خواہ مخواہ گھسیٹے جاتے سادہ عوام


پیر 29 جون کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ تھوڑی ہی دیر بعد قومی اسمبلی کا ا جلاس شروع ہو جائے گا۔ وہاں عمران حکومت کا پیش کردہ بجٹ ”منتخب اراکین“ سے منظوری حاصل کرنے کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مرحلہ بآسانی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔

اتوار کے روز مگر اسلام آباد میں اپوزیشن والوں نے بہت ہلچل مچائے رکھی۔ مسلم لیگ نون کے خواجہ آصف اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے ایک ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ بڑھک لگائی کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے پیش کردہ بجٹ ”نامنظور“ کر دیا ہے۔

اس پریس کانفرنس سے کہیں بڑھ کر چرچا اس ”عشائیے“ کا رہا جو وزیر اعظم نے ”ذاتی خرچے“ سے حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے اراکین کے اعزاز میں دے رکھا تھا۔ رپورٹر پیشہ وارانہ تجسس سے یہ معلوم کرنے کی کوشش میں مصروف رہے کہ مذکورہ عشائیے میں کون شریک نہیں ہوگا۔ بڑی ”خبر“ یہ بھی بنی کہ گجرات کے با اثر چودھریوں کی مسلم لیگ (ق) اس میں شریک نہیں ہوگی۔ گماں ہوا کہ سردار اخترمینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے علاوہ اب اس جماعت نے بھی حکومتی اتحاد سے جدا ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

چودھریوں کے ترجمان اگرچہ وضاحتیں فرماتے رہے کہ جدا جدا عشائیوں کے باوجود ابھی وہ مقام نہیں آیاہے۔ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی بجٹ منظوری کی حمایت میں ووٹ دیں گے۔ بہرحال ٹی وی سکرینوں پر رونق لگی رہی۔ میں البتہ اس رونق سے لطف اندوز ہونیکی حماقت کا ارتکاب کرنے سے بچارہا۔ ٹی وی ہی نہیں سوشل میڈیا سے بھی ”ناغہ“ کیا۔ لمبی واک کی۔ پرندوں کی بولیاں سنیں۔ جانوروں سے گفتگو کی۔ رات کے کھانے کے بعد ”ہوم لینڈ“ سیریز کی اقساط دیکھتا رہا۔

صبح اٹھ کر اخبارات دیکھے ہیں۔ عمران حکومت کی جانب سے دیے عشائیے میں ان کے خطاب نے شہ سرخیاں بنادی تھیں۔ انہوں نے اس خطاب میں اپنے حامیوں کو یقین دلایا ہے کہ ان کی حکومت ”کہیں نہیں جا رہی“ ۔ پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد شاید آئندہ انتخابات میں کامیابی بھی حاصل کرے گی۔ 2018 سے 2028 تک گویا عوام کی خدمت کرتی رہے گی کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی ”چوائس“ نہیں ہے۔

”چوائس“ کا ان کی تقریر کے تناظر میں مناسب ترجمہ ”متبادل“ ہو سکتا ہے۔ ذہن یہ کالم لکھنے تک نیند کے خمار سے آزاد نہیں ہوپایا تھا۔ ستاروں کی چال پڑھنے والے ویسے بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان دنوں ”مرکری“ رجعت پذیر ہے۔ اس ستارے کو اردو میں غالباً عطارد پکارتے ہیں۔ شنید ہے کہ یہ ستارہ ”ابلاغ“ سے متعلق معاملات کا حکمران ہے۔ یہ جب رجعت پذیر ہو تو لکھنے اور بولتے وقت احتیاط اختیار کرنالازمی ہے۔ رجعت کے موسم میں آپ کی بات کا مخاطب وہ معنی اخذ نہیں کرتا جو آپ کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ کچھ اور معنی نکال لیتا ہے۔ یہ حالت غلط فہمیاں پھیلاتی ہیں۔

ابلاغ کے حوالے سے ہم ”بکاؤ صحافیوں“ کے ستارے تو عرصہ ہوا رجعت پذیر ہوچکے ہیں۔ وہ باتیں بیان کرنے کا بھی حوصلہ نہیں رہا جو برسوں سے برجستہ بیان کردی جاتی تھیں۔ سوچ بچار کے بعد بہت تھوڑا لکھتے ہیں۔ اشاروں کنایوں سے اجتناب برتتے ہیں۔ استعارے اب کلاسیکی شاعری کا حصہ ہوچکے ہیں۔ ہمہ وقت ”فیر جو کردا پھراں ٹکور“ والی فکر لاحق رہتی ہے۔

جی کو خوش رکھنے کو تاہم یہ حقیقت تسلیم کرلیتے ہیں کہ ابلاغ کا حاکم ستارہ فقط ان دنوں ہی رجعت پذیر ہے۔ شاید اسی وجہ سے میرا کند ذہن ابھی تک طے نہیں کر پایا کہ عمران خان صاحب کا متبادل ”کس“ کو میسر نہیں۔ امید یہ باندھی جا سکتی ہے کہ اس ضمن میں تذکرہ عوام کا ہوا ہے۔

نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جماعتیں 2008 سے 2018 تک اقتدار میں ”باریاں“ لے چکیں۔ نواز شریف تیسری بار اس ملک کے وزیر عظم منتخب ہونے کے بعد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے معیار کے مطابق ”صادق اور امین“ نہ رہے۔ پیپلز پارٹی کو ”جعلی اکاؤنٹس“ نے رسوا کر دیا۔ عمران خان صاحب سپریم کورٹ کے ذریعے ”صادق وامین“ کی سند حاصل کرنے کے بعد 2018 میں ان کے ”متبادل“ کی صورت ابھرے۔ اب ان کے علاوہ ”شہر جاناں میں باصفاکون ہے“ ؟! ”متبادل“ کو اقتدار میں اتنے ہی سال یعنی دس برس دینا ہوں گے جو ان سے قبل آئی قیادتوں کو عطا ہوئے تھے۔

کسی حکومت کے ا ستحکام یا عدم استحکام کا ذکر چلے تو ”عوام“ کو اس ضمن میں کلیدی قوت تصور کیا جاتا ہے۔ اپنی عمر کے 25 سے زیادہ برس ملکی سیاست کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد بہت لگن سے رپورٹ کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بعد بہت اعتماد سے اب یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس ضمن میں ”عوام“ خواہ مخواہ گھسیٹ لئے جاتے ہیں۔ مرحوم محمد خان جونیجو کو آٹھ سال کے کڑے مارشل لاء کے بعد اس ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ ان کے خلاف کوئی عوامی تحریک نہیں چلی تھی۔ حتیٰ کہ ان کے استعفیٰ کے طلب گار جلسے جلوس بھی نہیں ہو رہے تھے۔ اس کے باوجود ان کا 28 مئی 1988 ہو گیا تھا۔ بعدازاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کے ساتھ بھی یہ داستان دہرائی گئی۔

2008 میں ہمیں یہ سمجھا یاگیا کہ وطن عزیز میں ”خالص جمہوریت“ بحال ہو گئی ہے۔ عدلیہ اور میڈیا کامل آزاد ہیں۔ ”منتخب حکومتوں“ کو اب استحکام نصیب ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی کو مگر قومی اسمبلی نے نہیں ”عوام کی طاقت“ سے بحال ہوئی عدلیہ نے فارغ کیا تھا۔ نواز شریف ان کے مقابلے میں عدلیہ ہی کے ہاتھوں مزید رسواہوئے۔ حقیقی اقتدار واختیار اب سیاست دانوں کی گرفت میں ہرگز نہیں رہے۔ میرا غیر جانب دارانہ مشاہدہ مجھے یہ لکھنے کو مجبور کر رہا ہے کہ ان کے ہاں اسے اپنی گرفت میں لانے کی تڑپ بھی موجود نہیں رہی۔

زیادہ تفصیلات میں جانے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ فقط ”دیگ کے چند دانے“ چکھادیتا ہوں۔ کسی بھی منتخب حکومت کے لئے مشکل ترین مرحلہ اس کے پیش کردہ بجٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری ہوا کرتی ہے۔ اس ضمن میں اہم ترین مرحلہ وہ ہوتا ہے جہاں حزب اختلاف مختلف وزارتوں اور محکموں کے لئے طے ہوئی رقوم کی منظوری میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے Cut Motionsپیش کرتی ہیں۔ اردو میں انہیں کٹوتی کی تحاریک کہا جاتا ہے۔

حزب اختلاف اگر کسی حکومت کو بجٹ منظوری کے حوالے سے واقعتاً وختا ”ڈالنا چاہ رہی ہو تو تقریباً ہر وزارت کے لئے طے ہوئی رقوم کو منظور کروانے کے لئے کٹوتی کی تحاریک جمع کرواتی ہے۔ اصرار ہوتاہے کہ ان کی تحاریک پر ایوان میں“ سیرحاصل ”بحث ہو۔ دونوں جانب سے اس ضمن میں تقاریر ہوجائیں تو محض Voice Voteکے ذریعے نہیں بلکہ نشستوں سے کھڑے ہو کر گنتی کروانے کے مطالبے ہوتے ہیں۔ اپنی“ گنتی پوری ”رکھنے کے لئے بجٹ اجلاس کے کم از کم آخری چار دن حکومت اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ اس کے حامی اراکین ہمہ وقت ایوان میں نہ سہی پارلیمان کی عمارت میں موجود رہیں۔

ہماری بہت ہی ”تجربہ کار“ اپوزیشن جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کو موجودہ ایوان میں 140 کے قریب اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ اختر مینگل کی علیحدگی کے بعد مزید ووٹ بھی جمع ہوسکتے ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے اتنی بڑی اپوزیشن فقط 2002 کے بعد دیکھنے کو ملی ہے۔ اس بھاری بھر کم تعداد کے ہوتے ہوئے بھی ہماری حزب اختلاف نے یہ ”تاریخ ساز“ فیصلہ کیا کہ وہ محض چند وزارتوں کے خلاف کٹوتی کی تحاریک پیش کرے گی۔

ان کے حوالے سے ”دوستانہ“ سنائی دیتی تقاریر کے بعد نشستوں پر کھڑے ہونے والی گنتی کامطالبہ نہیں ہوگا۔ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین کٹوتی کی تحاریک کے حوالے سے ”مک مکا“ ہو گیا تو عمران خان صاحب گزشتہ ہفتے اچانک ایوان میں تشریف لائے۔ وہاں آنے کے بعد انہوں نے 70 منٹ سے زیادہ لمبی تقریر بھی کی۔ ان کی تقریر کو حزب اختلاف نے حالیہ روایات کے برعکس نہایت احترام سے سنا۔ اس دن یہ بات طے ہو گئی تھی کہ عمران حکومت کا پیش کردہ بجٹ بآسانی منظورہو جائے گا۔

اتوار کے دن سے ہماری اپوزیشن جماعتیں اب محض بڑھکیں لگارہی ہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق شلجموں سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے۔ ہم سادہ لوح عوام کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ اپوزیشن عمران حکومت کی بجٹ منظوری کے حوالے سے ”سہولت کار“ نہیں بنی۔ اس کے مقابلے میں ابھی تک ڈٹ کرکھڑی ہے۔ پارلیمانی کارروائی کو 1985 سے مسلسل رپورٹ کرنے کی وجہ سے جمع ہوئے اپنے تجربات کی بدولت میں اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ کٹوتی کی تحاریک کے ضمن میں حکومت کی ”دوست“ ہوجانے کے بعد اپوزیشن کو ایسی گمراہ کن بڑھکیں لگانے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ میرے بہت ہی محترم اور پیارے خواجہ آصف نے کبھی فرمایا تھا: ”کچھ۔ ۔ ۔ ہوتی ہے۔ کچھ۔ ۔ ۔ ہوتی ہے“ ۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments