’پپو‘ وزیراعظم نہ بنتا تو۔۔۔


سالوں پہلے ٹی وی پر ایک کمرشل آتا تھا جس میں ایک ’پپو‘ متعارف ہوا تھا۔ اشتہار میں دکھایا گیا کہ ”پپو پاس ہو گیا“ سن کر سارے گاؤں میں خوشیوں کی آبشاریں دوڑ گئیں۔ ہر جانب چاکلیٹس اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ گویا پپو اگر کوئی پوزیشن لے لیتا تو پپو کے والدین خوشی و مسرت سے پھولے نہ سماتے، ان کی دمکتے چہروں پر خوشی دیدنی ہوتی، شامیانے لگائے جاتے اور شادیانے بجائے جاتے، سارے گاؤں میں چراغاں ہوتے، دیگوں کے منہ کھول دیے جاتے، حلوائیوں کی چاندی ہو جاتی، گلی گلی مٹھائیاں تقسیم ہوتیں اور الغرض ہر ممکن طریقے سے خوشی کا اظہار کیا جاتا۔ پپو بھلے جتنا بھی نالائق ہو یا بدخواہ اسے ’نالائق اعظم‘ کہہ کر پکاریں مگر والدین سینہ چوڑا کر کے فخر سے بتاتے ہیں کہ پپو بہت ذہین اور لائق فائق ہے۔

والدین کی آنکھوں کا تارا ’پپو‘ جب ان دیکھی قوتوں کا راج دلارا بن جائے تو پھر وزیراعظم کا عہدہ دیدہ و دل راہ فراش کی مانند قدموں میں نچھاور ہو جاتا ہے۔ پھر نہ قابلیت و لیاقت دیکھی جاتی ہے اور نہ ہی کسی خامی کی کوئی اہمیت رہتی ہے۔ بڑی سے بڑی رکاوٹ چشم زدن میں دور ہو جاتی ہے، پپو کو وزیراعظم بنانے کے لئے ترقی کرتا ملک مسائلستان دکھنے لگ جاتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی شرح ترقی بھی خواہشات کے سومنات کے آگے دیوار نہیں بن پاتی، اچانک ہر طرف کرپشن ہی کرپشن دکھنے لگ جاتی ہے، حاکم وقت چور اور ڈاکو لگنے لگ جاتے ہیں، دھرنوں اور سازشوں سے بھی کام نہ چلے تو غداری سرٹیفکیٹ اور مذہب کارڈ بھی ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ منصف اور محافظ سب ایک صفحے پر آ جاتے ہیں۔

”وسیع تر قومی مفاد“ میں حلف سے روگردانی بھی حب الوطنی کا پیمانہ بن جاتی ہے۔ امیدوں کا محور صرف پپو بن جاتا ہے۔ دنیا بھلے شرح نمو کی تعریف کر رہی ہو مگر ”اصل مالکوں“ کے ماتھے پر تیوریاں ہی ختم نہیں ہوتیں۔ دنیا بھلے کہہ رہی ہو کہ ’پپو نالائق اعظم‘ ہے مگر افراط و تفریط کی شکار ان دیکھی قوتوں کو لگتا ہے کہ جب پپو وزیراعظم بنے گا تو ترقی کی منازل مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں طے ہوتی نظر آئیں گی۔

خود ساختہ مسائل میں گھرے ملک میں یہ شور و غوغا عام ہو جاتا ہے کہ اگر پپو وزیراعظم بن گیا تو دن دگنی رات چوگنی جیسی ترقی کی مثالیں قصۂ پارینہ بن جائیں گی بلکہ ” لائٹ کی سپیڈ“ جیسی مثالیں زبان زد عام ہو جائیں گی۔ دھن ایسے برسے گا کہ قرضہ آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے کے بعد بھی بہت اتنی بڑی رقم بچ جائے گی آئی ایم ایف سمیت ایک دنیا ہماری مقروض ہو جائے گی، خوشحالی یوں قدم چومے گی کہ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے ہمالیائی دعوے نہ صرف چھوٹے لگیں گے بلکہ دوسرے ملکوں سے جہاز بھر بھر کر اہل قلم و اہل دانش یہاں نوکریاں کرنے آئیں گے۔ سبز پاسپورٹ کی ایسی عزت ہو گی کہ لوگ اپنے وطن کی شہریت چھوڑ کر یہاں بسنے کے لئے مہینوں نہیں بلکہ سالوں انتظار کریں گے۔ طول و عرض میں ایمانداری کا دور دورہ ہو گا۔ کسی وزیر یا مشیر کی کرپشن کا کوئی سکینڈل سننا تو درکنار کرپشن کا لفظ سنتے ہی چہروں پر ہیبت طاری ہو جائے گی۔ کمال مہارت سے میڈیا سرنگوں ہو جاتا ہے اور مخالف آوازیں پابند سلاسل ہو جاتی ہیں۔ قصۂ مختصر گلی گلی نگر نگر تمام امیدوں کا واحد محور صرف پپو ہی کہلائے گا۔

سہاگن وہی جو پیا من بھائے۔ ہوس اقتدار میں مبتلا حرص زدہ قوتوں نے پپو کو مسند اقتدار پر تو بیٹھا دیا مگر طرز حکمرانی نہ سکھا سکے۔ نادیدہ قوتوں کو پپو میں وہ گن بھی نظر آنے لگ گئے جو شاید کبھی پپو کے حقیقی والدین بھی نہیں دیکھ سکے۔ پپو نے اپنی ”فطری قابلیت“ سے حکمرانی کی ایسی دھاک بٹھائی کہ نوجوانوں کو پہلی بار پتا لگا کہ شرح ترقی منفی بھی ہوتی ہے، نئی نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر ملنا تو دور کی بات جو لوگ نوکریوں پر موجود تھے انھیں اپنا روزگار برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ پپو نے بہت کہا کہ گھبرانا نہیں مگر عوام کی آہیں سسکیوں میں بدل گئیں۔

اگر پپو وزیراعظم نہ بنتا تو نا اہلیت اور قابلیت میں فرق کی پہچان کبھی نہ ہوتی۔ اس ملک سے کھلواڑ کرنے والوں کے چہروں سے نقاب نہ سرکتے، اقتدار کی غلام گردشوں میں سازشوں کی ریشہ دوانیاں کرنے والے بوالہوس ہمیشہ پردوں کے پیچھے ہی چھپے رہتے، الیکشن اور سلیکشن میں تضاد کا احساس نہ ہوتا، نہ اندھیروں میں دھکیلنے والوں کا پتہ چلتا اور نہ ہی روشنیاں بحال کرنے والوں کی صلاحیتوں کا ادراک ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کل تک جو سینہ چوڑا کر کے حمایت کرتے تھے آج وہ اپنی کج فہمی پر جہالت کا سرٹیفکیٹ مانگ رہے ہیں۔

پپو کا دور حکومت ’دور کے ڈھول سہانے‘ کی مانند ہے۔ پاکستان میں تین دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط آمرانہ طرز حکومت مسلط کرنے والوں نے عوام کو فاتر العقل سمجھ کر پپو کی شکل میں یرغمال جمہوریت کی نئی اصطلاح تو متعارف کروا دی مگر عدم صلاحیتوں کی بنیاد پر عوام کو مطمئن نہ کر سکے۔ گویا بھلے بابا بند پڑی گو بر چھوڑ کشیدے پڑی (ایک کے بعد دوسری مشکل میں پڑنا) یعنی عوام کو آمریت سے مکمل چھٹکارا نہیں ملا تھا کہ یرغمال جمہوریت نے ان کے کس بل نکال دیے۔

پپو کی نالائقی ہر سطح پر آشکار ہو چکی ہے۔ اسی لئے طرفین سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ”پپو فیل ہو گیا ہے“ ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر ان ہاؤس تبدیلی کی افواہیں زور پکڑ رہی ہیں۔ اس طرح کی کوئی بھی تبدیلی نئے الیکشن کے بغیر بے معنی ہے۔ موجودہ حالات میں نئے الیکشن کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ پاور بروکرز چاہتے ہیں کہ تبدیلی کا سارا بوجھ اپوزیشن اٹھائے جبکہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ پپو کے ساتھ پپو کو پاس کرنے والے بھی اس نالائق اعظم کی نا اہلی کا بوجھ بانٹیں۔ افواہوں کا یہ سلسلہ حکومتی مدت پوری ہونے تک ایسے ہی چلتا رہے گا تاوقتیکہ ڈاکٹرائن کی رخصتی اور نئے الیکشن کا وقت آ جائے۔ اس سب میں عوام کے لئے یہ سبق ہے کہ ’دودھیل گائے کی 2 لاتیں بھی سہہ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا‘ ۔ خواب ضرور دیکھنے چاہئیں مگر سراب کے پیچھے بھاگنے سے اجتناب کرنے میں ہی بہتری ہوتی ہے۔ بقول منیر نیازی

خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو

حرف آخر: کوئی قاری ’پپو‘ کو عمران خان سے تشبیہ نہ دے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments