درخشندہ قبائلی روایات کا امین حاجی فیض محمد لالا


بلاشبہ یہ دنیا فانی ہے اور اس میں رہنے والی ہر شے نے آخرکار ابدی نیند سو جانا ہے، عمر کے اس مختصر دورانیہ میں ہم نے بہت سے لوگوں کو اس دنیا سے کوچ کرتے دیکھا جن کے انتقال پر یقیناً دل غمزدہ ہوا اور ان کے لئے خیر اور مغفرت کی دعاؤں کے لئے ہاتھ فضا میں بلند کیے۔ قبرستان ایسے بے شمار انسانوں سے بھرے پڑے ہیں جن کو اپنی آنکھوں کے سامنے دفن ہوتے دیکھا۔ مگر کچھ ہستیاں اپنی عظمت، سخاوت بہادری اور کردار کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہیں، ان کی زندگی آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہوتی ہے اور ان کی رحلت ایک ناقابل تلافی نقصان تصور کیا جاتا ہے، جن کے وصال کا کئی دن، کئی مہینوں تک یقین تک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک نام جناب حاجی فیض محمد لالا کا بھی ہے۔ ان کا تعلق ضلع پشین کی تحصیل کاریزات کے ایک گاؤں کلی خوشاب سے تھا۔ ان کی زندگی مثل چراغ ہے، امید کی کرن ہے۔ ان کی شخصیت نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ پورے ضلع پشین اور آس پاس کے اضلاع میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ وہ ایک بے باک، نڈر، زبان کے پکے اور دو ٹوک موقف رکھنے والے رہنما تھے۔

انہوں نے ہمیشہ سے اپنے علاقے کے غریب عوام کے لئے جدوجہد سے بھرپور زندگی گزاری، وہ سیاست کے ذریعے خدمت پر یقین رکھتے تھے، وہ ایک سیاسی بصیرت رکھنے والی شخصیت تھے انہوں نے اپنی زندگی کا کثیر حصہ جمعیت علماء اسلام کے جھنڈے تلے گزارا ان کی بھرپور کوشش ہوتی تھی کہ علاقے میں فلاح و بہبود اور رفاہ عامہ کے اجتماعی کام کروائے جائیں اور اس یقین کے ساتھ انہوں نے ہمیشہ اس مقصد میں کامیابی بھی حاصل کی۔

حاجی صاحب علاقے کی امن کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے، انہوں نے بے شمار تصفیہ کروائے اور لوگوں کو پیار محبت سے رہنے کی تلقین کی، متعدد بار اپنے منصفانہ فیصلوں سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور اپنا وقار قائم رکھا۔ وہ اس علاقے کے لئے ایک فخر اور استقامت کی علامت تھے، ان کی موجودگی میں گاؤں والوں کو ایک سکون اور اطمینان کا احساس ہوتا تھا کیونکہ ایک لیڈر ہمیشہ سب سے بڑھ کر آگے چلتا ہے اور یہی اس کی خاصیت ہوتی ہے۔

میری خوش بختی ہے کہ حاجی صاحب میرے ننھیالی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ہم سب ان کو نانا کے طور پر جانتے تھے اس کے علاوہ وہ میرے والد صاحب کے دیرینہ احباب میں شمار ہوتے تھے، بسا اوقات والد صاحب کے ساتھ مجھے بھی ان کی محفلوں میں شرکت کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ان کی باتیں تجربے پر مبنی اور دلائل سے مزین ہوتی تھیں، وہ گاؤں کے ہر فرد کا یکساں خیال رکھتے تھے اور خوشی غمی میں باوجود علالت کے بھی ضرور شرکت کرتے تھے، یہی وہ سبب ہے کہ ہر کوئی ان کی دل سے عزت کرتا اور ان کے فرمودات سے بہرہ مند ہوتا۔

حاجی صاحب جیسے رہنما صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ان کے خلا کو پر کرنا شاید ممکن نہ ہو، ان کی رحلت یقیناً اس قوم اور علاقے کے لئے کسی ناقابل تلافی نقصان سے کم نہیں، مگر ان کی زندگی ہم سب با الخصوص نوجوانوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے، ان کی فکر اور فلسفہ پر چل کر پہاڑ جیسی مشکل کا سامنا بھی با آسانی کیا جاسکتا ہے ان کی باتوں پر عمل پیرا ہو کر معاشرے میں ایک پروقار مقام حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ان کی زندگی پر لکھنا یقیناً کسی شرف سے کم نہیں، ان کی زندگی پر بندہ لکھنے لگ جائے تو معلوم نہیں کتنے صفحات کالے ہوں مگر پھر بھی تشنگی باقی رہ جائے، آپ کی سیاسی، سماجی، معاشرتی اور فلاحی زندگی کا کوئی نعم البدل نہیں، آپ ایک رہنما تھے اور ہمیشہ ایک رہنما کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ بس اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ان کی قبر کو نور سے منور کر دیں اور ان کے لئے آگے کی منازل آسان فرمائیں!

آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments