ارطغرل ایک پروپیگنڈا: خاموش اسلامی ثقافتی ہتھیار


میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک مضحکہ خیز وقت سمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور ٹیلی ویژن کی رنگین روشنیوں کے سامنے گزارا۔ پچھلے کچھ سالوں سے انگلش ڈرامے خاص طور پہ میری توجہ کا مرکز بنے رہے۔ پریزن بریک، فرینڈز، بریکنگ بیڈ، گیمز آف تھرونز، سپار ٹکس، بگ بینگ تھیوری، وائکنگ، روم، اور منی ہا یسٹ میرے پسندیدہ ڈراموں میں سے ہیں۔ حال ہی میں ارطغرل ترکش ڈرامے کی ہائپ سنی تو سوچا یہ بھی دیکھ لیتی ہوں۔ اگرچہ بہت سے صاحب حیثیت لوگوں اور پاکستانی اداکاروں کو اس ڈرامے کے پاکستان میں نشر ہونے پر اعتراضات بھی سنے اور اس ڈرامے سے مغربی دنیا کا خوف بھی سامنے آیا تو اپنے شوق اور تجسس کے لئے اس ڈرامے کو دیکھنا شروع کیا۔

ایک ریسرچر ہوں تو ڈرامے کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت جاننے کی بھی کوشش کی، تو یہ جانا کہ یہ ڈرامہ تقریباً نوے فیصد افسانوی ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ البتہ اس میں اسلام کے تاریخی ہیرو ارطغرل اور دوسرے کرداروں کے بنیادی عقائد کو حقیقی معنوں میں من و عن پیش کیا گیا۔ پاکستانی عوام کی رائے ہمیشہ کی طرح اس معاملے پہ بھی دو حصوں میں تقسیم نظر آئی۔ کچھ لوگوں کو اس ڈرامے کے حق میں دیوانہ وار سوشل میڈیا پہ قربان ہوتے دیکھا اور کچھ لوگوں کو اس ڈرامے کو ترکش کلچر کہتے ہوئے اس کے خلاف زہر اگلتے دیکھا۔

اور حال ہی میں میرے ایک بہت ہی عزیز مسیحی دوست نے ”ہم سب“ کے ایک کالم میں ارطغرل کے نشر ہونے کو غیروں پہ کرم اور اپنوں پہ ستم قرار دیا۔ اس آرٹیکل میں انہوں نے جہاں مسیحی اقلیتوں کے تحفظات کا ذکر کیا وہی ان کے مطابق یہ ڈرامہ پاکستانیوں میں انتہا پسندی کو عروج پہ لے کے جا نے میں اپنا اہم کردار نبھا رہا ہے۔ جب مجھے اپنے دوست کا آرٹیکل پڑھنے کو ملا تب میں ڈرامے کی آخری اقساط دیکھ رہی تھی۔ اس ڈرامے کی ہر ایک قسط بہترین تھی اور سیکھنے کو بے تحاشا اخلاقی، اسلامی، اور معاشرتی سبق تھے۔

میرے اپنے دوست کا اس ڈرامے کے بارے میں ایسا تبصرہ پڑھ کے میں نے سوچ کو ریورس گیر میں ڈالا کے کیا میرے دوست کے تحفظات اس بارے میں درست ہے۔ کیا حقیقت میں یہ ڈرامہ انتہا پسندی سکھا سکتا ہے۔ کیا اس ڈرامے سے میرا ذہن بھی انتہا پسندی جیسے اندھیرے میں گر گیا ہے۔ اس ڈرامے میں جس جس سین میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک دکھایا گیا میں نے ان کو دہرایا تو جواب ملا ”نہیں“ ۔

اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے اس لیے صرف اس پہ اکتفا کر لینا مجھے مناسب نہیں لگا۔ میں نے اپنے نزدیکی پچاس سے زیادہ مسلم دوستوں کی رائے جانی جو یہ ڈرامہ دیکھ رہے یا دیکھ چکے تھے اور پوچھا کہ انہوں نے اس ڈرامے سے کیا سبق سیکھے۔ تو کسی ایک کی بھی گفتگو سے یہ نہیں لگا کہ ان کے ذہن میں بھی انتہا پسندی کا کوئی سایہ اس ڈرامے کی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔ اور یہ میری ایک ذاتی محدود سی کوشش تھی۔ جس کے نتائج باقی پاکستانی مسلمانوں کے لیے یہی ہو ایسا نہیں کہا جا سکتا۔

البتہ یہ سو فیصد سچ ہے کہ یہ ارطغرل محض ایک ڈرامہ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ ایک پروپیگنڈا ڈرامہ ہے۔ پروپیگنڈا کا لفظ اکثر منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کسی بھی مہم کو جو لوگوں کو کسی معلومات، نظریات، آراء پے قائل کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے اسے پروپیگنڈا کہا جاسکتا ہے۔ پروپیگنڈا کسی مقصد کی حمایت میں معلومات کو پھیلانا ہے۔ اس ڈرامے میں بھی اسلام اور اسلامی ثقافت کے بنیادی عقائد کو تاریخ کے لاجواب ہیروز کے ذریعے پروپیگیٹ کیا گیا۔

اس طرح کے پروپگنڈا ڈرامے ہر قوم بناتی آئی ہے تا کہ وہ اپنے بنیادی اقدار آنے والی نسلوں میں منتقل کر سکے۔ یہ ڈرامہ بھی ایک ایسی ہی لاجواب کوشش ہے۔ یہ بھی سو فیصد سچ ہے کہ ارطغرل ایک خاموش اسلامی ہتھیار ہے۔ ایک دو دھاری تلوار ہے جو ایک طرف مسلمان نوجوان نسل کو اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کر رہی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی ساکھ کو پوری دنیا میں بہتر بنا رہی ہے۔

اس ڈرامے سے یہ سیکھنے کو ملا کہ ایک ایسا وطن جہاں ایک سے زیادہ مذاہب، نسلوں یا ثقافتوں کے لوگ رہتے ہو وہاں کیسے رہا جاتا ہے۔ سیکھا کہ اقلیتوں کے مال، جان کی حفاظت اور مذہبی آزادی کی ذمہ داری موجودہ حکومت کی ہوتی ہے۔ اور ایک بہترین معاشرہ وہی ہے جس میں انصاف، اور قانون کا اطلاق ہر نسل، مذہب اور رنگ سے بالاتر سمجھا جاتا ہو۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ یکساں انصاف کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔ ہمیشہ انصاف کے قائم کرنے کی کوشش جاری رکھیں چاہے ساری دنیا آپ کے خلاف ہو جائے۔

موت کا خوف بھی آپ کو انصاف سے روک نہ پائے۔ بیگناہوں کی جان کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کریں۔ ہمیشہ اللہ کی ذات پہ بھروسا رکھیں کیوں کہ وہ کسی مومن کو تکلیف میں اکیلا نہیں چھوڑتا۔ حق اور توحید کی راہ میں ہر طرح کی آزمائش اور تکلیف کا سامنا صبر اور ہمت سے کریں۔ خدا کے سوا کسی اور طاقت، پیسہ یا کسی بھی چیز کا پیچھا کرنا آخرکار آپ کے زوال کا سبب بنے گا۔ اللہ پر یقین رکھیں اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہر کام کریں۔

صبر، اخلاص، اخوت اور نیکی کے ساتھ ساتھ اللہ کے احکامات کی مکمل اطاعت کریں۔ دھوکہ، دغا، حسد اور غصے جیسی چیزوں سے پرہیز کریں۔ بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت، ایک دوسرے سے محبت اور ظالم کے ظلم کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ ہمیشہ سچ بولیں، سچ کی حمایت کریں، چاہے یہ ذاتی معاملہ ہو۔ سب سے بڑھ کر ایک بامقصد زندگی گزاریں۔

یہ ڈرامہ واقعتاً میرے لئے روحانی رہنمائی کا بہترین ذریعہ رہا۔

ہماری مسیحی برادری کا صرف ایک ڈرامے کے نشر ہونے سے اپنے تحفظات کا اظہار یقینی طور پہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم ستر سالوں میں اپنی اقلیتوں کا اعتماد نہیں جیت پائے۔ بلاشبہ پاکستان میں مسیحی برادری امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ دسمبر 2017 میں کوئٹہ میں چرچ پر حملہ، مارچ 2016 میں لاہور میں ایسٹر منانے والے عیسائیوں کو نشانہ بنانے والا خودکش حملہ، مارچ 2015 میں لاہور میں گرجا گھروں پر دو بم دھماکے، 2013 میں پشاور کے ایک چرچ پر ہونے والے خودکش بم حملے، 2009 میں پنجاب کے شہر گوجرہ میں چرچ کو نذر آتش اور مکانات پر حملہ اور 2005 میں فیصل آباد میں گرجا گھروں اور عیسائیوں کے اسکولوں کو نذر آتش کرنے جیسے واقعات کے بعد مسیحی برادری کا خوف زدہ ہونا ایک نارمل رد عمل ہے۔

اس طرح کے واقعات رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی توہین ہیں۔ پاکستانی گورنمنٹ کو ایسے اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے ایسے واقعات سے بچا جا سکے اور مسیحی برادری کے مال جان کی حفاظت اور مذہبی آزادی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اور پاکستانی عوام کو ارطغرل جیسے ڈراموں سے یہ سیکھنا چاہئیے کہ اپنے وطن میں مختلف مذہبوں، نسلوں اور ثقافتوں کے لوگوں کے ساتھ کیسے امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments