرے بہتر ہونے کی ضرورت ہے اور ایسا ہونا کوئی خاص مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ لوگوں کی اکثریت خود کو اچھے سے نہیں جانتی ہے اور زیادہ تر لوگ اپنی زندگیوں کے اہم ترین فیصلوں میں بڑی خوفناک قسم کی غلطیاں کرتے ہیں۔ اس لیے الگورتھم کی نسبت زیادہ تر انسان ناکافی ڈیٹا، ناقص پروگرامنگ (جینیاتی اور ثقافتی) غیر واضح تعریفیں اور زندگی کی افراتفری کا شکار ہوتے ہیں۔

آپ الگورتھم کو بری طرح سے گھیرنے والے بہت سارے مسائل کی اچھی طرح فہرست بنا سکتے ہیں اور یہ دعوی بھی کر سکتے ہیں کہ لوگ اس پر اعتبار نہیں کریں گے۔ لیکن یہ عمل جمہوریت کی خرابیوں کی لسٹ بنانے اور یہ نتیجہ نکالنے جیسا ہوگا کہ کوئی بھی عقلمند آدمی ایسے کسی نظام کی حمایت نہیں کرے گا۔ ونسٹن چرچل کی مشہور کہاوت ہے ”دنیا کے دوسرے نظاموں کی نسبت جمہوریت سب سے برا نظام ہے“ ۔ درست یا غلط طور پر لوگ بگ ڈیٹا الگورتھم کے بارے میں اسی نتیجے پر پہنچے گے۔ بہرحال اس میں بہت سارے سقم ہوسکتے ہیں مگر ہمارے پاس اس سے بہتر متبادل موجود نہیں ہے۔

جوں جوں سائنسدان انسانوں کے فیصلے کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں آگاہ ہورہے ہیں، الگورتھم پر بھروسا کرنے کی ترغیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ انسانی فیصلہ سازی کے عمل کو ہیک کرنا، بگ ڈیٹا الگورتھم کو نہ صرف زیادہ قابل اعتماد بنادے گا بلکہ یہ بیک وقت انسانی جذبات کو بھی کم قابل اعتماد بنادے گا۔ اگر حکومتیں اور کارپوریشن انسانی آپریٹنگ سسٹم کو ہیک کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں، تو ہمارے پاس اشتہارات اور پروپیگنڈا کے لیے انتہائی درست انداز میں اکٹھا کیا گیا وسیع مواد موجود ہوگا۔ ہماری رائے اور جذبات کو استعمال کرنا اسی قدر آسان ہو سکتا ہے کہ ہمیں عین اسی طرح الگورتھم پر انحصار کرنے پر مجبور کیا جائے جس طرح ایک پائلٹ جسے ورٹانگو کے حملے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اسے اپنے حواس کی بتائی ہوئی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور سارا اعتماد مشینری پر کرنا ہوتاہے۔

کچھ ممالک اور کچھ حالات میں لوگوں کو کوئی انتخاب نہیں دیا جاسکتا ہے۔ وہ بگ ڈیٹا الگورتھم کے فیصلوں کو ماننے پر مجبور ہوں گے۔ پھر بھی مبینہ طور پر آزاد معاشروں میں الگورتھم اتھارٹی حاصل کر سکتے ہیں، کیونک ہم تجربے سے سیکھ لیں گے کہ ان مسائل کی صورت میں ان پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرنا ہے اور یوں ہم آہستہ آہستہ اپنے لیے فیصلے کرنے کی اپنی صلاحیت سے محروم ہوجائیں گے۔ ذرا اس طرح سوچیے کہ محض دو دہائیوں کے اندر ہی (متعلقہ اور قابل اعتماد معلومات کی تلاش کے لیے ) اربوں افراد نے اپنے اہم ترین کاموں کو گوگل الگورتھم کے سپرد کر دیا ہے۔ اب ہم معلومات کی تلاش نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کی بجائے ہم گوگل کرتے ہیں اور جیسے جیسے ہم تیزی سے گوگل پر جوابات کے لیے انحصار کرتے ہیں، اسی طرح ہماری خود سے معلومات تلاش کرنے کی صلاحیتیں کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پہلے ہی آج سچائی کی تعریف گوگل سرچ کے اعلیٰ نتائج کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔

یہ سب جسمانی صلاحیتوں کے ساتھ بھی ہوتارہا ہے جیسا کہ خلا میں جہاز چلانا۔ لوگ اپنے گردونواح سے متعلق رہنمائی کے لیے گوگل سے پوچھتے ہیں۔ جب وہ کسی چوراہے پر پہنچتے ہیں تو ان کے اندرونی احساسات بائیں طرف مڑنے کا کہتے ہیں مگر گوگل دائیں طرف مڑنے کو کہتا ہے۔ پہلے وہ اپنے اندرونی احساسات کی بات سنتے ہیں اور بائیں طرف مڑجاتے ہیں اور یوں وہ ایک اہم میٹنگ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اگلی بار وہ گوگل کو سنتے ہیں اور دائیں طرف مڑتے ہیں اور وقت پر پہنچ جاتے ہیں۔

اس طرح تجربے سے وہ گوگل پر اعتماد کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ ایک یا دو سال کے اندر، وہ آنکھیں بند کرکے گوگل کی ہر بات پر بھروسا کرنے لگیں گے اور اگر سمارٹ فون کسی جگہ خراب ہوجاتا ہے تو وہ ہر طرح سے بے خبر ہوں گے۔ انہیں کچھ اندازہ نہیں ہوگا کہ کہاں جانا ہے۔ مارچ 2012 میں آسٹریلیا میں تین جاپانی سیاحوں نے ایک چھوٹے سے غیر ملکی جزیرے پر ایک دن کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی گاڑی سیدھے بحرالکاہل میں لے گئے۔

اکیس سالہ ڈرائیور بوزوندانے نے بعد میں بتایا کہ اس نے جی پی ایس کی ہدایات پر عمل کیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ ہم وہاں گاڑی چلا سکتے ہیں۔ یہ ہدایات ہمیں مسلسل بتاتی رہیں ہے کہ یہ ہمیں سڑک پر لے جائے گی۔ لیکن ہم پھنس گئے۔ اسی طرح متعدد واقعات میں لوگ بظاہر جی پی ایس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جھیل میں جا گرے یا پھر ٹوٹے ہوئے پل سے نیچے جا گرے۔ راستہ تلاش کرنے کی اہلیت ایک طاقت کی مانند ہے، جسے ہم حاصل کر سکتے ہیں اور کھو بھی سکتے ہیں۔ جیون ساتھی یا پیشے کی انتخاب کرنے کی اہلیت کے لیے بھی یہی بات درست ہے۔

ہر سال لاکھوں نوجوانوں کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ یونیورسٹی میں کیا تعلیم حاصل کریں۔ یہ ایک بہت ہی اہم اور مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ آپ پر اپنے والدین، دوست احباب اور اساتذہ کی طرف سے دباؤ ہوتا ہے جن کی دلچسپیاں اور آرا مختلف ہوتی ہیں۔ آپ کے خود کے فیصلے بالی ووڈ کے بلاک بسٹر ز، ردی ناولوں اور نفیس اشتہاری مہموں کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ ایک عقل مندانہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ آپ واقعتاً نہیں جانتے ہیں کہ مختلف پیشوں میں کون سی چیز آپ کو کامیابی سے ہمکنار کردے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ آپ کے پاس اپنی طاقت اور کمزوریوں کا حقیقت پسندانہ تصور موجو دہو۔ بطور وکیل کامیاب ہونے کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے؟ دباؤ کے زیر اثر میں کس طرح سے کام کر سکتا ہوں؟ کیا میرے اندر ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی صلاحتیں بدرجہ اتم موجود ہیں؟

ایک طالب علم لا اسکول شروع کر سکتی ہے، کیونکہ اس کے پاس اپنی صلاحیتوں کی ایک غلط تصویر ہے اور اس سے بھی زیادہ مسخ شدہ نظریہ کہ وکیل ہونے کے ناتے اصل میں کیا شامل ہے (آپ کو سارا دن ڈرامائی انداز میں تقاریر کرنے اور آبجیکشن یور آنر کہنے کو نہیں ملتا ہے ) ۔ اسی دوران اس کی دوست نے بچپن کا خواب پورا کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پیشہ ورانہ ’بیلٹ ڈانس‘ کا مطالعہ شروع کر دیا۔

ایک بار جب جاب اور تعلقات کے بارے میں مصنوعی ذہانت ہم سے بہتر فیصلے کرتی ہے تو ہمیں انسانیت اور زندگی کے بارے میں اپنے تصورات کو بدلنا پڑے گا۔ انسان زندگی کو فیصلہ سازی کے ڈرامے کے طور پر سوچنے کا عادی ہے۔ آزاد جمہوریت اور فری مارکیٹ کیپٹل ازم فرد کو ایک خود مختار ایجنٹ (جو کہ دنیا کے بارے میں مستقل انتخاب کرتا ہے ) کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ فنون لطیفہ کا تمام کام (چاہے وہ شیکسپیئر کے ڈرامے ہوں، جین آسٹن کے ناول ہوں یا بالی ووڈ کی مزاحیہ فلمیں ہوں ) عام طور پر سب کچھ ہیرو کے اہم فیصلے کے گرد گھومتے ہیں۔

کیا کروں کیا نہ کروں؟ اپنی بیوی کی بات سنوں اور بادشاہ ڈنکن کو ماردوں یا پھر اپنے ضمیر کی بات سنوں اور اسے چھوڑ دوں مسٹر کولن سے شادی کروں یا ڈارسی سے؟ مسیحی اور مسلم الہیا ت اسی طرح فیصلہ سازی کے ڈرامے پر بھی توجہ دیتی ہیں اور بحث کرتی ہیں۔ لازوال نجات یا سزا کا انحصار زندگی گزارنے کے طریقہ کار کے انتخاب پر ہے۔

زندگی کے اس نظارے کا کیا بنے گا؟ کیوں کہ ہم اپنے فیصلوں کے لیے تیزی سے مصنوعی ذہانت پر بھروسا کرتے ہیں۔ فی الحال آج ہم نیٹ فیلکس پہ فلموں کی تجویز کے لیے اور گوگل میپ دائیں یابائیں مڑنے کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ لیکن ایک بار جب ہم مصنوعی ذہانت پر اعتبار کرنا شروع کردیں گے کہ پڑھنا کیا ہے؟ کہاں کام کرنا ہے؟ اور کس سے شادی کرنی ہے تو پھر انسانی زندگی فیصلہ سازی کا ڈرامہ بند کردے گی۔ جمہوری انتخابات اور آزادانہ منڈیوں کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔

یہی حال اکثر مذاہب اور فنون لطیفہ کا ہوگا۔ ذرا تصور کریں کہ ایک لڑکی اپنا اسمارٹ فون نکال کر فیس بک کے الگورتھم سے پوچھ رہی ہے کہ اسے اپنے منگیتر سے شادی کرنی چاہیے یا خوبصورت بوائے فرینڈ کے ساتھ بھاگ جائے، یا پھر گوگل الگورتھم کے ذریعہ لیے گئے تمام اہم فیصلوں کے ساتھ اپنے پسندیدہ شیکسپیئر کے کھیل کا تصور کریں۔ ہیملٹ اور میکبتھ کی زندگی زیادہ آرام دہ اور پرسکون ہوگی، لیکن یہ کس طرح کی زندگی ہوگی؟ کیا ایسی زندگی کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی ماڈل ہے؟

جب اختیارات انسانوں سے الگورتھم کے پاس چلے جائیں گے تو شاید ہم دنیا کو خود مختار افراد کے کھیل کے میدان کے طور پر نہیں دیکھ سکتے ہیں، ایسے افراد جو درست انتخاب کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کی بجائے ہم پوری کائنات کو اعداد و شمار کے بہاؤ کے طور پر محسوس کر سکتے ہیں۔ اجسام کو بائیو کیمیکل الگورتھم کی مدد سے تھوڑا بہت سمجھ سکتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ انسانیت کا کائناتی پیشہ ایک مکمل ڈیٹا پروسیسنگ سسٹم تشکیل دیتا ہے اور پھر اسی میں ضم ہوجاتا ہے ۔

پہلے ہی ہم آج ایک بڑے ڈیٹا پراسیسنگ سسٹم کے اندر چھوٹے چپ بن رہے ہیں، جسے واقعتاً کوئی بھی نہیں سمجھتا ہے۔ ہر روز میں ای میل، ٹویٹس اور مضامین کے ذریعے ان گنت ڈیٹا بٹس کو جذب کرتا ہوں۔ ڈیٹا کو پراسس کرتا ہوں اور مزید ای میلز، ٹویٹس اور مضامین کے ذریعے نئے بٹس کو منتقل کرتا ہوں۔ میں واقعتاً نہیں جانتا ہوں کہ چیزوں کی اس زبردست اسکیم میں میں کہاں فٹ آتاہوں اور میرے ڈیٹا کے بٹس اربوں انسانوں اور کمپیوٹروں کے ذریعے تیارکردہ بٹس کے ساتھ کیسے جڑے ہیں۔ میرے پاس اس امر کی تلاش کرنے کا وقت نہیں ہے، کیونکہ ان تمام ای میلز کا جواب دینے میں بہت مصروف ہوں۔

تخلیق: یوول نوح حراری۔ ۔ ۔ مترجم: زبیرلودھی

اس سیریز کے دیگر حصےجدید دنیا میں ہمارے لئے سیگرٹ نوشی جاری رکھنا ناممکن ہو جائے گاخودکار فلسفی گاڑی اپنے مالک کو قربان کرے گی یا راہگیر کو؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments