گواہ


عکاشہ آفس میں مصروف تھی، سیل فون کی مسلسل بجنے والی مدھر دھن پر اس نے چونک کر سیل فون اٹھا یا، جگمگاتے نمبر پر نگاہ پڑتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی روشنی پھیل گئی۔

ادائے دلربائی سے اس نے ہیلو کہا، اور چند لمحے گفتگو کے بعد فون بند کر کے دوبارہ سے کام میں مصروف ہو گئی۔

آفس ٹائم ختم ہوتے ہی اس نے اپنی میز کی درازوں کو قفل لگایا اور اپنے کیبن کو بھی بند کیا، یہ اس کا برسوں کا معمول تھا، وہ کئی سال سے یہ ملازمت کر رہی تھی، وہ ایم بی اے کے آخری سمیسٹر کی تیاری کر رہی تھی، جب اس کے والد کا ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہو گیا۔

عکاشہ نے صدمے میں بھی حواس بحال رکھے، امتحان دیا اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئی۔ امتحان کے فوراً بعد اس نے ایک نجی بنک میں نوکری کے لئے اپلائی کر دیا تھا۔

نتیجہ آتے ہی اس کی نوکری پکی کر دی گئی، ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ بھی ایک خاتون تھیں، عکاشہ کو دوران ملازمت کسی بھی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا جس کے لئے وہ اپنی باس کی شکرگزار تھی۔

کئی برس گزر گئے، عکاشہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بن گئی۔ اس دوران عکاشہ نے چھوٹے دو بھائیوں اور دو بہنوں کو پڑھایا اور ان کی شادیاں کیں۔ والدہ کا ہر طرح سے خیال رکھا، وہ عکاشہ کو دعائیں دیتے نہ تھکتی تھیں۔ آخری بہن کی شادی کے ایک ہفتے کے بعد والدہ چل بسیں۔ چند ماہ بعد عکاشہ کو اپنی بے بسی اور تنہائی کا شدید احساس ہوا۔

دونوں بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مگن تھے، بہنوں کے اپنے سسرالی مسائل تھے، عکاشہ آفس سے آتی، اکثر اسے کھانا بھی خود پکانا ہوتا یا پھر اکیلے بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا ہوتا۔ عکاشہ چالیس برس کی ہو چکی تھی، اس کی ایک کولیگ نے کہا شادی کر لو، عکاشہ نے سوچا، مناسب ہے اور ایک رشتے والی خاتون سے رابطہ کر لیا۔

لیکن جن مسائل کا سامنا اسے بہن بھائیوں کی شادیوں کے وقت کرنا پڑا تھا اس سے زیادہ مسائل کا سامنا خود کرنا پڑ رہا تھا، کبھی اس کی عمر، کبھی ملازمت، کبھی ذات پات، حتی کہ کبھی اس کے کردار پر سوال کیا جاتا، عکاشہ صدمے میں آ گئی، وہ کتنی باکردار اور پاکیزہ تھی یہ وہ خود یا اس کا خدا جانتا تھا، لیکن رشتے کے لئے آنے والے لوگ جس طرح اس کا جائزہ لیتے، اور سوال پو چھتے، اس کا دل خون ہو جاتا، حالانکہ رشتے والی زیادہ تر طلاق یافتہ اور رنڈوے افراد کے رشتے بتاتی تھی، جو آکر اس سے ایسے سوالات پوچھتے تھے جیسے اس پر احسان کر رہے ہوں۔ وقت بے وقت فون کر کے اس سے بے تکی گفتگو کرنا چاہتے، کچھ افراد واٹساپ پر تصاویر کا تبادلہ کرنے کو کہتے۔ کچھ کی نظر اس کی تنخواہ پر تھی۔

عکاشہ نے رشتے والی کو سختی سے منع کر دیا، کہ اب کسی کو اس کا فون نمبر نہ دے، اسے شادی ہی نہیں کرنی۔ بہن بھائیوں کو بھی یہی کہہ کر چپ کروا دیا۔ بھائی بھاوجوں نے زیادہ پرواہ نہ کی، ایک بیوی بچوں سمیت ملک سے باہر چلا گیا، دوسرا اپنے کاروبار اور بچوں میں مصروف رہتا۔ فون نمبر تبدیل کرنے کے بعد اس نے سکون کا سانس لیا۔

چند ماہ سکون سے گزرے، لیکن اس کی زندگی کا سکون اس وقت درہم برہم ہو گیا، جب ملک میں ہونے والی ایک بینکرز کانفرنس میں اس کی ملاقات افراہیم زمان سے ہوئی، وہ ملک کے دوسرے شہر میں موجود ایک نجی بنک کے چیف ایگزیکٹو تھے، متاثر کن شخصیت کے مالک تھے، عکاشہ کو ان کا مہذب برتاؤ اور گفتگو بہت اچھی لگی۔ کانفرنس ختم ہونے کے بعد جب وہ شہر سے چلے گئے، عکاشہ نے ان کو فون کیا، روابط بڑھتے گئے، اس دوران افراہیم زمان کی تکلیف دہ ازدواجی زندگی کا انکشاف ہوا، اس کی بیوی پچھلے دس سال سے ریڑھ کی ہڈی کی بیماری کے باعث بستر پر تھیں، اور شوہر کی کسی بھی قسم کی خدمت بجا لانے سے قاصر تھیں۔ افراہیم زمان صبر کے ساتھ گزارا کر رہے تھے، دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ تھے، بچوں کی شادیاں کرنا چاہتے تھے لیکن رشتوں کے حوالے سے سماجی مسائل آڑے آتے تھے۔ عکاشہ کی طرح ان کی زندگی بظاہر پرسکون، پر تعیش لیکن مسائل سے بھری تھیں۔

وہ ذہنی و جسمانی طور پر قریب آتے گئے، افراہیم زمان مہینے دو مہینے کے بعد عکاشہ کے شہر آتے، دونوں بھرپور ملاقات سے سرشار ہوتے اور پھر جدا ہو جاتے، عکاشہ کی زندگی کے وہ پہلے مرد تھے، وہ اس تعلق کے لئے بہت حساس اور محتاط رہتی، اپنی گاڑی میں کبھی اس اپارٹمنٹ پر نہ جاتی، جہاں وہ ملتے تھے، نہ ہی کسی کولیگ کو رازدار بنایا تھا۔ دو سال سے یہ تعلق چل رہا تھا۔ اس بار افراہیم زمان چار ماہ کے بعد ملاقات کے لئے آئے تھے، خدا خدا کر کے ایک بیٹی کی شادی ہو گئی تھی، مصروفیت کے باعث جدائی کا دورانیہ طویل ہو گیا تھا۔

ملاقات کے لئے بے تاب عکاشہ نے احتیاط کا دامن آج بھی نہ چھوڑا، آفس کے روم کو لاک کرنے کے بعد اس نے حسب معمول اپنی کولیگ کو اس کے گھر ڈراپ کیا، اور اپنے گھر پہنچ گئی، کپڑے تبدیل کر کے آن لائن ٹیکسی منگوائی، اور اپارٹمنٹ پہنچ گئی جہاں افراہیم زمان بھی بے قراری سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔

بستر پر بے قرار روحوں کے ملاپ کے دوران عکاشہ کی گردن میں موجود ڈائمنڈ پینڈنٹ کی نازک زنجیر ٹوٹ گئی، یہ پینڈنٹ افراہیم کا دیا ہوا پہلی ملاقات کا پہلا تحفہ تھا۔ بھرپور رت جگے کے بعد وہ صبح دیر تک سوئے رہے۔

عکاشہ نے بیدار ہونے کے بعد کافی بنا کر پی اور آفس پہنچ گئی، لیکن آفس سے جلدی آف لے کر واپس اپارٹمنٹ پہنچ گئی۔ افراہیم زمان نے اسے بیڈ پر کھینچ لیا، لگاتار بوسوں کے دوران افراہیم نے کہا، کیا ضرورت تھی جانے کی، اتنی ذمہ دار بھی نہ بنا کرو، عکاشہ چپ رہی، افراہیم زمان نے اس کی خاموشی محسوس کی، کیا ہوا ہے تمھیں۔

عکاشہ نے گہرا سانس لیا اور کہا، الجھن محسوس کرنے لگی ہوں اس خفتہ تعلق سے، آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا؟ افراہیم نے اس کے بال سنوارے، اور بولا میں نے اپنی بیوی سے بات کر لی ہے، دوسری بیٹی کی بھی شادی طے کر آیا ہوں، چھ ماہ بعد اس کی رخصتی کر کے ہم بھی نکاح کر لیں گے۔

عکاشہ نے بے یقینی سے کہا، اور آپ کے بیٹے، ان کو بتایا؟
افراہیم نے گہرا سانس لیا، وقت آنے پر بتا دوں گا، وہ میری بات سمجھیں گے، مجھے یقین ہے۔

عکاشہ نے کروٹ بدلی تو اس کو پینڈنٹ چبھا، اففف یہ کیا ہے، اس نے ٹٹولا، پینڈنٹ اس کے ہاتھ میں آ گیا، اوہ یہ ٹوٹ گیا، اس کی چین کہاں گئی، عکاشہ نے تاسف سے کہا۔ افراہیم نے اس کے ہاتھ سے پینڈنٹ لے کر سائیڈ پر رکھ دیا، جہاں دو حصوں میں ٹوٹی ہوئی زنجیر رکھی ہوئی تھی، افسوس نہ کرو، جیولر کو بجھوا دوں گا، وہ درست کر کے دے دیں گے، بلکہ شام کو چلتے ہیں، اپنی پسند کا کوئی اور سیٹ خرید لینا، افراہیم نے اس کی گردن سہلاتے ہوئے کہا۔ نہیں مجھے کچھ نہیں لینا، مجھے صرف آپ کی ضرورت ہے، عکاشہ نے اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دیے۔

تین دن اسی طرح گزر گئے، افراہیم نے پینڈنٹ جیولر کو بجھوا دیا۔

افراہیم کا ارادہ ایک ہفتے رکنے کا تھا، لیکن بیٹے کے ایکسڈنٹ کی خبر نے اسے واپس جانے پر مجبور کر دیا۔

عکاشہ آفس میں تھی جب اس نے فون پر یہ خبر سنائی، عکاشہ نے تسلی دینی چاہیے لیکن اس نے سنے بغیر فون بند کر دیا۔ عکاشہ سارا دن دل ہی دل میں دعا کرتی رہی، گھر آکر افراہیم کا نمبر ملایا لیکن وہ بند جا رہا تھا۔ دوسرے دن علی الصبح اس نے پھر فون ملایا۔ جو افراہیم کی بیٹی نے اٹھایا۔ آنٹی بھائی آئی سی یو میں ہے پاپا رات سے وہیں ہیں۔ عکاشہ نے فون بند کر دیا اور اپنے آفس پہنچ گئی۔

لنچ ٹائم میں اس کو جیولر کی طرف سے کال موصول ہوئی کہ آپ کا مرمت شدہ پینڈنٹ پہنچانے کے لئے ورکر آپ کے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑا ہے۔ برائے مہربانی وصول کر لیجیے۔ عکاشہ نے افراہیم کی ناراضگی کے خوف سے مجبوراً جیولر کو آفس کا پتہ دے دیا۔ تھوڑی دیر میں ایک نوجوان لڑکا اس کے کمرے میں داخل ہوا اور پیکٹ اس کے حوالے کرتے ہوئے بولا۔ چیک کر لیجیے میڈم۔ عکاشہ نے پیکٹ لیا اور کھول کر دیکھا، پینڈنٹ جگمگا رہا تھا۔

عکاشہ نے لڑکے کی طرف دیکھا وہ معنی خیز انداز میں مسکرایا اور بولا، صاحب نے ایک اور یپنڈنٹ بھی خریدا ہے آپ کے لئے، جو شاید اگلی ملاقات پر آپ کو دیں۔ عکاشہ نے پینڈنٹ کو دیکھتے ہوئے دل میں کہا، میں سوچتی تھی کہ اس تعلق کا کوئی گواہ نہیں۔ لیکن۔ ۔ ۔ اس نے لڑکے کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور پینڈنٹ ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments