فلم ریویو: ”گریھا پرویش“ گھر کی جانب


اسکول کے دنوں میں تین فلمیں دور درشن سے دکھائی گئی تھیں انوبھو، اوشکار اور گریھا پرویش جن کی کہانی ملتی جلتی مگر اس کے باوجود وہ جدا جدا تھیں۔ پہلی دو فلموں کی کہانی بمبئی شہر میں آسودہ زندگی گزارنے والے بالائی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شادی شدہ جوڑوں سے متعلق تھی جن کی شادی شدہ زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب وہ اپنے آپ سے اور ایک دوسرے سے سوال کرنے لگتے ہیں کہ آیا جس رشتے میں وہ بظاہر بندھے ہوئے ہیں آیا وہ اتنا مضبوط بھی ہے جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں۔

یہ ایک انتہائی پیچیدہ سوال ہے جو کہ ایک شادی شدہ انسان اپنے آپ سے پوچھ سکتا ہے۔ اسی سوال کے جواب کی کھوج پانے کے لئے باسو بھٹاچاریہ نے اپنی تثلیث کی آخری فلم گریھا پرویش یعنی ”گھر کی جانب“ بنائی۔ فلم کی کہانی باسو بھٹاچاریہ جبکہ مکالمے اور گیت گلزار کے تھے۔ فلم کے گیتوں کی کومپوزیشن کنو رائے کی تھی۔ فلم کے نمایاں کردار سنجیو کمار، شرمیلا ٹیگور اور ساریکا نے ادا کیے تھے۔

تینوں فلموں کی ہدیتکاری باسو بھٹاچاریہ کی ہے۔ ان کی پہلی دو فلموں کی طرح یہ فلم بھی بمبئی شہر میں ایک آسودہ زندگی کے خواب بننے والے خاندان کی ہے مگر یہ خاندان ابھی ترقی کی سیڑھی کے شرواتی پائیدان پر ہے۔ امر (سنجیو کمار) اور مانسی ( شرمیلا ٹیگور) ایک شادی شدہ جوڑا جو اپنے آٹھ سالہ بیٹے ببلو کے ساتھ بمبئی کے ادنی متوسط طبقے کے آباد شدہ علاقے کے مکین ہیں۔ اپنے چھوٹے سے فلیٹ سے نکل کر کسی نئے فلیٹ اور قدرے بہتر علاقے میں سکونت اختیار کرنا ہر عورت کی طرح مانسی کی زندگی کا واحد سپنا ہے، اس سپنے کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنے خاوند کی تنخواہ میں سے جہاں تک ممکن ہوتا ہے غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کر کے بچت کرتی رہتی ہے۔

وہ ایک گھریلو عورت کے فرائض اتنی خوبی سے نبھا رہی ہے کہ اسے اپنے ارد گرد ہر چیز اپنی جگہ صحیح مقام پر نظر آتی ہے۔ امر جس فرم میں اکاؤنٹنٹ ہے اس کی زندگی کی بھاگ دوڑ صرف دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر ہے۔ زندگی کے پانیوں کے ٹھہراؤ میں ارتعاش اس وقت آتا ہے جب ایک دن امر کے آفس میں ایک خوبصورت اور ذہین سیکریٹری پوجا (ساریکا) کا اپوائنٹمینٹ ہوتا ہے۔ اس کے آنے سے رفتہ رفتہ پورے آفس کی طرح امر بھی اپنے اندر روٹین سے ہٹ کر ایک نئی تبدیلی محسوس کرتا ہے۔

پوجا کے آنے سے امر جو چائے کو منہ لگانا پسند نہیں کرتا ہے وہ پوجا کے اصرار پر رفتہ رفتہ اپنی طبیعت کو چائے کی طرف مائل کر لیتا ہے۔ دونوں کی ملاقاتیں آفس سے باہر بھی ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر امر اپنے دل میں پوجا کے لئے محبت محسوس کرنے لگتا ہے۔ پوجا کی محبت اب امر سے مانسی کے سامنے اس بات کا اعتراف کروانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ وہ کس طرح ایسا کرے امر کے لئے ایک تکلیف دہ صورتحال بنتی چلی جاتی ہے۔ پوجا جس سے امر محبت کرنے لگا ہے ایک روز اس سے پوچھتی ہے کہ اگر امر کی بیوی مانسی کسی اور سے پیار کرنے لگی ہو؟

تو وہ فوراً جواب دیتا ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ پوجا کہتی ہے کہ وہ پوسیبلٹی کی بات کر رہی ہے کہ اگر ایسا ہو تو؟ امر کہتا ہے ”امپوسبل“ ۔ ایک سادھارن مرد کی طرح امر کے چہرے پر ایک چڑچڑا اور ضدی تاثر ابھرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ مانسی ایسی نہیں ہے۔ اس کا جواب مرد کی ازلی فطرت کی اس سطح کو بے پردہ کر دیتا ہے کہ جس عمل میں سے وہ اپنی محبوبہ کے ساتھ گزر رہا ہے اس کا تصور اپنی بیوی کا اس کے کسی فرضی محبوب سے کرنا بھی اس کے لئے گوارا نہیں۔

امر کا جھنجھلا کہ پوجا کو یہ کہہ دینا کہ ”وہ ایسی نہیں ہے“ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ وہ جو خود کر رہا ہے وہ بھی درست نہیں۔ پوجا اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر امر ایک بیوی کے ہوتے ہوئے کسی اور سے پیار کر سکتا ہے تو اس کی بیوی ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟ امر ذرا سا ہکلا کر کہتا ہے کہ وہ کر سکتی ہے لیکن نہیں کرے گی۔ پوجا بات کاٹتے ہوئے سوال پھینکتی ہے کہ اسے کیسے معلوم کہ وہ ایسا نہیں کر سکتی؟

امر تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد کہتا ہے کہ اگر مانسی ایسا کر رہی ہوتی تو اتنا ہی چوکنا رہتی جتنا کہ وہ رہتا ہے۔ بات کرتے کرتے اتنا ہی فمبل کرتی جتنا کہ وہ ان دنوں کرنے لگا ہے۔ اس کی طرح راتوں کو جاگتی، لیکن مانسی کے سانسوں کی سر تال ذرا بھی نہیں ہلی۔ وہ آج بھی بہت چین سے سوتی ہے۔ باسو بھٹاچاریہ نے اس تمام کیفیت کو نہایت خوبصورتی اور باریک بینی سے فلمایا ہے۔

کہانی کے پہلے پلاٹ پوائنٹ کا یہ مکالمہ کہانی کے رخ کا تعین کر دیتا ہے جب امر کہتا ہے ”ساتھ ساتھ رہتے رہتے صرف پاس پاس رہ جاتا ہے۔ ساتھ دھیرے دھیرے کم ہو جاتا ہے۔ تم دیکھنا مانسی، ایک دن آئے گا جب ہم دونوں ایک ہی بستر پر پاس ہوں گے، ساتھ نہیں ہوں گے۔ یہ آج کی جو آنچ ہے وہ آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ تب چلینگے ہنی مون پہ، اس آنچ کو پھر سے پیدا کرنے کے لئے۔“

کہانی کا تیسرا پلاٹ پوائنٹ شروع ہوتا ہے۔ امر اور مانسی رات کے وقت بستر پر ہیں۔ رات گئے نیچے گلی سے کوئی بارات گزر رہی ہے ایک پٹاخہ اتنا زور سے سیٹی بجاتا ہوا ہوا میں جا کر پھٹتا ہے کہ امر غصے سے جھنجھلا کر زور سے کہتا ہے کہ ”یہ شادی ہے کہ تماشا“ مانسی ایک ہلکے طنز کے ساتھ کہتی ہے کہ ”ہم نے تو یہ بھی نہیں کیا“ ۔ اس دوران خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آتا ہے۔ امر جس بات کو چھپائے پھر رہا ہے وہ جیسے اب اپنا اظہار کرنے کے لئے اسے بیچین کیے دے رہی ہے۔

وہ مانسی سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ جاگ رہی ہے، وہ کہتی ہے کہ ہاں وہ جاگ رہی ہے۔ تھوڑے توقف کے بعد وہ انگریزی زبان کا سہارا لیتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہتا ہے ”آئی ڈونٹ لو یو“ ، باہر کے شور سے اسے لگا جیسے مانسی کو سمجھ نہ آیا ہو تو بہت بے ڈھنگے انداز میں کہتا ہے ایسے جیسے کوئی بیچ بازار بھانڈا پھوڑے، ”میں تم سے پیار نہیں کرتا۔“ مانسی تھوڑی دیر کے لئے سکتے میں آ جاتی ہے۔ پھر جیسے اس انکشاف کو اپنے اندر اتارتے ہوئے کہتی ہے ”میں بھی کہاں پیار کرتی ہوں تم سے“ ۔

دونوں طرف خاموشی رہتی ہے پھر کچھ دیر سوچ کے کہتی ہے۔ ”اچھا تم مجھ سے پیار نہیں کرتے یہ تم نے کیسے جانا؟“ وہ کہتا ہے ”یہ جان کر بھی کیا ہو گا؟“ مانسی کہتی ہے ”ہو گا تو کچھ بھی نہیں۔“ اس دوران مانسی سوال کرتے کرتے جیسے بات کی تہہ تک پہنچ چکی ہے ”لیکن، لیکن۔ تم کیا۔ ہاں۔ امر؟ تم کسی اور سے پیار کرنے لگے ہو“ ۔ وہ پھر سوال کرتی ہے ”اچھا امر تم کسی اور سے پیار کرتے ہو یہ بات تم مجھ سے چھپاتے رہے یا میں ہی نہیں جان سکی؟“ امر کہتا ہے کئی بار کوشش کی مگر۔ ۔ ۔ ”کب سے پیار کرتے ہو اس سے؟“ مانسی سوال کرتی ہے۔ ”کافی دنوں سے، مہینوں سے“ ۔ امر اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ”اف، مہینوں سے تم کسی اور کو چاہتے ہو اور مجھے آہٹ تک نہ سنائی دی۔ تمہاری مہک سے اس کی مہک تک نہ آئی۔ کتنی بار چھوا تمھیں اور کسی دوسرے کو محسوس بھی نہیں کر پائی۔ کیسی ان مانی سی رہ گئی میں جس گھر کا سپنا دیکھ رہی تھی میں وہ گھر ہی نہیں رہا۔“ ”اچھا امر تم نے مجھے بتایا ہی کیوں، چھپا بھی تو سکتے تھے؟“

امر کچھ سوچتے کچھ ہچکچاتے ہوئے ”چھپا سکتا تھا، لیکن وہ بے معنی ہوتا، جس سے پیار نہیں کرتے اس کے ساتھ رہنا غلط ہے“ ۔ مانسی تھوڑا سا اظہار حیرت سے ”اچھا تم نے مجھے اس لئے بتایا کہ میرے ساتھ رہنا غلط ہے یا اس لیے کہ جس سے پیار کرتے ہو اس کے ساتھ رہنا صحیح ہے؟“ امر اب جھنجھلا رہا ہے ”دونوں ایک ہی بات نہیں ہے؟“ مانسی سوالیہ انداز میں ”ہے؟“ امر غصے سے پھٹتے ہوئے ”اف کورس ایک ہی بات ہے“ ۔ مانسی جو اس وقت تک حالات کا مکمل تجزیہ کر چکی ہے اور ایک اذیت سے گزر کر اپنے احساس کو گرفت میں لا چکی ہے وہ کہتی ہے، ”اتنے سال جب ہم یہ سوچتے رہے کہ ایک ہم دوسرے سے پیار کرتے ہیں تب کبھی جھگڑا نہیں کیا۔ اور آج جب یہ جان لیا کہ ہم پیار نہیں کرتے تب کیوں غصہ کرتے ہو۔ جھگڑوں سے لوگوں کو بہانے مل جاتے ہیں ٹوٹنے کے، بکھرنے کے، الگ ہو جانے کے، کبھی ایک کونہ ٹوٹ گیا، کبھی وہ ٹکڑا الگ ہو گیا۔“ امر گہری سانس لے کر کہتا ہے کہ ”میں بھی سوچتا رہا کہاں سے ٹوٹا کہاں سے الگ ہوئے“ ۔

یہ فلم شادی کے انسٹیٹوشن سے متعلق ایک بہترین کیس اسٹڈی ہے۔ فلم دیکھنے والے کے ذہن میں چند سوال چھوڑتی ہے کہ شادی کے دوام کے لئے محبت ضروری ہے یا جیون ساتھی کا عادی ہو جانا؟ اگر کہیں آگے چل کر زندگی میں میاں بیوی کے رشتے میں کوئی الجھاؤ پیدا ہو جائے تو اسے سلجھانے کے بجائے الجھا ہوا چھوڑ کر آگے بڑھ جانا ہی کیا واحد راستہ ہے؟

تینوں اداکاروں نے اپنے اپنے کرداروں کو بغیر لاؤڈ ہوئے بڑے نیچرل انداز سے نبھایا ہے۔ آپ اگر ایک میچیور ہندی فلم دیکھنا پسند کریں تو باسو بھٹاچاریہ کی یہ فلم ضرور دیکھیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments