کورونا : مجھ پر کیا بیتی ( 2 )۔


ایک اوردوست جو نامور ڈرامہ ڈائریکٹر ہیں ان کے گھر کے پانچوں افراد اس موذی وبا کی زد میں آ گئے۔ پہلے سوچا ٹیسٹ کرا لیں پھر حساب لگایا کہ چالیس ہزار روپے صرف ایک بار کے ٹیسٹوں پر اٹھ جائیں گے، اگلی بار پھر کم از کم اتنے ہی روپے خرچ ہوں گے۔ علامات واضح تھیں لہٰذا فیصلہ کیا کہ ٹیسٹوں پر رقم خرچ کرنے کی بجائے اچھی خوراک اور ضروری نگہداشت پر صرف کی جائے۔ ماشاء اللہ اب تمام افراد صحت مند ہیں۔ لوگ لیبارٹریز کے معیار اور مہنگے ٹیسٹوں کے باعث اب ان سے رجوع نہیں کر رہے جس سے حکومت سمجھ رہی ہے کہ کورونا کم ہورہا ہے۔

سنامکی کے قہوے اور صرف گرم پانی نے میرا پیٹ ہی خراب نہیں کیا جسم کو توانائی کی مہیا کرنے والے پورے نظام کو نقصان پہنچایا۔ یقیناً یہ جڑی بوٹیاں مفید ہوتی ہیں لیکن ان کے استعمال کی مقدار اور طریقہ کسی حکیم سے ہی دریافت کیا جائے۔ عائشہ غذا سے علاج کرتی ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ میں ان دنوں ان کے مریضوں نے جلد صحت یابی پائی ہے۔ انہوں نے کچا ادرک تھوڑا تھوڑا کھانے کا مشورہ دیا، اس سے بہتری آئی۔ انہوں نے نیم، سہانجنا اور زیتون کے پتوں کے قہوے پینے کو بھی وٹامن کے حصول کا بہترین ذریعہ بتایا۔

کورونا نے جسم سے گویا جان نکال لی۔ میرے بازوؤں کے مسلز اگرچہ چند سال پہلے جیسے نمایاں نہیں رہے لیکن اب بھی انہیں دیکھ کر سراہا جاتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے سارا جسم گھل سا گیا۔ انگلیوں کی حالت ہتھیلی کی جانب ایسی ہو گئی گویا گتے کی بنی ہیں۔ آنکھیں کس قدر اندر کو چلی گئیں اور چہرے پر ہڈیاں نمایاں ہونے لگیں۔ بطور سپورٹس مین غذا کے استعمال سے واقفیت بھی کام آئی۔ آلو بخارہ، خوبانی، انجیر، بادام کے ساتھ آم کا جوس اور یخنی کا استعمال بڑھایا۔

شروع کے چند روز سابودانہ کے چار سے زائد چمچ نہیں لے سکتا تھا۔ ساتھ ایک کپ دودھ، سات آٹھ روز کے بعد بخار اترا تو گندم کا دلیہ شروع کر دیا۔ دو ابلے انڈے اور ایک کپ دودھ۔ دس بجے کے قریب پھل کمرے میں پہنچا دیے جاتے۔ بارہ بجے یخنی آ جاتی اور ڈیڑھ بجے کھانا۔ دوپہر کا کھانا نہیں کھایا جا سکتا تھا۔ ٹماٹر اور مولی کی چٹنی نے بھوک لگائی۔ اس دوران بہت سے عزیزوں، دوستوں اور ملنے والوں کے فون آتے رہے۔ میں بات کرنے کے قابل نہ تھا۔

ڈر لگنے لگا تھا کہ اگر بات کی تو کہیں سانس نہ اکھڑ جائے۔ ہمارے تمام کالم نگاروں نے فون کیا، گروپ ایڈیٹر سید ارشاد احمد عارف صاحب نا صرف روز بھائی سے میری خبر لیتے رہے بلکہ بعض معاملات میں ایک سہولت کا انتظام بھی کر دیا۔ اسلم ترین صاحب نے جلد صحت یابی کی دعا کی۔ سینئر کالم نگار ہارون الرشید صاحب نے حوصلہ دیا۔ عامر خاکوانی نے فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے یاد رکھا۔ پھر ملک ادریس صاحب، شیخ رشید اور شاہنواز رانا کو کیسے میں یاد نہ رہتا۔

بیماری ایسی بھی ہو گی کبھی خیال نہ گزرا تھا۔ اللہ کا شکر کہ اس نے مرض کے ساتھ شفا پیدا کی۔ پندرہ بیس دن کی تنہائی اور ہر قسم کے میل ملاقات سے پرہیز بذات خود ایک مشق اور چلہ کی شکل ہے۔ طبیعت جوں جوں بہتر ہوتی گئی پڑھنے کی طلب میں اضافہ ہوا۔ مستنصر تارڑ صاحب کا ایک ناول کئی ماہ سے پڑھ نہ سکا تھا۔ ”بہاؤ“ پڑھا۔ کیا اردو میں اس سے بہتر ناول لکھا گیا ہے؟ تاریخ اور کہانی اکثر ایک دوسرے میں ملا کر ناول لکھا جاتا ہے۔

حقائق اور تخیل جس قدر ایک دوسرے کے قریب ہوں قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ اس دوران کچھ جدید رومانوی نفسیات پر آن لائن پڑھا۔ مغربی سکالر ہم سے بہت آ گے ہیں۔ محبت کی ہزاروں شکلیں، جسمانی تعلق کے بے شمار معانی، ناکام تعلقات کی درست درست نشاندہی۔ تاریخ کے بارے میں پڑھا۔ عجیب و غریب کردار، دنیا کے مختلف گوشوں میں ہزاروں برس سے تاریخ انسانوں کی شکل میں پیدا ہو رہی ہے۔ پڑھنے کے ساتھ فلم دیکھنا مجھے پسند ہے۔

بیماری کے پہلے دس دن تو نہ پڑھنے کا ہوش رہا نہ فلم کا۔ اس عرصے میں اوراد و وظائف تلاش کر کے گھر والے پڑھتے رہے۔ میں بھی استغفار اور درود شریف کو تسبیح بنائے رہا۔ مزاج نے کچھ طاقت پکڑی تو پنجابی فلموں ”مستانہ ماہی“ اور ”عشق میرا ناں“ کے گانے بار بار سنے۔ رونا لیلیٰ اور مہناز کے پنجابی فلمی گانے سنے۔ تصور خانم کو سنا۔ ناہید اختر کے گائے ہوئے نغموں سے خود کو تازہ دم کیا۔ چند ایسے گیت ہیں جو مجاز اور حقیقت کے باریک پردے کے دونوں طرف سنے جاتے ہیں۔

”چھیتی بوڑھیں وے طبیبا، وے میں تیرے رنگ رنگی آں رانجھن یار، ماہی ہسیا بہاراں کھل پیاں اور بھی ہیں۔ چنگیز خان پر ہالی ووڈ نے کئی فلمیں بنائی ہیں۔ ایک عمدہ فلم دیکھی جس میں چنگیز خان کی ابتدائی زندگی سے لے کر ایک سپر طاقت بننے کے ادوار دکھائے گئے۔ گزشتہ برس پاکستان میں ایک فلم بنی“ ساون ”۔ سکرول کرتے ہوئے سامنے آئی تو میں نے آن کردی۔ بلوچستان کے دور دراز علاقے کی کہانی ہے۔ علاقے میں قحط پڑنے پر ساری آبادی ہجرت کر جاتی ہے۔

ایک پولیو زدہ بچہ جیپ میں گنجائش نہ ہونے پر تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس فلم میں پولیو، سرداروں کے مظالم، بچوں کی سمگلنگ اور بلوچستان میں عام آدمی کی زندگی کو فوکس کیا گیا ہے۔ شاید اس فلم کو کسی سینما میں نمائش کا موقع نہیں ملا لیکن میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ غیر معروف اداکاروں کے ساتھ بنائی گئی اس فلم کو عامر خان کی لگان سے کہیں زیادہ پذیرائی مل سکتی ہے۔ زندگی رب کی امانت ہے۔ مجھے یہ دوسری بار ملی ہے۔

کوویڈ 19 کا ہر مریض دوسرے سے الگ کیفیات سے گزرتا ہے لیکن بخار اور سانس کے حوالے سے سب کے تجربات اور محسوسات لگ بھگ ایک جیسے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنہیں خبر بھی نہ ہوئی کہ انہیں کب وبا لاحق ہوئی اور کب شفایاب ہوئے۔ ایسے بھی ہیں جنہیں لگا کہ اگلے سانس کا قدم موت کی شاہراہ پر پڑے گا۔ بس ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں رکھیں کوئی نہ کوئی اس رسہ کشی میں آپ کو زندگی کی طرف کھینچ لائے گا۔ آپ کی مناہل کچھ نہیں کرسکے گی لیکن وہ یہ میسج بھیج کر آپ کو نا امید نہیں ہونے دے گی۔
Baba you will be fine, We all will live together.
(ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments