”بروکر“ افسران


اگر آپ کا تعلق کسی سرکاری، نیم سرکاری یا پرائیویٹ ادارے سے ہے تو آپ کا پالا ”بروکر افسران“ سے ضرور پڑا ہو گا۔ یہ وہ افسران ہوتے ہیں جو نوکری میں اپنے والد، چچا، ماما، تایا، پھوپھا، سسر یا برادری کے کسی افسر کے باعث آئے ہوتے ہیں اور کیونکہ آغاز ہی حرام خوری سے کرتے ہیں تو نوکری کا تمام وقت بھی حرام خوریوں میں ہی گزارتے ہیں۔ یہ کبھی اپنے دفتر میں نہیں پائے جاتے بلکہ اپنے دفتر صرف سیکرٹری یا سیکشن افسر کو اطلاع کرنے آتے ہیں کہ بڑے صاحب کے ساتھ بہت اہم میٹنگ ہے اور یہ ”معمول کی خبر“ سن کر سیکرٹری کے دل کو بے وجہ قرار آ جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد پورا دن سیکرٹری ہر سائل کو یہی کہ کر جان چھڑاتا ہے کہ صاحب بڑے صاحب کے ساتھ میٹنگ میں ہیں۔

پھر یہ بروکر افسر، ہاتھوں میں ایک فائل اٹھائے یا ایک لیپ ٹاپ اٹھائے بڑے افسران کے دفاتر کے بلاک میں ایسے کندھے جھکا کر داخل ہوتے ہیں جیسے سارے ادارے کا بوجھ ان ہی کے ناتواں، حرام خور کندھوں پر ہے۔ انھوں نے دن بھر کی مالش اور پالش کی تیاری ایک رات پہلے ہی کر لی ہوتی ہے۔ تمام ”بڑے افسران“ کے ماتحتوں سے صاحبان کے اگلے دن کے آنے جانے اور دیگر مصروفیات کی تفصیل لے لی ہوتی ہے اور اسی کے مطابق ایک ایک دفتر میں جاتے ہیں دروازہ کھٹکھٹا کر داخل ہوتے ہی فرماتے ہیں ”اسلام علیکم سر جی! بس یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا دیدار ہی کر لوں تاکہ دن اچھا گزر جائے“

بڑے صاحب جنھیں پتہ ہوتا ہے کہ جس دن وہ خود آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر گھر سے نکلتے ہیں، پورا دن منحوس گزرتا ہے، ان کو بٹھاتے ہیں، چائے منگواتے ہیں۔ اس دوران دفتر میں مزید افراد کی موجودگی کو پس پشت ڈال کر یہ بروکر افسر، بڑے صاحب کی ان ان ذاتی خاصیتوں کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کرتے ہیں جو بڑے صاحب کی ذاتی والدہ ماجدہ کو بھی معلوم نہیں ہوتیں اور نہ ہی بڑے صاحب کے بچوں کی والدہ کو معلوم ہوتی ہیں۔ یہ تعریفیں کرتے ہوئے بروکر افسر ساتھ ساتھ کہتے بھی جاتے ہیں کہ ”سر آپ کو تو پتہ ہے کہ مجھے جھوٹ بولنے کی عادت نہیں“ اور بڑے صاحب سر ہلاتے ہلاتے اپنی ٹائی کی گرہ بھی ڈھیلی کرتے جاتے ہیں کہ جھوٹی تعریفیں نفس اور سانس کو پھلا دیتی ہیں۔

اتنے میں چائے ختم ہو جاتی ہے اور میٹنگ دوبارہ شروع ہو جاتی ہے لیکن یہ بروکر افسر ٹس سے مس نہیں ہوتے اور بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے کا کردار ادا کرتے ہوئے مفت اور بے طلب مشوروں سے نوازتے ہیں۔ جہاں جہاں محنتی اور ایماندار افسران، بڑے صاحب کو معاملات کی نزاکت اور کام کی حقیقی اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں وہیں یہ بروکر افسر، بڑے صاحب کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ تو کوئی کام ہی نہیں ہے اور بات کو اس نہج پر لے جاتے ہیں کہ یہ کہ کر اٹھتے ہیں، ”سر جی! آپ فکر ہی نہ کریں، آپ کا یہ خادم ہے نا۔ بس آپ بے فکر ہو جائیں۔ میرا ڈیپارٹمنٹ یہ کام کرے گا“ ۔

یہ کہہ کر یہ بروکر افسر، ایماندار اور سچے افسروں کی منجی بڑے صاحب کے ہاتھوں ٹھکوا کر اپنے دفتر آ جاتے ہیں اور آتے ہی اپنے جونئیرز کی میٹنگ کال کر لیتے ہیں۔ اور میٹنگ میں بتاتے ہیں کہ بڑے صاحب نے ہمیں یہ کام دیا ہے۔ جب ڈیپارٹمنٹ کے ایماندار لوگ کام کی اہمیت اور وقت اور محنت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو انھیں میں سے دو چار ”جونئیر بروکر افسر“ کھڑے ہو کر فرماتے ہیں، سر جی آپ ہمیں بتائیں ہم کروا لیں گے۔

اس طرح بروکر افسر اور جونئیر بروکر افسر مل کر محنت کرنے والے افسران اور ملازمین کو تمام ذمہ داریاں تفویض کر ڈالتے ہیں اور روزانہ جونئیر بروکر افسر، بروکر افسر سے اور بروکر افسر، بڑے صاحب سے میٹنگ میٹنگ کھیلنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس دوران بروکر افسر کی بڑھکوں، اور غلط اندازوں اور مشوروں کے باعث کئی مرتبہ ایسے مقام آتے ہیں جہاں کام کرنے والے افسر اور ملازمین ٹینشن اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں، کام کی حد سے زیادہ، زیادتی سے صحت بھی برباد کروا بیٹھتے ہیں لیکن بروکر حضرت کو ایک ہی بات کی دھن ہوتی ہے کہ بڑے صاحب کی نظروں میں آ جائیں چاہے اس کے بدلے ان کے ملازمین جان سے جائیں۔

اس چکر میں اکثر ایک بیہودہ سی پراڈکٹ تیار ہوتی ہے جس کا اندازہ، بروکر افسر اور جونئیر بروکر افسران کو ہو چکا ہوتا ہے لیکن کیونکہ وہ بڑے صاحب کے چول پنے کے لیول سے آگاہ ہوتے ہیں تو اس پراڈکٹ کا میک اپ کر کے بڑے افسر کے پاس لے جاتے ہیں۔ اور اکثر تو خوشامد کا یہ عالم ہوتا ہے کہ چوہے مار گولی کے ڈبے پر چوہے کے ساتھ بڑے صاحب کی تصویر بھی لگا دی جاتی ہے۔ بڑے صاحب اسی دن کے انتظار میں ہوتے ہیں اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کے افسران اور ملازمین کو جمع کیا جاتا ہے۔

پھر بروکر افسر ملٹی میڈیا پر اپنی پراڈکٹ کی پریزنٹیشن چلا کر تعریفوں کے ایسے پل باندھتے ہیں جیسے جی پی او چوک پر کھڑا ”بروکر“ اشارے پر رکنے والے رکشے یا گاڑی کی کھڑکی سے جھانکتے ہوس زدہ ڈرائیور کو، دور فٹ پاتھ پر بیٹھی فاحشہ کے بارے میں وہ وہ ”خصوصیات“ بیان کرتا ہے جو برسوں پہلے ختم ہو چکی ہوتی ہیں۔

لیکن یہاں بھی بڑے صاحب کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے کیونکہ ان کو اپنے سے اوپر والے بڑے صاحبوں کو یہ خاص پراڈکٹ دکھا کر اپنی ترقی پکی کرنی ہوتی ہے لہذا بڑے صاحب اگلی ہی میٹنگ میں اپنے سے بڑے افسران کو اس گھٹیا پراڈکٹ کی وہی خوبیاں گنوا رہے ہوتے ہیں جو جی پی اور چوک والا بروکر ”اپنی پراڈکٹ“ کے بارے میں بتا چکا ہوتا ہے۔ اور پھر ایک دوسرے کی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھ کر تعریفی اسناد اور سرٹیفیکیٹ پیش کئیے جاتے ہیں۔ اور اخبارات میں خبریں لگوائی جاتی ہیں کہ کہ جو کام دنیا کا کوئی ملک اتنے عرصے میں نہیں کر سکا، ہم نے اتنے عرصے میں کر ڈالا۔

اب اس ڈرامے کا کلائمیکس یہ ہوتا ہے کہ اگر پراڈکٹ کچھ کام کر جائے تو بروکر افسر کی واہ واہ۔ ۔ ۔ لیکن اگر کام نہ کر سکے تو تمام ایماندار اور محنتی ملازمین کی مٹی پلید اور منصوبہ بند۔

اب اگر ہم غور کریں تو ہمارے دیس کے ہر چھوٹے بڑے ادارے میں بھی انھی بروکر افسروں کا قبضہ ہے۔ سرکاری، نیم سرکاری، غیر سرکاری ہر ہر ادارے میں یہ لوگ موجود ہیں اور کسی کام کو بہترین پلاننگ اور مکمل محنت کے ساتھ نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی ان کو کرنے دیتے ہیں جن کا کام ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے قدم تو چلتے ہیں لیکن ہم حقیقی ترقی سے دور ہو جاتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کی نالائقی اور حرام خوری چھپی رہے اور یہ دوسروں کو روند کر اور ان کی محنت کے بل پر آگے ہی آگے بڑھتے جائیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہوتا بھی ایسا ہی ہے۔ محنتی لوگ ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور یہ ”بروکر“ ہمیشہ ترقیوں کی منازل طے کرتے ہیں۔

لیکن ایک بات مزیدار ہے کہ ان کو لوگ ہمیشہ ”بروکر“ کے لفظ سے ہی یاد کرتے ہیں اور بروکر کے لفظ کو بھی ٹھیٹھ اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ ایک غیر منصف معاشرے میں جہاں انسان کو اس کا حق اور محنت کا انعام نہیں ملتا وہاں حق کھانے والوں کو ایسے ہی القابات سے نوازا جاتا ہے اور ایسے افسران ریٹائرمنٹ یا انتقال کے بعد بھی ”بروکر“ ہی کہلاتے ہیں۔

mdemde


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments