صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے


12 مارچ 2020 وہ پہلا روز تھا جب میں ساتویں جماعت سے بنے اب تک کے دوست غلام نبی کے دفتر پہنچا تو میں نے ہاتھ باندھ کے کہا تھا کہ مصافحہ معانقہ ممنوع۔ غلام نبی 73 برس کا ہے اور اسے لگتا ہے کہ زندگی کے سات برس مزید بچ رہے ہیں کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ ان کے گھرانے میں کسی کی عمر اسی برس سے بڑھی نہیں چنانچہ وہ اپنے سات برسوں کو سنبھالے رکھنے کے سبب مجھ سے بھی زیادہ محتاط برائے صحت و عافیت ہے، ہنس پڑا اور مصافحہ کرنے کو ہاتھ نہیں بڑھایا۔

اسی روز شام اس کے بڑے بیٹے سہیل لاشاری اور چھوٹے بھتیجے اعظم لاشاری نے مجھے کھانے پر سہیل کے ہاں مدعو کیا ہوا تھا۔ غلام نبی بولا مجھے بھی بلایا ہے ( باپ بیٹے کے گھر ملحق ہیں ) مگر میں نے کہا ہے کہ میں بس پانچ دس منٹ آ کر کے بیٹھ جاؤں گا۔

میں نے کہا، ہاں یار احتیاط کرنی چاہیے، سہیل کو روک نہ دوں۔ اس نے کہا ہاں روک دو۔ لوگوں کو اکٹھے نہیں ہونا چاہیے۔ سہیل وہاں سے کوئی کلومیٹر دور اپنے علیحدہ دفتر میں تھا۔ میں نے فون کر کے اسے دعوت منسوخ کرنے کا کہا تو اس نے جواب دیا، ”انکل منسوخ نہیں ہو سکتی، کھانے کا سارا سامان خرید کے بھیج دیا گیا ہے۔

کیونکہ بیشتر کھانا سہیل اور غلام نبی کی کوٹھی سے ملحق اعظم کے گھر تیار ہونا تھا اور میری فرمائش پر بس مٹن کی ڈشز رکھی گئی تھیں، چنانچہ دعوت کو قائم رکھنے کے سوا چارہ نہ رہا۔

ان لوگوں کی رہائش گاہیں شہر سے باہر ایک مضافاتی بستی میں ہیں چنانچہ شام کو سہیل اپنی گاڑی پہ آ کے مجھے اپنے مجہز گھر لے گیا تھا۔ پھر اعظم، اس کا بھائی ہاشم، ہاشم کا جوان بیٹا، سہیل کا ماموں اعجاز، اعجاز کا جوان بیٹا، ان کے ایک اور دوست وکیل، یوں ہم کوئی نو افراد ڈرائنگ روم میں اکٹھے ہوئے، کھانا کھا لیا تو غلام نبی بھی آ گیا۔

میں کورونا وائرس سے بچنے کی احتیاطوں بارے تفصیل سے بتاتا رہا۔ سب اس خطرناک وائرس سے محتاط رہنے سے متعلق متفق رہے۔ سمجھدار لوگ چاہے دیہات سے بھی ہوں شہر کے بہت سے ناسمجھ لوگوں سے کہیں بہتر ہوتے ہیں اور پھر اب سبھی زیور تعلیم سے آراستہ ہیں۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سے آگاہ ہیں۔

واپسی کے لیے صحن میں پہنچے تو اعظم نے معانقہ کے لیے بازو کھول دیے اور ہم گلے ملے جس پر تیزبین اعجاز بولے کہ ابھی تو احتیاطوں کی بات کر رہے تھے اور ابھی احتیاط کا دامن چھوڑ دیا۔ اوہو غلطی ہو گئی۔ یہ آج تک کا آخری معانقہ رہا۔ ۔ ۔ پھر اگلے روز یعنی 13 مارچ 2020 سے گھر میں بند ہو گیا۔

ساڑھے تین ماہ ہو گئے، گھر کی دہلیز پار نہیں کی۔ بقول ملتان میں کے ایک ڈاکٹر دوست کے کہ نہ کہیں جاتے ہیں نہ کسی کو گھر آنے دیتے ہیں مگر ہمارے گھر میں ڈاکٹر بھی آئے، ڈسپنسرز بھی، آٹا پسوا کے لانے والا بھی۔

پہلے بڑی بہن مریض ہوئیں۔ ساتھ ہی میں بھی ایک اور وائرس کا دہرا شکار ہوا جس کے ایک حصے کی اذیت اب بھی کبھی کچھ تیز ہو جاتی مگر اڑھائی ماہ بعد کچھ کم ہو چکی ہے۔ پھر بڑے بھائی بہت مریض ہوئے۔ شاید کورونا ہی تھا۔ ٹیسٹ نہیں کروایا۔ تین ہفتوں کے علاج سے ان کی صحت خاصی بحال ہو گئی۔

آخری مریض ان کا بڑا بیٹا رہا جو کورونا سے متعلق اکثر بے احتیاطی کر دیتا تھا۔ اسے باقاعدہ کورونا کی بیماری ہوئی۔ ایسی نہیں کہ قرنطینہ میں رہ کے ٹھیک ہو جاتی بلکہ ٹیسٹ پازیٹیو والی۔ وہ اب تک ہسپتال داخل ہے۔ مگر شکر الحمدللہ رو بہ صحت۔

مجھے اب لگتا ہی نہیں کہ میں زندگی میں کبھی گھر سے باہر بھی گیا ہوں گا۔ جیسے بہنیں برسوں سے گھر کی قیدی ہو کے خوش اور مطمئن ہیں کچھ کچھ ویسا میں بھی ہونے لگا ہوں البتہ بیمار ہونے سے پہلے یعنی 12 اپریل سے پیشتر اور کچھ حد تک صحت یاب ہونے کے بعد یعنی شاید 18 مئی کے بعد میں نے عقبی صحن میں صبح و شام 8 سے 11 ہزار قدم تیز تیز سیر کرنے کی عادت بحال رکھی۔

آج کل فیس بک فیس بک کھیلتے رہنے، کبھی ایک آدھ مضمون لکھ لینے، آن لائن اخبار دیکھ لینے، سائٹس پہ مضامین پڑھ لینے، کبھی کتاب کا مطالعہ کر لینے، کھانا کھانے اور آم چوسنے کے علاوہ زندگی بقول غالب صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے کے مترادف ہے۔

سنا ہے 15 جولائی سے ماسکو میں بین الاقوامی پروازوں کی آمدو روانگی شروع ہو جائے گی لیکن اس دوران جولائی کے آخر میں عیدالاضحی بھی ہے یوں شاید کہیں اگست کے پہلے دوسرے ہفتے میں میری زندگی کے چلن میں کوئی تبدیلی واقع ہو پائے انشاءاللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments