سوشل میڈیا پر چوہدری قمرالدین کا انتقال کیسے ہوا؟


ہر روز ابلاغ کے نئے طریقے ایجاد ہورہے ہیں۔ پر دل سے پوچھو تو ابلاغ کا ایک ہی طریقہ بہتر تھا۔ ڈھول پیٹنا۔ ۔ ۔ جی ہاں حاکم وقت کو جب بھی ضرورت پڑتی۔ وہ ڈھولچی کو بھیج دیتا اور وہ ڈھول بجا بجا کر لوگوں کی توجہ حاصل کرتا۔ اور حاکم وقت کا پیغام عام ہوجاتا۔ ۔ ۔ خیر ڈھولچی تو ابلاغ کے جدید ذرائع سے آج بھی وابستہ ہیں۔ ۔ ۔ لیکن اب حاکم اور محکوم کی تمیز ختم ہوگئی ہے۔ جس کے پاس روپیا ڈھول بھی اس کا اور ڈھولچی بھی۔ ۔ ۔

بات یہاں تک ہی محدود ہوتی تو خیر تھی۔ ذرائع ابلاغ میں جب سے سوشل میڈیا کی آمد ہوئی ہے۔ الاماں الحفیظ۔ سب اپنے دل کی حسرت نکال رہے ہیں۔ ۔ ۔ وہ پیغام جس کے لئے پیغام رساں بھی انکار کر دیا کرتے تھے۔ سوشل میڈیا سے با آسانی جاری کیے جا سکتے۔ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ۔ معلوم نہیں پڑتا کہ کہ پیغام کس کے لئے ہے۔ ہمارے ایک دوست فیس بک پر ایک شعر لکھ کر پھنس گئے۔ شعر تھا

کافی ہے مرے دل کی تسلی کو یہی بات
آپ آ نہ سکے آپ کا پیغام تو آیا

روا روی میں پوسٹ کر دیا گھر آئے تو بیگم نے گھور کر کہا۔ بڑھاپے میں قدم رکھ رہے ہو۔ اب بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ صبح دفتر پہنچے تو دفتر کی خاتون ساتھی شرما کر کہہ رہی تھی۔ سر آپ نے میرے میسج کا کمال جواب دیا۔ سر آپ بھی نہ۔ اس سے شرما کر دوپٹہ منہ میں لے لیا۔ ادھر بے تکلف دوستوں نے پوچھ پوچھ کر ہلکان کر دیا۔ کون ہے جس کے پیغام سے تسلی ملی۔ ۔ ۔ یار ہمیں بھی بتاؤ پیغام میں کیا تھا۔ ایک دن کہنے لگے۔

یار۔ جب بھی موبائل میرے ہاتھ میں ہوتا ہے بچے دیکھ دیکھ کر ہنستے ہیں۔ ۔ ۔ میں نے کہا بچے تمھارے لئے ہیں۔ سب گریجویٹ ہیں۔ دنیا کے جدید تقاضوں سے واقف۔ میں نے پوچھا موبائل استعمال کے بعد ہسٹری ڈیلیٹ کرتے ہو؟ معصومانہ انداز میں پوچھنے لگے یہ کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا جب ہی تو بچے ہنس ہنس کر دیکھتے ہیں۔ کچھ نہ سمجھے جب سمجھایا تو ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ کہنے لگے مجھے سکھاؤ۔ مجھے سکھاؤ۔ تاریخ کس طرح مٹائی جاتی ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو تکا لگایا تھا۔ مگر نکلے تم بھی۔

کیا کہیں ہمیں ابھی تک اس بات کا ادراک نہیں کہ سوشل میڈیا کی اہمیت کیا ہے؟ اور پوسٹ کی گئی خبر یا صورتحال کے کیا نتائج نکلیں گے۔ کچھ پتہ نہیں۔

کچھ دوست ایک جگہ بیٹھے گفتگو کرہے تھے۔ اور لوگ بھی موجود تھے۔ ایک نے کہا کہ یار تمھیں معلوم ہے نہ ہمارے علاقے کی معروف سیاسی شخصیات۔ چودھری فخروالدین اور۔ چوھدری قمرالدین جن کا آپس میں جائیداد پر تنازعہ تھا۔ مصالحت کی کوششیں رنگ لائیں۔ چودھری فخروالدین کو نقد رقم مل گئی۔ اور زمینوں کا انتقال چودھری قمرالدین کو ہوگا۔ قریب بیٹھا شخص کچھ سمجھ نہ سکا فورآ پوسٹ رکھ دی زمین کے تنازعہ پر چودھری قمر دین کا انتقال۔

بس پھر کیا تھا۔ جھگڑا پھر ایک بار شروع۔ تعزیتوں کا انبار۔ چودھری فخروالدین کے خلاف نفرت کا سیلاب۔ چوہدری قمرالدین سے اظہار ہمدردی۔ دونوں کے حامی ہتھیاروں کے ساتھ آمنے سامنے۔ جان اس وقت چھوٹی جب ابلاغ کا پرانا طریقہ اختیار کیا گیا۔ یعنی ڈھولچی۔ نے۔ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اعلان کیا کہ انتقال چوہدری قمرالدین کا نہیں ہوا۔ بخیر وخوبی فیصلہ یہ ہوا ہے کہ زمینوں کا انتقال چوہدری قمرالدین کے نام ہو گا۔

توبہ۔ توبہ۔ یہ معاملہ دیکھ کر چاچا سرفو۔ (سرفراز) ۔ بولے بھائی ابھی ہمیں جدید میڈیا کو سمجھنے میں وقت لگے گا۔ تب تک ان ڈھولچییوں سے کام نکالیے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments