فرحان ورک ہیرو یا ولن؟ دستاویزی فلم ’ہیش ٹیگ، وار اینڈ لائز‘ پر ناقدین کی رائے کیا؟


اگر آپ پاکستان میں ایک ٹوئٹر صارف ہیں یا کم از کم پاکستان کی سیاست کے بارے میں جاننے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں تو فرحان ورک کے چلائے گئے ٹرینڈز یقیناً آپ کی نظر سے گزرے ہوں گے۔

اگر آپ اپنے ذہن پر کچھ زیادہ زور ڈالیں تو یقیناً ان کی جانب سے کیے گئے متعدد دعوے بھی آپ کو یاد آئیں گے۔

اکثر افراد کی رائے میں فرحان ورک کی وجہ سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور سیاسی مباحثوں میں گالم گلوچ اور جھوٹے دعوؤں کا رواج عام ہوا تاہم ان کی زندگی پر بننے والی دستاویزی فلم ’ہیش ٹیگ، وار اینڈ لائز‘ نے ان کے چند ناقدین کو بھی ان پر ترس کھانے پر مجبور کر دیا۔

ٹھہریے! ان کا نام ٹوئٹر پر ڈھونڈنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ گزشتہ برس ٹوئٹر کی جانب سے فرحان ورک پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے فرحان ورک پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہیں تاہم انھوں نے سوشل میڈیا کی دنیا میں قدم رکھنے کو ترجیح دی۔ ان کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے رہی ہے اور وہ جماعت پر تنقید کرنے والوں کو سوشل میڈیا پر نشانہ بناتے رہے ہیں۔

فرحان ورک

دستاویزی فلم میں کیا ہے؟

اس فلم میں فرحان ورک نے ٹوئٹر پر اپنے شہرت کی کہانی خود بیان کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ انھیں بطور ٹوئٹر ٹرول جانتے ہیں اور انھیں اس بات میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔

فلم کے متعدد مناظر ان کے گھر پر ہی عکس بند کیے گئے ہیں جہاں ان کی ذاتی زندگی کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔ ان کے والد کو ان کے موجودہ پیشے کے حوالے سے ناگواری کا اظہار کرتے اور خود فرحان ورک کو پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد ایک مایوس کن صورتحال کا شکار ہوتے دکھایا گیا ہے۔

اس دستاویزی فلم میں فرحان ورک کے کام اور نظریے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کئی واقعات جیسے ان کی بیوی کا یہ کہنا کہ مجھے فرحان نے دو لاکھ فالورز والا اکاؤنٹ تحفے میں دیا، کے ذریعے ناظرین کو فرحان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کروایا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل

فرحان ورک کے مداح اور ناقد جہاں اس دستاویزی فلم کو سراہتے نظر آ رہے ہیں وہیں جو افراد سوشل میڈیا پر فرحان ورک کا نشانہ بنے تھے، وہ ان پر پھر سے تنقید بھی کر رہے ہیں۔

پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے سابق سربراہ عمر سیف نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ’اس بندے نے میرے خلاف جھوٹی خبر پھیلائی کہ میں آر ٹی ایس کی خرابی کا ذمہ دار تھا۔‘

واضح رہے کہ سنہ 2018 کے الیکشن کے روز یعنی 25 جولائی کو جب آر ٹی ایس مبینہ طور پر کسی خرابی کا شکار ہوا تھا تو فرحان ورک نے اس کی ذمہ داری عمر سیف پر عائد کی تھی۔

صحافی ثنا بچہ نے فرحان ورک کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ میں آپ کے بارے میں برا محسوس کر رہی ہیں۔ وہ لوگ کتنے چھوٹے ہیں جنھوں نے اپنے مخالفین کو ہراساں کرنے کے لیے آپ کو تعینات کیا۔‘

صحافی ضرار کھوڑو نے لکھا: ’یہ دستاویزی فلم دیکھنے کے بعد میں فرحان ورک کے لیے ہمدردی محسوس کر رہا ہوں۔‘

صحافی عمبر شمسی نے لکھا کہ فرحان ورک نے دوسرے لوگوں کو بدنام کر کے طاقت اور سکون حاصل کیا، اس لیے ان پر ترس کھانا مشکل ہے۔

صحافی سلمان مسعود نے فلم کو سراہتے ہوئے لکھا کہ یہ فلم سوشل میڈیا کی طاقت کی صحیح عکاسی کرتی ہے کہ کیسے فرحان ورک جیسے لوگ اہم ترین گفتگو میں مرکز نگاہ بنتے ہیں۔

ایک اور صارف سالار خان نے فلم پر تبصرہ دلچسپ انداز میں کیا اور اس فلم کے ایک منظر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے ڈمپلنگ کھانے کی ایک نئی جگہ دریافت کی ہے۔

فلم کے ڈائریکٹر کا مؤقف

اس دستاویزی فلم کے ڈائریکٹر ہشام کبیر چیمہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد فرحان ورک کو ہیرو یا ولن کے طور پر دکھانا نہیں تھا بلکہ وہ تو ان کی زندگی کے حقائق لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے تھے تاکہ لوگ اس بات کا فیصلہ خود کریں۔

ہشام نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ فرحان ورک کے مداح اور ناقدین دونوں ہی کو یہ فلم پسند آئی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ انھوں نے فرحان ورک کو غیر ضروری طور پر مثبت کردار میں دکھانے کی کوشش کی ہے تو دوسرے لوگ مزید فلمیں بنا کر فرحان کی زندگی کے دیگر پہلو بھی اجاگر کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp