انڈیا کی ریاست اترپردیش میں 60 مقدمات میں نامزد وکاس دوبے کون ہیں؟


اترپردیش کے شہر کانپور میں دیر رات مجرموں کو پکڑنے جانے والی ایک پولیس ٹیم پر اندھادھند فائرنگ سے ایک ڈی ایس پی سمیت آٹھ پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔

ریاست کے پولیس حکام کے مطابق اس حادثے میں متعدد پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جائے وقوعہ پر پولیس کی ایک بڑی تعداد تعینات کردی گئی ہے۔

ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ہتیش چندر اوستی نے بتایا کہ ’کانپور کے ایک بدنام زمانہ مجرم وکاس دوبے کو پکڑنے پولیس دیکرو گاؤں گئی تھی۔ پولیس کو روکنے کے لیے انھوں نے پہلے ہی جے سی بی یا بلڈوزر لگا کر راستہ روک رکھا تھا۔‘

مرنے والوں میں بلہور پولیس آفیسر دیویندر مشرا اور ایس او شیوراج پور مہیش یادیو بھی شامل ہیں۔ جس وکاس دوبے کی یہ ٹیم گرفتاری کے لیے گئی تھی ان پر نہ صرف متعدد الزامات عائد ہیں بلکہ درجنوں مقدمات بھی درج ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں بھی ان کی کافی حد تک رسائی بتائی جاتی ہے۔

وکاس دوبے کون ہیں؟

وکاس دوبے اترپردیش کا تعلق اترپردیش سے ہے اور وہ ایک بار مقامی انتخابات بھی جیت چکے ہیں اور ان کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اقتدار میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہو ان کے سب سے قریبی تعلق ہیں۔

کانپور کے چوبیر پولیس سٹیشن میں وکاس دوبے کے خلاف کل ساٹھ مقدمات درج ہیں۔ ان میں قتل اور قتل کی کوشش جیسے بہت سے سنگین مقدمات شامل ہیں۔

کانپور انسپکٹر جنرل آف پولیس موہت اگروال نے بی بی سی کو بتایا کہ جس کیس میں پولیس وکاس دوبے کو پکڑنے گئی وہ بھی قتل سے متعلق ایک معاملہ ہے اور اس میں وکاس دوبے نامزد ہیں۔

کانپور میں مقامی صحافی پروین موہتا کا کہنا ہے کہ ’سنہ 2001 میں وکاس دوبے پر بی جے پی کے سابق وزیر سنتوش شکلا کا الزام لگا۔‘

’انھوں نے شوالی تھانے میں جا کر سنتوش شکلا کا قتل کیا تھا۔ یہ ایک ہائی پروفائل کیس تھا۔ اتنے بڑے جرم کے بعد بھی کسی پولیس اہلکار نے وکاس کے خلاف گواہی نہیں دی۔ وکاس دوبے کے خلاف عدالت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے ان کو رہا کردیا گيا تھا۔‘

اس کے علاوہ سال 2000 میں کانپور کے شوالی تھانہ علاقہ میں واقع تاراچند انٹر کالج کے اسسٹنٹ مینیجر سدھیشور پانڈے کے قتل کے معاملے میں وکاس دوبے کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

پولیس اسٹیشن میں درج رپورٹ کے مطابق وکاس دوبے پر سال 2000 میں ایک اہم شخص رام بابو یادیو کے قتل کی سازش کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ یہ اس قتل کی سازش وکاس نے جیل میں تیار کی تھی۔

قتل کے معاملات

وکاس کو پکڑنے پر 25000 روپے سرکاری انعام بھی موجود ہے۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ’وہ ضلع پنچایت کا سابق ممبر ہے اور اس کے خلاف کم از کم 60 قتل اور ڈکیتی کے مقدمات ہیں۔‘

سال 2004 میں ایک تاجر کے قتل کے معاملے میں بھی وکاس دوبے کا نام سامنے آیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے بہت سے معاملات میں وکاس دوبے جیل جا چکے ہیں لیکن وہ ہمیشہ ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔ سنہ 2013 میں بھی وکاس کا نام قتل کے ایک مقدمے میں سامنے آیا تھا۔

صرف یہی نہیں 2018 میں وکاس دوبے پر ان کے چچیرے بھائی انوراگ پر قاتلانہ حملے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس میں انوراگ کی اہلیہ نے وکاس سمیت چار افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

پروین موہتا کا کہنا ہے کہ ’وکاس دوبے کا ہر سیاسی جماعت میں اٹھنا بیٹھنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں آج تک پکڑا نہیں گیا۔ اگر پکڑا بھی گیا تو وہ کچھ ہی دنوں میں جیل سے باہر آگئے۔‘

وکاس دوبے کا ذاتی پس منظر

وکاس دوبے اصل میں کانپور میں بٹھور کے شیوالی تھانہ علاقہ کے دیکرو گاؤں کا رہنے والا ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق وکاس کے والد کسان ہیں۔ وکاس کو ملا کر ان کے تین بھائی ہیں جس میں سے ایک بھائی کا آٹھ سال قبل قتل ہوگیا تھا۔ بھائیوں میں وکاس سب سے بڑے ہیں۔ وکاس کی اہلیہ ریچا دوبے اس وقت ضلع پنچایت کی ممبر ہیں۔

مقامی افراد نے بتایا کہ وکاس دوبے کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک انگلینڈ میں ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کررہا ہے جبکہ دوسرا بیٹا کانپور میں ہی تعلیم حاصل کررہا ہے۔

وکاس نے گاؤں میں ایک قلعہ نما گھر بنا رکھا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وکاس کی اجازت کے بغیر کوئی گھر کے اندر داخل نہیں ہوسکتا ہے۔

چوبی پور تھانے میں ان کے خلاف جو مقدمات درج ہیں ان میں سے بعض غیر قانونی طور پر زمین کی خرید و فروخت کے بھی ہیں۔

پولیس اور دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ وکاس نے مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی دولت غیر قانونی ذرائع سے بنائی ہے۔ بٹور علاقے میں ان کے بعض سکول اور کالج بھی چلتے ہیں۔

دیکرو گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ نہ صرف ان کے گاؤں میں بلکہ آس پاس کے دیہاتوں میں بھی وکاس دوبے کا دبدبہ تھا۔ گاؤں کی پنچایت اور گاؤں سربراہ کے انتخاب میں وکاس دوبے کی پسند اور ناپسند کافی اہمیت رکھتی تھی۔

وکاس کے گاؤں کے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ پندرہ سالوں سے بلامقابلہ ایک ہی پارٹی مقامی انتخابات جیت رہی ہے۔ وکاس دوبے کے کنبے کے لوگ ہی پچھلے پندرہ سالوں سے ضلعی پنچایت ممبر کے انتخاب جیت رہے ہیں۔‘

دیکرو گاؤں کے ایک رہائشی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وکاس دوبے کے خلاف تھانے میں جتنے بھی مقدمات درج کیے گئے ہوں اس گاؤں میں کوئی بھی اس کی برائی کرنے والا نہیں ملے گا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی گواہی دے گا۔‘

ریاستی حکومت کی تنقید

وکاس دوبے کا تعلق اترپردیش سے ہے جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بے جے پی) کے یوگی آدتیہ ناتھ اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔

عام تاثر یہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ ایک سخت گیر حکمران ہیں جو قوانین کے آگے کسی کی نہیں سنتے۔ چاہے حال ہی میں ہوئے شہریت کے متنازع قانون سی اے اے کے خلاف احتجاج ہوں یا لاک ڈاؤن کا نفاذ۔

ایسے میں سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یوگی آدتیہ ناتھ وکاس دوبے کے ساتھ بھی اتنا ہی سخت رویہ اختیار کریں گے اور اس کو پکڑنے اور اس کے خلاف سخت قانونی کاروائی کریں گے۔

ٹوئٹر پر صحافی روہنی سنگھ نے لکھا ہے کہ اگر وکاس دوبے کا نام وکاس دوبے نہیں بلکہ ڈاکٹر کفیل خان ہوتا تو شاید وہ قومی سلامتی کے قانون این ایس اے کے تحت جیل میں ہوتے اور آٹھ پولیس اہلکار ہلاک نہ ہوتے۔ لیکن ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب قابل ڈاکٹر جیل کاٹ رہے ہیں اور مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔‘

اخبار ‘دا پرنٹ’ کی سیاسی مدیر رینو اگال نے بی بی سی اردو کی خدیجہ عارف سے بات کرتے ہوئے کو بتایاکہ’وکاس دوبے علاقے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد یہ صاف لگتا ہے کہ پولیس کے اندر ہی کوئی ایسا اہلکار تھا جس نے پولیس کی اس کارروائی کے بارے میں اسے بتایا جس کی وجہ سے اس نے اتنی بڑی تعداد میں پولیس والوں کو ہلاک کردیا۔‘

’اترپردیش کی حکومت مجرموں کے خلاف سختی سے پیش آتی ہے لیکن اس واقعے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نظام بعض مجرموں کے سامنے مجبور ہے۔‘

میڈیا سوراج کے ایڈیٹر اور اترپردیش میں ایک لمبے وقت سے صحافت کرنے والے رام دت ترپاٹھی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’وکاس دوبے ایک مقامی سیاست دان تھا اور اس کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کو اس جیسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے پاس نہ صرف ووٹ ہوتے ہیں بلکہ مقامی لیول پر اس کی بات بھی سنی جاتی ہے۔ اس معاملے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود پولیس کے محکمے میں کتنی بدعنوانی ہے۔‘

وہیں ریاست کی حزب اختلاف کی جماعتیں اور بعض لوگ سوشل میڈیا پر اس بات کی وجہ سے حکومت پر تنقید کررہے ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ بقول ان کے اتنا بڑا مجرم آزاد گھوم رہا تھا۔

کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’اترپردیش میں مجرموں کا اتنا حاوی ہوجانا ایک غیر معمولی بات ہے۔ اس جنگل کے راج کو دیکھتے ہوئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp